میاں نواز شریف کی واپسی
دیکھنا یہ ہے کہ بڑے میاں جادو کی کیا چھڑی گھماتے ہیں اور کیا چمتکار دکھاتے ہیں
شور برپا تھا کہ میاں نواز شریف اب آرہے ہیں تب آرہے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کب آرہے ہیں۔ کوئی کچھ کہہ رہا تھا اور کوئی کچھ۔ غرض جتنے منہ اُتنی باتیں۔ طرح طرح کی قیاس آرائیاں اور چہ میگوئیاں جاری تھیں۔
آخرکار وہ گھڑی آ ہی گئی جب میاں صاحب واپس وطنِ عزیز تشریف لے ہی آئے۔ اُڑانے والے بے پَر کی یہ بھی اُڑا رہے تھے کہ (خدا نخواستہ) سر زمینِ وطن پر قدم رنجا فرماتے ہی سیدھے جیل جائیں گے۔
میاں صاحب کے چاہنے والے اِس قیاس آرائی کی تردید کر رہے تھے مگر ہوا یہ کہ میاں صاحب تشریف لائے اور اُن کا شایانِ شان خیر مقدم بھی ہوا۔ نہ صرف یہ بلکہ وطن واپسی کے موقع پر اُن کی روانگی پر شایانِ شان پروٹو کول بھی دیا گیا جس کے حوالے سے بھی طرح طرح کی چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں۔
میاں صاحب کی وطن واپسی کے حوالے سے اُن کی جماعت اور حمایتیوں کی جانب سے بار بار شیر آیا، شیر آیا کے نعرے بھی لگائے جا رہے تھے جب کہ اُن کی وطن واپسی کی تاریخوں میں وقتاً فوقتاً اُن کے مخالفین یہ بھی کہہ رہے تھے کہ شیر کبھی نہیں آئے گا۔
بہر حال شیر واپس آہی گیا اور اِس کے ساتھ تمام افواہیں بھی ختم ہوگئیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قائد اور روحِ رواں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد اُن کی وطن واپسی کے موقع پر بھی صورتحال کچھ ایسی ہی تھی۔ جو بھی ہو میاں صاحب کی عدم موجودگی کی وجہ سے سیاسی ماحول میں ایک خلا سا محسوس ہورہا تھا اور اب وطن واپسی کے بعد شاید وہ دل ہی دل میں یہ کہہ رہے ہوں گے:
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اِس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
میاں صاحب کی واپسی سے اُن کی سیاسی جماعت کے تنِ مردہ میں جان پڑگئی ہے اور سوکھتا ہوا شجر سرسبز ہوتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کی سیاست کا تعلق ہے اِس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ محبوب کے مزاج کی طرح ہے جو کسی وقت بھی بدل سکتا ہے۔
میاں نواز شریف کی سابقہ پرفارمنس کے حوالے سے جہاں بہت سی کوتاہیاں اور خامیاں ہیں وہیں اِس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ کامیابیاں اور اچھائیاں بھی ہیں جن سے انکار کرنا زیادتی ہوگی۔
مثال کے طور پر انھوں نے موٹر وے تعمیر کیا، سڑکوں کا جال بچھایا، دہشت گردی اور لاقانونیت کا خاتمہ کیا۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا اور کسی حد تک حالات کو قابو میں رکھا اور مہنگائی کے جن کو بوتل سے باہر نہیں نکلنے دیا۔
قارئینِ کرام ! آپ گواہ ہیں کہ ہم نہ ذوقؔ کی طرح قصیدہ گو ہیں اور نہ ہی سوداؔ کی طرح ہجر گو ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں۔ ہمارا کسی بھی سیاسی عقیدہ یا مسلک سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے اور سیاسی وابستگی ہمارے نزدیک گناہِ کبیرہ اور شجرِ ممنوعہ ہے۔
ہم نے جب چانکیہ اور میکاولی کو پڑھا تھا تو ہمیں اُسی وقت سیاست سے ہمیشہ کے لیے نفرت ہوگئی تھی اور ہم نے عہد کرلیا تھا کہ سیاست تو درکنار اِس کے سایہ کے بھی قریب نہیں جانا اس لیے ہمیں نہ وزارت کی تمنا ہے اور نہ مشاورت کی کوئی خواہش ہے۔ مزید برآں ہمیں مرزا غالبؔ کا یہ اشارہ ہی کافی ہے۔
جس کو ہوں جان و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں
ہم نے سیاست میں اچھے اچھوں کی عزتِ سادات ہی نہیں بلکہ یہ دعویٰ کرنے والوں کی جان بھی جاتی ہوئی دیکھی ہے کہ میری کُرسی بہت مضبوط ہے۔
سوال یہ ہے کہ اِس کے باوجود لیلیٰ سیاست کے مجنوں اِس کے عشق بلکہ جنون میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں؟ وطنِ عزیز کے حوالے سے اِس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ سیاست ایک تجارت ہے جس میں انسان اتنی دولت کما لیتا ہے کہ سات پشتیں بھی اگر بیٹھ کر کھائیں تو یہ خزانہ کبھی کم نہیں ہوتا۔ اسی لیے لوگ سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔
اب آپ ہی بتائیے کہ یہ سودا بُرا ہے یا اچھا۔دوسری بات یہ کہ ایک کلرک کا معمولی سا عہدہ حاصل کرنے کے لیے آدمی کو جو قابلیت دکھانی ہوتی ہے اور جو تگ و دو دکھانی پڑتی ہے سیاستداں بننے کے لیے اُس کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔
ہماری سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں جاگیرداروں اور امراء ہی سیاست میں حصہ لیتے رہے ہیں اور ان کے بعد ان کے بچے' اس طرح سیاست اور اقتدار میں نسل در نسل کا سلسلہ چل رہا ہے' باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی سیاست میں آ کر اقتدار کا حصہ بن جاتا ہے 'عام لوگوں کی حیثیت صرف نعرے لگانے والوں اور ووٹ ڈالنے والوں کی ہوتی ہے۔
عام لوگ اس امید پر اپنے پسندیدہ لیڈر کو ووٹ ڈالتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کرے گا۔بڑے میاں صاحب کی طویل غیر حاضری میں چھوٹے میاں صاحب نے سولہ ماہ کی عبوری حکومت میں جو گُل کھلائے ہیں بڑے میاں کو سب سے پہلے اُن کا بھگتان بھگتنا پڑے گا جو اتنا آسان نہیں ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بڑے میاں جادو کی کیا چھڑی گھماتے ہیں اور کیا چمتکار دکھاتے ہیں۔ انتظار فرمائیے اور دیکھتے جائیے۔
بہرحال یہ خبر گرم ہے کہ ٹارزن کی واپسی کے بعد اب عام انتخابات کا مرحلہ زیادہ دور نہیں رہا اور کم سے کم اِس کا جواز تو کسی صورت بھی باقی نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی انہونی ہوجائے اور دیکھنے والے محض تماشہ دیکھتے رہ جائیں۔آئیے! دعا فرمائیے کہ جو بھی ہو ملک و قوم اور وطنِ عزیز کے پچیس کروڑ عوام کے حق میں بہتر سے بہتر ہو۔