شفاف انتخابات اور ہمارا نظام
پاکستان کے سیاسی اورجمہوری نظام میں انتخابات کے نتائج پر ہمیشہ تحفظات رہے ہیں
منصفانہ اور شفاف انتخابات ہماری ترجیح ہونی چاہیے ۔ لیکن پاکستان کے سیاسی اورجمہوری نظام میں انتخابات کے نتائج پر ہمیشہ تحفظات رہے ہیں۔
ہم شفاف انتخابات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے کے بجائے اپنی مرضی او رمنشا کے مطابق انتخابی نتائج کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔
انتخابات سے پہلے انتخابات کے نتائج کے بارے میںروڈ میپ تیار کرنا، انتخابی نتائج کو تیار کرنا ، کسی کی حمایت میں انتخابی ماحول بنانا ہماری حکمت عملی کا حصہ رہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کی انتخابی عمل کی ساکھ یا اس کی شفافیت پر ہمیشہ سے سوالات بھی رہے ہیں اور یہ عمل متنازعہ بھی رہے ہیں۔
اس وقت 2024میںعام انتخابات کا چرچہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے بقول جنوری 2024کے آخری ہفتہ میں یہ انتخابات متوقع ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود انتخابات کی تاریخ یا انتخابات کے انعقاد پر ابہام موجود ہے ۔ اول یہ ابہام کب ٹوٹے گا او رکب حتمی طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جاتا ہے ؟ دوئم انتخابات کے انعقاد پر اس کی شفافیت اور ساکھ کیا ہوگی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی اور صحافتی پنڈتوں نے انتخابات سے پہلے ہی نتائج کا اعلان کردیا ہے۔
نواز شریف کی واپسی کو جہاں اسٹیبلیشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان ایک خاص ڈیل کے تناظر میں پیش کیا جارہا ہے وہیں یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ مستقبل کے حکمرانوں کے بارے میں حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔منطق یہ دی جارہی ہے کہ ہماری طاقت ور قوتوں کے لیے نواز شریف ناگزیر ہے اوراسی بنیاد پر ان سے کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر معاملہ طے ہوا ہے ۔
نواز شریف کی واپسی کو بھی انتخابات سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے او رسارے سیاسی پنڈت نواز شریف کی مقبولیت کے مقابلے میں قبولیت کی باتیں کر رہے ہیں۔
میرے نزدیک پی ٹی آئی کی مقبولیت اس وقت سب سے زیادہ ہے مگر اس کی قبولیت کا پہلو کمزور بھی ہے بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ ن کو سازگار ماحول مل رہا ہے ، ان کے سب سے بڑے سیاسی مخالف اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور مقدمات بھگت رہے ہیں۔ ملک کا نگران سیٹ اپ مسلم لیگ ن کے لیے نرم گوشہ رکھتاہے ۔ الیکشن کمیشن بھی تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیںلیول پلینگ فیلڈ کی باتیں کررہی ہیں ۔
ادھر سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ بھی جاری ہے اور نئی نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل بھی ہورہی ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے سیاسی رکاوٹیں زیادہ ہورہی ہیں۔ہم ہائبرڈ جمہوری نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔
ایسے لگتا ہے کہ ایک کمزور جمہوری نظام او رکمزور حکومت کی تشکیل ہماری ترجیح کا حصہ ہے ۔جب اہل دانش یا رائے عامہ تشکیل کرنے والے افراد یا ادارے نئے نظام یا نئی حکومت کے خدوخال بیان کررہے ہیں تواس کی بنا پر ہم اپنے جمہوری نظام اور انتخابی نظام کی ساکھ کا تعین کرسکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
