پرائیویٹ اسکولز کیا واقعی ’’مافیا‘‘ ہیں
''پرائیویٹ اسکولز مافیا ہیں۔ یہ لوٹتے ہیں، یہ لاکھوں روپے کماتے ہیں، پرائیویٹ اسکول مالکان نے عوام کو لوٹ کر کروڑوں روپے بنا لیے، پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کا استحصال ہوتا ہے''۔ یہ وہ سوچ ہے جو عوام میں پیدا ہورہی ہے اور کچھ صحافی احباب، والدین کی قائم کردہ چند تنظیمیں اور کچھ سرکاری افسران اس سوچ کو عام کرنے میں اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کررہے ہیں۔
اس سوچ کا جائزہ لیجیے۔ کیا پرائیویٹ اسکولز واقعی مافیا ہیں؟ اس کا جواب ہاں ہے لیکن کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی صرف 5 فیصد اسکولوں کےلیے۔
یہ اسکول کئی ہزار روپے داخلہ فیس کے نام پر لیتے ہیں اور ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو داخلہ فیس لاکھوں میں بھی وصول کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کا نصاب اس قدر مہنگا ہے کہ مجھ جیسا شخص اگر ایک طالب علم کےلیے خریدنا چاہے تو شاید گھر کی کوئی قیمتی چیز فروخت کرنا پڑے کیوں کہ اس کی قیمت میری آمدن سے کافی زیادہ ہے۔ ان اسکولوں میں سے کئی کی ماہانہ فیس حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ کی نصف یا پوری تنخواہ کے برابر ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان اسکولوں میں پورا سال داخلے بند رہتے ہیں۔ سال بھر میں صرف چند دن کےلیے داخلہ کھولا جاتا ہے اور داخلہ حاصل کرنے والوں کی مراد بڑی بڑی سفارشوں کے بعد پوری ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ کو کہہ دیا جاتا ہے آپ کے بچے کا نام درج کردیا گیا ہے، تمام تر واجبات ادا کریں اور بچے کو اگلے سال داخل کرائیں۔ اور کچھ بدنصیب نامراد بھی لوٹتے ہیں۔
یہ اسکول جو ایک عام شخص کےلیے مافیا ہیں، ملک کی اشرافیہ کےلیے بہترین تعلیمی نظام کے حامل ادارے ہیں۔ یہ اسکول بنے ہی ملک کی اشرافیہ کے بچوں کےلیے ہیں اور وہ خوشی سے اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں۔ ایک عام پاکستانی اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں داخل کرانے کی خواہش ضرور کرسکتا ہے لیکن ایسا کرنا اس کےلیے ممکن نہیں۔ اور اگر وہ قرض لے کر یا کچھ فروخت کرکے ایسا کرتا ہے تو شاید اس سے بڑا نادان کوئی نہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی کہ میری جیب مجھے اجازت بس میں سفر کرنے کی دے لیکن میں جہاز کی وی آئی پی کلاس میں سفر کرنے کے خواہش کروں۔
اب ذرا کراچی کے 95 فیصد اسکولوں کی جانب نظر دوڑائیے۔ یقینی طور پر ان میں بھی اچھے برے ہوں گے، جیسا کہ ماضی میں اسکولوں کی جانب سے مخصوص دکانوں سے کاپیاں، کتابیں یا یونیفارم خریدنے کو لازم قرار دیا گیا جسے عدالت نے کالعدم قرار دیا اور ایسے اسکولوں کے خلاف کارروائی بھی ہوئی۔ لیکن ان میں سے اکثر اسکول مڈل کلاس طبقے کےلیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں یہ اسکول خاصی اہمیت کے حامل ہیں، جہاں کی صوبائی حکومتیں شاید تعلیم کو نئی نسل کےلیے مضر صحت تصور کرتی ہیں۔ اسی لیے ماضی میں سرکاری اسکولوں اور کالجوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
