جرائم کی ماں عدم تحفظ
جہاں جہاں اصلی جمہوریت رائج ہے وہاں حکومت حاکم نہیں خادم ہوتی ہے
عدم تحفظ کی بھی ماں ہے جو حکومت کہلاتی ہے اوراس حکومت کی ماں کا نام اشرافیہ ہے یہ شجرہ آگے بھی چل کر ڈاکو اور لٹیرے تک پہنچتا ہے لیکن فی الحال ہمیں جرائم پر بات کرنی ہے ، جرائم پر اس وقت بہت کچھ پڑھا اور لکھا جارہا ہے، بولا جا رہا ہے اور سنا جا رہا ہے۔
اس پر بے شمارکتابیں بھی موجود ہیں ،درسگاہوں میں اسے باقاعدہ ایک مضمون کی صورت میں پڑھایا جاتا ہے اوراس پر بڑی بڑی ڈگریاں بھی لی اوردی جارہی ہیں، بہت سی زبانوں میں مجلے بھی نکلتے ہیں اورٹی وی چینلوں پر بھی کرائم روک ،کرائم اسٹاپ ،کرائم ورلڈ جیسے پروگرام چلتے ہیں لیکن اگر میں یہ کہوں تو آپ کو ہرگز حیران نہیں ہوناچاہیے کہ یہ سب کے سب جرائم کو بڑھاوا تو دیتے ہیں۔
ان میں کمی بالکل نہیں لاتے ، ادھر ادھر کی ہانکتے ہیں لیکن جرائم کی اصل بنیاد کا ذکر تک نہیں کرتے بلکہ یہ ادارے وغیرہ چونکہ حکومتوں کے زیر انتظام یا زیر تسلط ہوتے ہیں اس لیے اصل بنیاد کو چھپانے میں لگے رہتے ہیں یایوں کہیے کہ یہ سب کے سب خود مجرم اوربڑے مجرم کے ساجھے دار ہوتے ہیں ۔
جس اشرافیہ کا میں نے ذکر کیا ہے وہ نہ تو کوئی قوم ہے نہ نسل، نہ مذہب یا نظریہ وعقیدہ بلکہ یہ وہ مخصوص پندرہ فی صد انسانوں کا ایک ٹولہ ہوتاہے جو باقاعدہ پچاسی فی صد اصل انسانوں کا استحصال کرتا ہے بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان پندرہ فی صد خواص کاٹولہ ہوتاہے کہ پندرہ فی صد ہوکر پچاسی فی صد وسائل پڑتا ہے اور اس پچاسی فی صد عوامیہ کے پاس ان کی اپنی کمائی کا پندرہ فی صد بھی نہیں چھوڑتا ، حالانکہ خود پھول کو بھی اپنے لیے خود نہیں توڑتا ، اس اشرافیہ کے طریقہ ہائے واردات کے ہزار پہلو ہیں اورہر ہر پہلو پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن یہاں ہم اس کے اس پہلو پر روشنی ڈالیں گے کہ اس کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ قوم، نہ نسل، نہ ملک نہ وطن نہ نظریہ نہ عقیدہ بلکہ کسی بھی وقت کچھ بھی بن سکتاہے یہ نہ صرف گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے بلکہ اس میں بے پناہ لچک بھی ہوتی ہے کہ بظاہرختم ہوجاتی ہے لیکن موقع ملنے پر دوبارہ ابھر کر چھاجاتاہے ۔
کہتے ہیں کچھ مچھلیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جب پانی ختم ہوجاتاہے اورکیچڑ بھی سوکھ جاتا ہے تو یہ پھر بھی مٹی کے ٹکڑے میں زندہ رہتی ہیں اورمدتوں بعد جب وہ ٹکڑا پانی میں گھل جاتا ہے تو یہ مچھلی بھی زندہ ہوجاتی ہے ۔انسانی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ کسی ملک میں اس کے بے پناہ استحصال سے لوگ تنگ آکر اس کے خلاف اٹھتے ہیں، کوئی تحریک یاکوئی نجات ہندہ شخصیت پیدا ہوتی ہے تو یہ اشرافیہ پہلے اس کا مضحکہ اڑاتی ہے۔