ہمارا مجموعی سیاسی و انتخابی نظام عدم شفافیت کا شکار ہے ، لوگوں کاسیاست، جمہوریت او رانتخابات کی ساکھ پر اعتماد ختم ہورہا ہے او رلوگوں کو لگتا ہے کہ نظام تبدیل نہیں ہوگا ۔یہ جو ہماری سوچ اور فکر ہے کہ ہم اپنی مرضی او رمنشا کے مطابق انتخابات کے ذریعے سیاسی او رمعاشی استحکام کو یقینی بناسکیں گے۔
مکمل غلط ہے ۔کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ انتخابات کے عمل کو متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی، اگر ایسا ہوا تو اس سے محاذ آرائی، ٹکراؤ اور تناؤ کا ماحول زیادہ غالب ہوگا۔ ہم معاملات کو درست کرنے کے بجائے اس میں بگاڑ پیدا کرنے کے کھیل کا حصہ بن جائیں گے۔ اگر ہم نے عام انتخابات کو محض ایک سیاسی ایکسرسائز بنانا ہے تو یہ جمہوری نظام کی نفی کے مترادف ہوگا۔ پہلے ہی سیاسی وجمہوری نظام کمزور ہے جس کی وجہ سے غیر جمہوری قوتیں طاقتور ہورہی ہیں، جمہوریت مزید تیزی سے کمزو ہورہی ہے ۔
محض سیاست یا جمہوریت ہی نہیں بلکہ اس سے جڑے باقی تمام ادارے جن میںمیڈیا اور سول سوسائٹی بھی شامل ہیں کمزور وکٹ پر کھڑے ہیں۔ جمہوریت کی کمزوری کا یہ عمل ہمیں جمہوریت کے قریب نہیں بلکہ مزید جمہوریت کی منزل سے دور لے جارہا ہے۔
ایک طرف ہم ہائبرڈ نظام کی مخالفت کرتے ہیں تو دوسری طرف ہائبرڈ یا ریموٹ کنٹرول نظام کی پزیرائی یا حمایت کرنے میں پیش پیش ہیں۔ جمہوریت کے مقدمہ کی کمزوری کی وجہ محض اسٹیبلیشمنٹ ہی نہیں بلکہ وہ تمام سیاسی قوتیں بھی ہیں جو عوام کی حمایت یا ووٹ کی بنیاد پر اقتدار میں آنے کے بجائے اسٹیبلیشمنٹ کی طاقت کی بنیاد پر اپنے اقتدار کا حصول چاہتے ہیں ۔
اصل مسئلہ عوام کی حق حکمرانی کو قبول کرنے کا ہے۔ بنیادی طو رپر جمہوریت میں عوام ہی یہ طے کرتے ہیں کہ وہ کس کو ووٹ دیتے ہیں او رکس کو اقتدار میں لاتے ہیں۔
جمہوری قوتوں کی سیاسی جدوجہد بھی اسی نقطہ کے گرد گھومتی ہے ۔لیکن یہاں عوام کے حق حکمرانی کو قبول نہ کرنے کی روش نے ملک یا ریاست کے نظام کو کمزور بنیادوں پر کھڑا کردیا ہے ۔یہ سب کچھ بڑی ڈھٹائی اور آئین و قانون سے بالاتر ہوکر کیا جاتا تھا اور اب بھی کیا جارہا ہے ،ایسے لگتا ہے کہ ہمارا مجموعی نظام طاقتورافراد کی خواہشات کے گرد گھومتا ہے ۔
ان ہی افراد کی خواہشات کو ہی آئین و قانون کا درجہ حاصل ہے ۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرز کے غیر آئینی اور غیر قانونی طریقہ کار یا سیاسی او رجمہوریت کی نفی کی بنیاد پر جو کھیل سجایا جاتا ہے وہ کسی بھی سطح پر اپنی ساکھ کو قائم نہیں کر سکتا۔اسی لیے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے بعد بھی قومی سیاسی بحران ختم نہیں ہوتا ۔لیکن شاید ہم پر سیاسی مہم جوئی ہی غالب ہے ۔ افراد کی محبت اور دشمنی کا یہ کھیل سب کو برباد کرے گا۔
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم انتخابات کی شفافیت کو ہی اپنی ترجیحات کا حصہ بنالیں اور فیصلہ لوگوں کو ہی کرنے دیں کہ وہ کس کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
اسی سوچ او رفکر کی بنیاد پر جمہوریت کا سفر آگے بڑھتا ہے اور جمہوری عمل اپنی سیاسی ساکھ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس لیے جو بھی ملک میں جمہوری قوتیں ہیں یا جو جمہوریت کو ہی دیکھنا چاہتے ہیں ان کو اس ذاتی، گروہی مفادات سے بالا تر ہوکر نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