بھارت قطر میں بھی پکڑا گیا
قطر نے بھارت سے 9ارب ڈالر کی تجارت کے باوجود اسے کوئی لفٹ نہیں کرائی ہے
قطر کی عدالت نے بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزامات ثابت ہو جانے کے بعد موت کی سزا سنا دی ہے۔
کینیڈا میں آزاد خالصتان کے رہنماؤں کی 'ٹارگٹ کلنگ' کے معاملے کی گرد ابھی ٹھیک سے نہیں بیٹھی کہ اب قطر میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کے ثبوت سامنے آئے ہیں۔ لگتا ہے ایسے کاموں کے لیے بھارت اپنی بحریہ کو زیادہ استعمال کر رہا ہے کیوں کہ ہمارے ہاں بھی جو بھارتی جاسوس دہشت گردی منظم کرنے کے جُرم پر پابند سلاسل ہے اس کا تعلق بھی بھارتی بحریہ سے ہے۔
مجرم قرار پانے والوں میں کیپٹن نوجیت سنگھ گل (بھارتی بحریہ میں کیپٹن کا رینک بری فوج کے کرنل کے برابر ہوتا ہے)، کیپٹن سہراب داششت' کمانڈر (بری فوج میں متوازی رینک لیفٹیننٹ کرنل) پوری نندو تیواڑی' کیپٹن برندرا کمار ورما' کمانڈر سگونا کار پاکلا' کمانڈر سنجیو گپتا' کمانڈر امیت ناگ پال اور سلیر(سپاہی) راکیش شامل ہیں۔
یہ سابق افسران الدہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ سروسز میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ قطری وزارت دفاع کے لیے کام کرنے والی اس کمپنی میں زیادہ تر بھارتی شہری کام کر رہے تھے۔ کمپنی میں کام کرنے والے اسرائیل کی جاسوسی کرتے پکڑے گئے تو 31 مئی کو اسے بند کر دیا گیا۔
اس کمپنی کا مالک اومان کی فضائیہ کا سابق اسکواڈرن لیڈر خمیس العجمی ہے۔ جیسے ہی ان آٹھ جاسوسوں کی گرفتاری عمل میں آئی یہ صاحب بھاگم بھاگ سرکار کے دروازے پر پہنچے تاکہ گرفتار شدگان کی رہائی کا بندوبست کر سکیں لیکن قطری ایجنسیوں نے قیدیوں کو چھوڑنے کے بجائے الٹا خمیس العجمی کو بھی گرفتار کرکے نظر بند کر دیا۔ دو مہینے چھان بین کے بعد خمیس کو رہا کیا گیا۔
ذرا تصور کریں یہ واقعہ اگر پاکستان میں ہوتا تو گرفتار شدگان کو بچ نکلنے کے لیے کتنے غیر معمولی مواقع فراہم ہوتے جہاں قانونی اعتبار سے ضمانت کے حقدار مہینوں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں اور سزا یافتہ مجرموں کے سامنے انصاف کا پورا نظام ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کمپنی بند ہو جانے کے نتیجے میں 75بھارتیوں سمیت اس کے تمام ملازمین فارغ ہو گئے ہیں۔
پکڑے جانے والے یہ جاسوس گزشتہ پانچ برسوں میں کمپنی ملازمین کے بہروپ میں قطر کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں خفیہ معلومات بھارت اور بھارتی حکومت کی ایما پر اسرائیل کو فراہم کر رہے تھے۔ قطری خفیہ ایجنسیوں کو اگست 2022 میں ان افراد کی خفیہ پیغام رسانی کے ثبوت ملے جس پر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
قطر کے جس دفاعی منصوبے کے ساتھ یہ بھارتی منسلک تھے اس کی کثیرجہتی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت اور پاکستان پہلے ہی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس آبدوزوں کے لیے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں اور قطر بھی اٹلی سے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کی حامل آبدوزوں کے حصول کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
یہاں ضروری ہے کہ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حوالے سے چند معلومات تحریر کی دی جائیں۔ ہر اس فوجی مشین کو اسٹیلتھ صلاحیت کا حامل کہا جاتا ہے جس کا انسانی نظر کی حد سے باہر قبل از وقت پتہ نہ چلایا جا سکے۔ جیسے جنگی طیاروں کو ریڈار سیکڑوں کلو میٹر دور سے پکڑ لیتا ہے' اسٹیلتھ طیارہ ریڈار کی اسکرین پر نظر نہیں آتا۔ جس طرح زمین اور فضا پر ریڈار استعمال ہوتا ہے' اسی طرح پانی میں چھپی دشمن آبدوزوں کا پتہ چلانے کے لیے جو آلہ استعمال ہوتا ہے اسے 'سونار' کہا جاتا ہے۔
اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس آبدوز سونار کو چکمہ دے دیتی ہے۔ قطر اپنی بحریہ کے لیے ٹائپ 212 نامی آبدوزیں اٹلی کی مدد سے تیار کر رہا ہے۔ یہ آبدوز درحقیقت جرمنی اور اٹلی کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ جرمنی میں اسے U-Boot-Klasse 212A جب کہ اٹلی میں Todaro کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسے چلانے کے لیے دو طرح کے توانائی کے ذرایع میسر ہوتے ہیں۔
ایک ڈیزل انجن ہوتا ہے جو حالت امن یا خطرے سے دور اسے قوت فراہم کرتا جب کہ خطرے سے چُھپنے Compressed Hydrogen fuel cells توانائی فراہم کرتے ہیں یوں آبدوز تین ہفتے تک خاموشی سے سمندر کے نیچے رہ سکتی ہے۔ قطر ان صلاحیتوں سے لیس نسبتاً چھوٹے حجم کی آبدوزوں کی صلاحیت حاصل کرنے پر کام کر رہا ہے۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ بھارتی سابق نیوی اہلکار بھارت کے بجائے قطر سے وفاداری کا مظاہرہ کریں گے تو اس پر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ یہ لوگ ایک طرف سے یہ معلومات اسرائیل کو فراہم کر رہے تھے اور دوسری طرف یقیناً خود بھارت بھی اس سے مستفید ہو رہا ہو گا۔
ان جاسوسوں کے پکڑے جانے اور ان پر مقدمہ چلنے پر بھارت اُسی متکبرانہ رویے کا مظاہرہ کر رہا تھا جیسا امریکی کیا کرتے ہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بھارت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پاکستان نے ماضی میں جن بھارتی جاسوسوں کو ''خیر سگالی'' میں رہا کیا بھارت جاکر انھوں نے میڈیا میں مزے لے لے کر اپنے کارنامے بیان کیے۔
ہم کلبھوشن کی رہائی کا بہانہ تلاش کرنے کے لیے اس کا مقدمہ عالمی عدالت تک لے گئے تاکہ اس کی رہائی مجبوری ظاہر کر کے بھارت کو خوش کر سکیں۔ لیکن قطر نے بھارت سے 9ارب ڈالر کی تجارت کے باوجود اسے کوئی لفٹ نہیں کرائی ہے۔ اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے اسے بھی آئی ایس آئی پر ڈالنے کی کوشش کی جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ قطری ایجنسیاں اس قابل نہیں، پاکستان ہی بھارت کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔
یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ قطر کی حکومت اس معاملے میں مکمل آپریشن کلین اپ پر غور کر رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قطری حکام سمجھتے ہیں وہاں کام کرنے والے دیگر بہت سے بھارتی بھی یقیناً اسی طرح کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ واقعہ یقیناً دوسرے عرب ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
یہ حقیقت بھی کُھل کر سامنے آ گئی ہے کہ بھلے امریکا عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر آمادہ کر لے اسرائیل ان کے خلاف جارحانہ طرز عمل نہیں بدلے گا۔ اسرائیل کو مطیع اور فرمانبردار مشرق وسطٰی درکار ہے۔
