کیا ہم سولہویں صدی میں رہ رہے ہیں

یہ علمی آزادی ہی تو ہے جس کی بناء پر یونیورسٹیوں میں نئی ایجادات ہوتی ہیں،نئے نظریات پیش کیے جاتے ہیں

tauceeph@gmail.com

گلیلیو Galileo Divincenzo اٹلی کے شہر پیسا (Pisa) میں 15 فروری 1569ء میں پیدا ہوا۔ گلیلیو ایک فلاسفر، اسٹرونومر (Astronomer) اور ریاضی دان تھا۔

گلیلیو نے سائنس کے بنیادی نظریات حرکات (Motion)اور فلکیات (Astronomy) میں بنیادی تحقیق کی اور سائنسی نظریات پیش کیے۔ گلیلیو کا ایک کارنامہ ایک بہت بڑی ٹیلی اسکوپ بنانا تھا۔ اس نے اس طاقتور ٹیلی اسکوپ کے ذریعے جپیٹر کے چار چاند Moons of Jupiter دریافت کیے۔ گلیلیو نے دریافت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔

اس زمانہ میں رجعت پسند کیتھولک چرچ میں آمریت تھی۔ اس وقت کے چرچ نے گلیلیو پر بدعت کے ارتکاب کا الزام لگایا۔ گلیلیوکو عدالت میں پیش کیا گیا۔ گلیلیو کو کہا گیا کہ مذہب کی توہین کا ذمے دار ہے اور اس کو یہ نظریہ واپس لینا چاہیے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ گلیلیو نے وقتی طور پر چرچ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ کسی شاگرد نے گلیلیو سے سوال کیا کہ '' اس نے معافی کیوں مانگی؟ ''

گلیلیو نے جواب دیا کہ '' چرچ اور پادری مانیں نا مانیں زمین سورج کے گرد گھومتی رہے گی'' مگرگلیلیو نے اپنی تحقیق جاری رکھی، اس کے شاگردوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ فلکیات، فلسفہ اور مذہبی نظریات کے بارے میں گلیلیوکی تحقیق سے چرچ کے سامنے نئے تضادات ابھر کر سامنے آنے لگے۔ رومن انکوزیشن Roman Inquisition نے گلیلیو کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا۔

گلیلیو پر مذہبی نظریات کی توہین اور بدعت کے الزامات کے تحت عمر قید کی سزا دی گئی۔ چرچ کی عدالت نے رحم دلی کا ثبوت دیتے ہوئے گلیلیوکی بیماری اور طویل عمرکی بناء پر گھر میں نظر بند کیا، جہاں یہ عظیم سائنس دان 1642کو انتقال کر گیا، مگر گلیلیو کے نظریات سائنس کی ترقی کی بنیاد بن گئے۔

نیوٹن کی تحقیق نے گلیلیوکے نظریات کی تصدیق کی۔ چرچ کی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں مگر ان تبدیلیوں میں ساڑھے تین سال تک کے پوپ پال دوئم نے یہ اعتراف کیا کہ گلیلیو سچا تھا، زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ گلیلیو کو دی جانے والی سزا پر کیتھولک چرچ شرمندہ ہے۔ چرچ کا یہ اعتراف اس امر کا بھی اعتراف تھا کہ صدیوں سے رائج یہ تصور غلط ہے کہ چرچ کی کہی ہوئی ہر بات حرفِ آخر ہے۔


چارلس ڈارون کا تعلق برطانیہ سے تھا، وہ 12فروری 1809 کو پیدا ہوا۔ وہ بنیادی طور پر Natoralist، Biologist اور Geologist تھا۔ ڈارون نے بحرۂ اوقیانوس اور اس کے جزیروں میں برسوں تحقیق کی تھی اور نظریہ ارتقاء پیش کیا تھا۔ ڈارون کی تحقیق کا دائرہ کار پودے ، درخت اور زندہ رہنے والے پرندوں اور کیڑے مکوڑوں، درخت اور جانوروں پر محیط ہے۔ ڈارون کا نظریہ ارتقاء بائیولوجیکل سائنس کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام دنیا بشمول مسلمان ممالک بائیولوجیکل سائنس کے تمام اقسام زولوجی، بوٹنی ، بائیو کیمسٹری اور فزیالوجی کے مضامین میں ڈارون کا نظریہ ارتقاء شامل ہے۔

تین سال قبل جب چین سے کورونا 19 کا مرض پھیلا تو سائنس دانوں نے تحقیق سے بتایا کہ یہ مرض چمگادڑ سے پیدا ہوا ہے۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے تحت اس مرض کے تدارک کی ویکسین تیار ہوئی جس سے پوری دنیا میں کورونا 19 کے مرض کا تدارک کیا گیا۔ خواتین کی آزادی، اپنی مرضی سے تعلیم اور پیشہ اختیار کرنے اور شادی کرنے کے حق کی ضمانت پاکستان کے آئین میں دی گئی۔ اب یہ آزادی ایران اور سعودی عرب میں بھی خواتین کو حاصل ہوگئی۔

اس صدی کی تاریخ گواہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے امریکی سی آئی اے کے ذریعے جو افغان جہاد شروع کیا تھا اس میں افرادی قوت کی فراہمی کے لیے تعلیمی نصاب میں رجعت پسند مواد کو فوقیت دی گئی تھی جس کے نتیجے میں ملک صرف دہشت گردی کا شکار ہی نہیں ہوا بلکہ دوسری طرف دہشت گردوں کی ایکسپورٹ کا مرکز بن گیا۔ ان رجعت پسند قوتوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں عائد ہوئیں۔

ان رجعت پسند عناصر نے سابقہ قبائلی علاقوں میں طالبات کے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو تباہ کیا، خواتین کو ووٹ دینے اور کام کرنے سے روکا، ان عناصر کے نزدیک بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا خلافِ شریعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے والے طبی عملہ اور ان کے سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر سیکڑوں حملے ہوچکے ہیں۔ جب بھی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع ہوتی ہے تو طبی عملہ اور پولیس اہلکاروں کی شہادتوں کی خبریں آتی ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پولیوکا وائرس چاروں صوبوں کے مختلف شہروں کے گندے نالوں سے ملا ہے اس لیے پولیو کا مرض اب تک پاکستان میں ختم نہیں ہو رہا۔ محقق ڈاکٹر محمد عرفان عزیز اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سائنسی مضامین کی تدریس رک گئی تو ہمارا تعلیمی نظام زمین بوس ہوجائے گا اور یہ ملک پتھر کے زمانہ کی طرف چلا جائے گا۔ استاد کو طاقت کے ذریعے کسی مضمون کی تعلیم سے روک کر علمی ادارے کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ علمی آزادی ہی تو ہے جس کی بناء پر یونیورسٹیوں میں نئی ایجادات ہوتی ہیں،نئے نظریات پیش کیے جاتے ہیں اور معاشرہ ترقی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ پاکستان کی فوج اور پولیس خیبر پختون خوا ان رجعت پسند قوتوں کا قلع قمع کرنے کی جدوجہد کررہی ہے۔ اس جنگ میں سیکڑوں فوجی اور پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ بنوں کے واقعے سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں کہ یہ علاقہ عملاً رجعت پسند قوتوں اور تحریک طالبان پاکستان کے نرغے میں ہے۔

حکومت اور سیاسی جماعتوں کی مجرمانہ خاموشی سے ان قوتوں کو تقویت ملے گی جو معاشرہ کو دو ہزار سال پیچھے لے جائے گی۔ گلیلیو تو 16ویں صدی میں پیدا ہوا تھا ، کیا ہم اب بھی 16ویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں؟
Load Next Story