اسے غریب غربا کا وقتی ابال یا شرارت قراردے دیتی ہے لیکن جب وہ تحریک طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے تو پھر اسے طاقت سے دبانے اورختم کرنے کی کوشش کرتی ہے ،اس کے باوجود بھی جب وہ تحریک کامیاب ہوتی ہے تو فوراً گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر یوٹرن لیتی ہے اوراس میں شامل ہوجاتی ہے اوردیکھتے ہی دیکھتے ہراول میں پہنچ کر اس پر قابض ہوجاتی ہے اوراپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے ۔
ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی شریف آدمی کسی بدمعاش سے تنگ آکر کوئی ہتھیار اٹھالیتاہے تو بدمعاش چالاکی سے اس کا وہ ہتھیار چھین کر اسی پر تان دیتاہے چنانچہ اس اشرافیہ یا بدمعاشیہ کے استحصال ظلم اور لوٹ مار کے خلاف جتنی بھی تحریکیں اٹھی ہیں ،مذاہب برپا ہوئے ان پر اس نے قبضہ کرکے اپنے مفادات کے مطابق بنا دیا ہے ۔
اسلام جیسے ہمہ گیر اور مضبوط مذہب کو بھی ابھی نصف صدی نہیں گزری تھی کہ اسی حکمرانیہ اور اشرافیہ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ، بنو ہاشم کے مقابل بنوامیہ میں پھر وہی اشرافیہ سرگرم ہوگئی تھی جس نے اسلام کی اصل تعلیمات سے دوری اختیار کرلی تھی اورناکام ہونے پر ساتھ ہوگئی تھی۔
انسانی نفسیات بھی ایک بہت ہی طاقتورعامل ہے، جذبات کے سرد ہوتے ہی اوردنیاداری کے جذبات کے ابھرتے ہی مزاج بدل گئے اور یزید سے پھروہی اشرافیہ سرگرم ہوگئی ۔ دین کی صرف اصطلاحات باقی رہ گئیں اوراندر وہی زمین پر قبضے اورمال غنیمت کے نام پر لوٹ مار۔
شدآں کہ اہل نظر درکنارہ می دفتند
ہزارگونہ سخنی درد ہان ولب خاموش
جن جن ممالک میں جمہوریت اپنی اصل شکل میں موجود ہے وہاں واقعی عوام پر عوام کی حکومت عوام کے ذریعے ہورہی ہے کیوں کہ وہاں اشرافیہ نہیں ہے بلکہ صحیح اوراصل جمہوریت میں اشرافیہ نہ بن سکتی ہے نہ پنپ سکتی ہے اورنہ استحصال کرسکتی ہے۔
یہ نعمت اس وقت اسکینڈے نوین ممالک اورکسی حد تک برطانیہ اورکینیڈا والوں کو میسر ہے ، باقی ساری دنیا میں جو بھی نام نہاد جمہوریتیں قائم ہیں وہ اشرافیہ کی گرفت میں ہیں یہاں تک کہ امریکا جیسے جمہوریت کے بڑے مدعی کے ہاں بھی اشرافوی جمہوریت رائج ہے وہاں اگر کوئی عوام کے ووٹوں سے جیت بھی جائے تو اشرافوں کا ایک چھوٹا سا ٹولہ جسے الیکٹوریل کالج کہاجاتاہے اسے رد کرکے عوام میں ہارنے والے کو حکمران بنا سکتا ہے جیسا کہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ ہوا تھا اور ہمارے ملک میں تو اس کی مثال اتنی بڑی ہے کہ آدھا ملک قربان کردیاگیا لیکن اشرافیہ کی ناپسندیدہ اکثریت کو حکومت نہیں دی گئی۔