کینیڈا میں آزاد خالصتان کے رہنماؤں کی 'ٹارگٹ کلنگ' کے معاملے کی گرد ابھی ٹھیک سے نہیں بیٹھی کہ اب قطر میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کے ثبوت سامنے آئے ہیں۔ لگتا ہے ایسے کاموں کے لیے بھارت اپنی بحریہ کو زیادہ استعمال کر رہا ہے کیوں کہ ہمارے ہاں بھی جو بھارتی جاسوس دہشت گردی منظم کرنے کے جُرم پر پابند سلاسل ہے اس کا تعلق بھی بھارتی بحریہ سے ہے۔
مجرم قرار پانے والوں میں کیپٹن نوجیت سنگھ گل (بھارتی بحریہ میں کیپٹن کا رینک بری فوج کے کرنل کے برابر ہوتا ہے)، کیپٹن سہراب داششت' کمانڈر (بری فوج میں متوازی رینک لیفٹیننٹ کرنل) پوری نندو تیواڑی' کیپٹن برندرا کمار ورما' کمانڈر سگونا کار پاکلا' کمانڈر سنجیو گپتا' کمانڈر امیت ناگ پال اور سلیر(سپاہی) راکیش شامل ہیں۔
یہ سابق افسران الدہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ سروسز میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ قطری وزارت دفاع کے لیے کام کرنے والی اس کمپنی میں زیادہ تر بھارتی شہری کام کر رہے تھے۔ کمپنی میں کام کرنے والے اسرائیل کی جاسوسی کرتے پکڑے گئے تو 31 مئی کو اسے بند کر دیا گیا۔
اس کمپنی کا مالک اومان کی فضائیہ کا سابق اسکواڈرن لیڈر خمیس العجمی ہے۔ جیسے ہی ان آٹھ جاسوسوں کی گرفتاری عمل میں آئی یہ صاحب بھاگم بھاگ سرکار کے دروازے پر پہنچے تاکہ گرفتار شدگان کی رہائی کا بندوبست کر سکیں لیکن قطری ایجنسیوں نے قیدیوں کو چھوڑنے کے بجائے الٹا خمیس العجمی کو بھی گرفتار کرکے نظر بند کر دیا۔ دو مہینے چھان بین کے بعد خمیس کو رہا کیا گیا۔
ذرا تصور کریں یہ واقعہ اگر پاکستان میں ہوتا تو گرفتار شدگان کو بچ نکلنے کے لیے کتنے غیر معمولی مواقع فراہم ہوتے جہاں قانونی اعتبار سے ضمانت کے حقدار مہینوں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں اور سزا یافتہ مجرموں کے سامنے انصاف کا پورا نظام ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کمپنی بند ہو جانے کے نتیجے میں 75بھارتیوں سمیت اس کے تمام ملازمین فارغ ہو گئے ہیں۔
پکڑے جانے والے یہ جاسوس گزشتہ پانچ برسوں میں کمپنی ملازمین کے بہروپ میں قطر کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں خفیہ معلومات بھارت اور بھارتی حکومت کی ایما پر اسرائیل کو فراہم کر رہے تھے۔ قطری خفیہ ایجنسیوں کو اگست 2022 میں ان افراد کی خفیہ پیغام رسانی کے ثبوت ملے جس پر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
قطر کے جس دفاعی منصوبے کے ساتھ یہ بھارتی منسلک تھے اس کی کثیرجہتی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت اور پاکستان پہلے ہی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس آبدوزوں کے لیے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں اور قطر بھی اٹلی سے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کی حامل آبدوزوں کے حصول کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