یہ بات صرف کراچی کے اسکولوں کےلیے مخصوص نہیں بلکہ صوبے بھر کے پچانوے فیصد وہ اسکول جہاں مڈل کلاس افراد یا غریب لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں، ان کی عمارتیں کرائے کی ہیں۔ کرائے کی مد میں ان اسکولوں کو لاکھوں روپے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان اسکولوں کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ ان اسکولوں میں طلبا کی کل تعداد کے دس فیصد ایسے بچوں کو داخلہ دیں گے جو فیس نہیں دے سکتے، یہ طلبا مفت پڑھیں گے۔ بدقسمتی سے ملک کے ہر پیداگیر کی یہ کوشش ہے کہ اس کے بچے کا نام ان ہی دس فیصد میں ڈالا جائے اور غریب بچوں کو نظر انداز کیا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر اسکول ''مافیا'' ہے۔
چند ایک اسکولوں کو چھوڑ کر اسکولوں کی اکثریت ایسی ہے جہاں مفت تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد دس فیصد سے زیادہ ہے۔ ان اسکولوں کو بجلی کا بل کمرشل ریٹ پر دیا جاتا ہے، یعنی بجلی فراہم کرنے والی کمپنی حکومتی مرضی سے اسکولوں کو ایک کاروبار قرار دیتی ہے۔ ان پر کاروبار کا ٹیکس بھی عائد کرتی ہے، ان سے سالانہ تجدید کی مد میں فیس بھی وصول کی جاتی ہے۔ لیکن ان کے خلاف بات کرنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اسکول کو کاروبار بنا لیا ہے؟
مڈل کلاس اور غریب طبقے کا بچہ جن اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہا ہے ان اسکولوں کی ماہانہ فیس پندرہ سو سے لے کر تین ہزار کے درمیان ہے۔ اس فیس میں بھی اکثر کو جان پہچان، غربت یا سیاسی اثرورسوخ کی بنیاد پر رعایت دی جاتی ہے۔ اسکولوں میں طلبا کی فیس ڈیفالٹنگ کا تناسب بھی دس فیصد تک ہے، یعنی ایک اسکول میں دس فیصد طلبا مفت پڑھتے ہیں جبکہ تقریباً دس فیصد یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ماہ کی فیس اگلے ماہ ادا کریں گے، جبکہ پانچ فیصد اوسط طلبا وہ ہیں جن کی تین ماہ سے زائد فیس باقی ہے۔ اس تمام تر معلومات کا ریکارڈ بھی ہر اسکول کے پاس موجود ہے جسے کوئی بھی ایسا شخص جسے اختیار حاصل ہو، باآسانی جاکر دیکھ سکتا ہے۔ اس معلومات کے بعد بھی یہ کہنا کہ تمام اسکول مالکان ہی ''مافیا'' ہیں، درست نہ ہوگا۔
ایک لمحے کو تصور کرلیجیے کہ میری رائے غلط ہے اور اگر ایسا ہے تو ان اسکولوں کا مکمل طور پر بائیکاٹ کیوں نہیں کیا جارہا؟ کیوں سوشل میڈیا پر طوفان برپا کرنے والے اور احتجاج کرنے والے پھر بھی اپنے بچے انہیں مافیاز کے حوالے کرتے ہیں؟ کیا ملک بھر میں سرکاری ادارے موجود نہیں؟ کیا رفاہی اداروں کے تحت چلنے والے اسکول موجود نہیں؟ کیا دوست ممالک کے تعاون سے کام کرنے والے تعلیمی ادارے نہیں؟ کیا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر چلنے والے ادارے موجود نہیں؟ اگر تمام اسکول مالکان مافیا ہیں تو ہمیں ان کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہوگا، انہیں خالی کرنا ہوگا۔ اپنے بچوں کو یہاں سے نکالنا ہوگا، یہاں ملازمت سے انکار کرنا ہوگا۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کررہے تو اس کا مطلب حقائق پروپیگنڈے سے مختلف ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