جہاں جہاں اصلی جمہوریت رائج ہے وہاں حکومت حاکم نہیں خادم ہوتی ہے اور اس اصول کے تحت چلتی ہے کہ حکومت اورعوام میں ''حقوق وفرائض'' کی باقاعدہ تقسیم ہوتی ہے اور اس پر دونوں فریق عمل پیرا ہوتے ہیں کہ جمہوریت میں ایک طرح سے عوام اورحکومت میں ایک غیر تحریر شدہ معاہدہ ہوتاہے کہ حکومت کے جو حقوق ہیں وہ عوام کے فرائض ہوتے ہیں جب کہ عوام کے حقوق حکومت کے فرائض ہو ۔ حکومت جو ٹیکس اورواجبات عوام سے وصول کرتی ہے وہ عوام کا فرض ہوتے ہیں اوراس کے بدلے حکومت کا فرض اورعوام کے حقوق یہ ہے ۔
ایک وقت میں میرے پاس پی سی اوتھا تو لوگ دوردورسے ٹیلی فون کرنے آتے تھے جس میں زیادہ تر چراٹ کے علاقے کی خواتین ہوتی تھیں جو انگلینڈ، آسٹریلیا اوراسکینڈے نیوین ملکوں میں اپنے عزیزوں سے بات کرتی تھیں، وہ مجھے فون ملانے کے لیے کہتیں، میں ملادیتا تو مختصربات کرکے دوسری طرف والے(دوسرے ملک میں موجود فرد) سے ٹیلی فون کرنے کو کہہ دیتیں اورپھر ادھر سے کال آنے پر گھنٹوں بات کرتی رہتی تھیں، ایسی بہت سے خواتین سے بات چیت ہوتی رہتی اکثر سے جب پوچھتا کہ تمہارے مرد وہاں کیا کام کرتے ہیں تو کہتیں ۔آج کل الاؤنس پر ہیں ۔
اب ایسے معاشرے اورنظام میں کوئی پاگل ہوگا جو جرم کا سوچے جب بیماری میں حکومت مدد گار ہے، بڑھاپے میں سہارا ہے، معذوری میں ساتھ ہے، جہاں سب کچھ بکتاہو، حفاظت، تعلیم روزگار سب کچھ ،وہاں لوگ جرائم نہیں کریں گے تو کیا کریں گے؟ آپ معاشرے کو صحیح اورہموار معاشرہ بنا دیں پھردیکھیے کہ جرائم کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہے گا ۔ دوسرے الفاظ میں اشرافیہ یا وائٹ کالر جرائم کا خاتمہ کردیں ۔ عام جرائم خود بخود ختم ہوجائیں گے ۔
اس پر بے شمارکتابیں بھی موجود ہیں ،درسگاہوں میں اسے باقاعدہ ایک مضمون کی صورت میں پڑھایا جاتا ہے اوراس پر بڑی بڑی ڈگریاں بھی لی اوردی جارہی ہیں، بہت سی زبانوں میں مجلے بھی نکلتے ہیں اورٹی وی چینلوں پر بھی کرائم روک ،کرائم اسٹاپ ،کرائم ورلڈ جیسے پروگرام چلتے ہیں لیکن اگر میں یہ کہوں تو آپ کو ہرگز حیران نہیں ہوناچاہیے کہ یہ سب کے سب جرائم کو بڑھاوا تو دیتے ہیں۔
ان میں کمی بالکل نہیں لاتے ، ادھر ادھر کی ہانکتے ہیں لیکن جرائم کی اصل بنیاد کا ذکر تک نہیں کرتے بلکہ یہ ادارے وغیرہ چونکہ حکومتوں کے زیر انتظام یا زیر تسلط ہوتے ہیں اس لیے اصل بنیاد کو چھپانے میں لگے رہتے ہیں یایوں کہیے کہ یہ سب کے سب خود مجرم اوربڑے مجرم کے ساجھے دار ہوتے ہیں ۔
جس اشرافیہ کا میں نے ذکر کیا ہے وہ نہ تو کوئی قوم ہے نہ نسل، نہ مذہب یا نظریہ وعقیدہ بلکہ یہ وہ مخصوص پندرہ فی صد انسانوں کا ایک ٹولہ ہوتاہے جو باقاعدہ پچاسی فی صد اصل انسانوں کا استحصال کرتا ہے بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان پندرہ فی صد خواص کاٹولہ ہوتاہے کہ پندرہ فی صد ہوکر پچاسی فی صد وسائل پڑتا ہے اور اس پچاسی فی صد عوامیہ کے پاس ان کی اپنی کمائی کا پندرہ فی صد بھی نہیں چھوڑتا ، حالانکہ خود پھول کو بھی اپنے لیے خود نہیں توڑتا ، اس اشرافیہ کے طریقہ ہائے واردات کے ہزار پہلو ہیں اورہر ہر پہلو پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن یہاں ہم اس کے اس پہلو پر روشنی ڈالیں گے کہ اس کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ قوم، نہ نسل، نہ ملک نہ وطن نہ نظریہ نہ عقیدہ بلکہ کسی بھی وقت کچھ بھی بن سکتاہے یہ نہ صرف گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے بلکہ اس میں بے پناہ لچک بھی ہوتی ہے کہ بظاہرختم ہوجاتی ہے لیکن موقع ملنے پر دوبارہ ابھر کر چھاجاتاہے ۔
کہتے ہیں کچھ مچھلیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جب پانی ختم ہوجاتاہے اورکیچڑ بھی سوکھ جاتا ہے تو یہ پھر بھی مٹی کے ٹکڑے میں زندہ رہتی ہیں اورمدتوں بعد جب وہ ٹکڑا پانی میں گھل جاتا ہے تو یہ مچھلی بھی زندہ ہوجاتی ہے ۔انسانی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ کسی ملک میں اس کے بے پناہ استحصال سے لوگ تنگ آکر اس کے خلاف اٹھتے ہیں، کوئی تحریک یاکوئی نجات ہندہ شخصیت پیدا ہوتی ہے تو یہ اشرافیہ پہلے اس کا مضحکہ اڑاتی ہے۔
اسے غریب غربا کا وقتی ابال یا شرارت قراردے دیتی ہے لیکن جب وہ تحریک طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے تو پھر اسے طاقت سے دبانے اورختم کرنے کی کوشش کرتی ہے ،اس کے باوجود بھی جب وہ تحریک کامیاب ہوتی ہے تو فوراً گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر یوٹرن لیتی ہے اوراس میں شامل ہوجاتی ہے اوردیکھتے ہی دیکھتے ہراول میں پہنچ کر اس پر قابض ہوجاتی ہے اوراپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے ۔
ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی شریف آدمی کسی بدمعاش سے تنگ آکر کوئی ہتھیار اٹھالیتاہے تو بدمعاش چالاکی سے اس کا وہ ہتھیار چھین کر اسی پر تان دیتاہے چنانچہ اس اشرافیہ یا بدمعاشیہ کے استحصال ظلم اور لوٹ مار کے خلاف جتنی بھی تحریکیں اٹھی ہیں ،مذاہب برپا ہوئے ان پر اس نے قبضہ کرکے اپنے مفادات کے مطابق بنا دیا ہے ۔
اسلام جیسے ہمہ گیر اور مضبوط مذہب کو بھی ابھی نصف صدی نہیں گزری تھی کہ اسی حکمرانیہ اور اشرافیہ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ، بنو ہاشم کے مقابل بنوامیہ میں پھر وہی اشرافیہ سرگرم ہوگئی تھی جس نے اسلام کی اصل تعلیمات سے دوری اختیار کرلی تھی اورناکام ہونے پر ساتھ ہوگئی تھی۔
انسانی نفسیات بھی ایک بہت ہی طاقتورعامل ہے، جذبات کے سرد ہوتے ہی اوردنیاداری کے جذبات کے ابھرتے ہی مزاج بدل گئے اور یزید سے پھروہی اشرافیہ سرگرم ہوگئی ۔ دین کی صرف اصطلاحات باقی رہ گئیں اوراندر وہی زمین پر قبضے اورمال غنیمت کے نام پر لوٹ مار۔