یہاں ضروری ہے کہ اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حوالے سے چند معلومات تحریر کی دی جائیں۔ ہر اس فوجی مشین کو اسٹیلتھ صلاحیت کا حامل کہا جاتا ہے جس کا انسانی نظر کی حد سے باہر قبل از وقت پتہ نہ چلایا جا سکے۔ جیسے جنگی طیاروں کو ریڈار سیکڑوں کلو میٹر دور سے پکڑ لیتا ہے' اسٹیلتھ طیارہ ریڈار کی اسکرین پر نظر نہیں آتا۔ جس طرح زمین اور فضا پر ریڈار استعمال ہوتا ہے' اسی طرح پانی میں چھپی دشمن آبدوزوں کا پتہ چلانے کے لیے جو آلہ استعمال ہوتا ہے اسے 'سونار' کہا جاتا ہے۔
اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس آبدوز سونار کو چکمہ دے دیتی ہے۔ قطر اپنی بحریہ کے لیے ٹائپ 212 نامی آبدوزیں اٹلی کی مدد سے تیار کر رہا ہے۔ یہ آبدوز درحقیقت جرمنی اور اٹلی کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ جرمنی میں اسے U-Boot-Klasse 212A جب کہ اٹلی میں Todaro کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسے چلانے کے لیے دو طرح کے توانائی کے ذرایع میسر ہوتے ہیں۔
ایک ڈیزل انجن ہوتا ہے جو حالت امن یا خطرے سے دور اسے قوت فراہم کرتا جب کہ خطرے سے چُھپنے Compressed Hydrogen fuel cells توانائی فراہم کرتے ہیں یوں آبدوز تین ہفتے تک خاموشی سے سمندر کے نیچے رہ سکتی ہے۔ قطر ان صلاحیتوں سے لیس نسبتاً چھوٹے حجم کی آبدوزوں کی صلاحیت حاصل کرنے پر کام کر رہا ہے۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ بھارتی سابق نیوی اہلکار بھارت کے بجائے قطر سے وفاداری کا مظاہرہ کریں گے تو اس پر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ یہ لوگ ایک طرف سے یہ معلومات اسرائیل کو فراہم کر رہے تھے اور دوسری طرف یقیناً خود بھارت بھی اس سے مستفید ہو رہا ہو گا۔
ان جاسوسوں کے پکڑے جانے اور ان پر مقدمہ چلنے پر بھارت اُسی متکبرانہ رویے کا مظاہرہ کر رہا تھا جیسا امریکی کیا کرتے ہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بھارت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پاکستان نے ماضی میں جن بھارتی جاسوسوں کو ''خیر سگالی'' میں رہا کیا بھارت جاکر انھوں نے میڈیا میں مزے لے لے کر اپنے کارنامے بیان کیے۔
ہم کلبھوشن کی رہائی کا بہانہ تلاش کرنے کے لیے اس کا مقدمہ عالمی عدالت تک لے گئے تاکہ اس کی رہائی مجبوری ظاہر کر کے بھارت کو خوش کر سکیں۔ لیکن قطر نے بھارت سے 9ارب ڈالر کی تجارت کے باوجود اسے کوئی لفٹ نہیں کرائی ہے۔ اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے اسے بھی آئی ایس آئی پر ڈالنے کی کوشش کی جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ قطری ایجنسیاں اس قابل نہیں، پاکستان ہی بھارت کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔
یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ قطر کی حکومت اس معاملے میں مکمل آپریشن کلین اپ پر غور کر رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قطری حکام سمجھتے ہیں وہاں کام کرنے والے دیگر بہت سے بھارتی بھی یقیناً اسی طرح کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ واقعہ یقیناً دوسرے عرب ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
یہ حقیقت بھی کُھل کر سامنے آ گئی ہے کہ بھلے امریکا عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر آمادہ کر لے اسرائیل ان کے خلاف جارحانہ طرز عمل نہیں بدلے گا۔ اسرائیل کو مطیع اور فرمانبردار مشرق وسطٰی درکار ہے۔