شدآں کہ اہل نظر درکنارہ می دفتند
ہزارگونہ سخنی درد ہان ولب خاموش
جن جن ممالک میں جمہوریت اپنی اصل شکل میں موجود ہے وہاں واقعی عوام پر عوام کی حکومت عوام کے ذریعے ہورہی ہے کیوں کہ وہاں اشرافیہ نہیں ہے بلکہ صحیح اوراصل جمہوریت میں اشرافیہ نہ بن سکتی ہے نہ پنپ سکتی ہے اورنہ استحصال کرسکتی ہے۔
یہ نعمت اس وقت اسکینڈے نوین ممالک اورکسی حد تک برطانیہ اورکینیڈا والوں کو میسر ہے ، باقی ساری دنیا میں جو بھی نام نہاد جمہوریتیں قائم ہیں وہ اشرافیہ کی گرفت میں ہیں یہاں تک کہ امریکا جیسے جمہوریت کے بڑے مدعی کے ہاں بھی اشرافوی جمہوریت رائج ہے وہاں اگر کوئی عوام کے ووٹوں سے جیت بھی جائے تو اشرافوں کا ایک چھوٹا سا ٹولہ جسے الیکٹوریل کالج کہاجاتاہے اسے رد کرکے عوام میں ہارنے والے کو حکمران بنا سکتا ہے جیسا کہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ ہوا تھا اور ہمارے ملک میں تو اس کی مثال اتنی بڑی ہے کہ آدھا ملک قربان کردیاگیا لیکن اشرافیہ کی ناپسندیدہ اکثریت کو حکومت نہیں دی گئی۔
جہاں جہاں اصلی جمہوریت رائج ہے وہاں حکومت حاکم نہیں خادم ہوتی ہے اور اس اصول کے تحت چلتی ہے کہ حکومت اورعوام میں ''حقوق وفرائض'' کی باقاعدہ تقسیم ہوتی ہے اور اس پر دونوں فریق عمل پیرا ہوتے ہیں کہ جمہوریت میں ایک طرح سے عوام اورحکومت میں ایک غیر تحریر شدہ معاہدہ ہوتاہے کہ حکومت کے جو حقوق ہیں وہ عوام کے فرائض ہوتے ہیں جب کہ عوام کے حقوق حکومت کے فرائض ہو ۔ حکومت جو ٹیکس اورواجبات عوام سے وصول کرتی ہے وہ عوام کا فرض ہوتے ہیں اوراس کے بدلے حکومت کا فرض اورعوام کے حقوق یہ ہے ۔
ایک وقت میں میرے پاس پی سی اوتھا تو لوگ دوردورسے ٹیلی فون کرنے آتے تھے جس میں زیادہ تر چراٹ کے علاقے کی خواتین ہوتی تھیں جو انگلینڈ، آسٹریلیا اوراسکینڈے نیوین ملکوں میں اپنے عزیزوں سے بات کرتی تھیں، وہ مجھے فون ملانے کے لیے کہتیں، میں ملادیتا تو مختصربات کرکے دوسری طرف والے(دوسرے ملک میں موجود فرد) سے ٹیلی فون کرنے کو کہہ دیتیں اورپھر ادھر سے کال آنے پر گھنٹوں بات کرتی رہتی تھیں، ایسی بہت سے خواتین سے بات چیت ہوتی رہتی اکثر سے جب پوچھتا کہ تمہارے مرد وہاں کیا کام کرتے ہیں تو کہتیں ۔آج کل الاؤنس پر ہیں ۔
اب ایسے معاشرے اورنظام میں کوئی پاگل ہوگا جو جرم کا سوچے جب بیماری میں حکومت مدد گار ہے، بڑھاپے میں سہارا ہے، معذوری میں ساتھ ہے، جہاں سب کچھ بکتاہو، حفاظت، تعلیم روزگار سب کچھ ،وہاں لوگ جرائم نہیں کریں گے تو کیا کریں گے؟ آپ معاشرے کو صحیح اورہموار معاشرہ بنا دیں پھردیکھیے کہ جرائم کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہے گا ۔ دوسرے الفاظ میں اشرافیہ یا وائٹ کالر جرائم کا خاتمہ کردیں ۔ عام جرائم خود بخود ختم ہوجائیں گے ۔