چار بیٹیوں، تین مس کیرج اور شادی کے 17 سال کے بعد 36 سالہ شہناز کے ہاں آپریشن کے ذریعے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے۔ جب ہم ان سے ملے تو وہ انڈس ڈیلٹا کے روایتی لکڑی سے بنے ہوئے ایک کمرے کے گھر میں بیٹھی اپنے بیٹے کو جھولا، جھلا رہی تھیں۔ بیٹے کی پیدائش پر وہ ان کے میاں سلیم بہت خوش تھے۔
مچھلی اور کیکڑے کا کام کرنے والے 45 سالہ سلیم اگر شہناز کی عمر 36 سال نہیں بتاتے تو ہم انہیں 40 سال سے اوپر کی خاتون سمجھتے۔ یہ کیٹی بندر پر واقع موسمیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ کرتے گھرانے کی کہانی ہے۔ جہاں شہناز اور سلیم جیسے ہزاروں خاندانوں کی کم و پیش ایک جیسی کہانی ہے۔ لیکن جاننا ضروری ہے کہ وہاں کی عورت کی صحت کیسی ہے۔
انڈس ڈیلٹا موسمیاتی تبدیلوں کی زد میں
گلوبل کلائمیٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان کلائمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ پچھلی 5 دہائیوں میں تقریباً 0.5 تناسب سے درجہ حرارت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھلنے کے ساتھ آبی بخارات بننے کا عمل بھی تیز ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ بارشیں، سیلاب اور زمین میں نمکیات کا تناسب بگڑ گیا ہے۔ پچھلے 23 سال میں پاکستان میں 9 طوفان آچکے ہیں، جبکہ مون سون کے پیٹرن میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔
ناسا کے 1993 سے مارچ 2021 تک کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر کے سمندروں کی سطح میں سالانہ 3.4 ملی میٹر کا اضافہ ہورہا ہے جو ہمارے لیے ایک بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کراچی میں سطح سمندر میں سالانہ (mean average) 1.1 ملی میٹر کا اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے جبکہ انڈس ڈیلٹا میں 4.4 ملی میٹر کے ساتھ یہ اضافہ بہت زیادہ ہے۔
اس بات کی تصدیق سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر عمران صابر بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلی چار دہائیوں سے گلیشیئر 10 فیصد زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں، خاص کر مغربی ہمالیہ کے گلیشیئر۔ کہیں زیادہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب ہیں اور کہیں خشک سالی۔ اس سال بالائی سندھ میں زیادہ اور جنوبی حصوں میں کم بارشیں ہوئیں۔ جس کی وجہ سے میٹھے پانی کا لیول بھی کم ہوا ہے۔ انھوں نے نیچرل جرنل کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ صدی کے آخر تک 50 فیصد زیادہ سیلاب آئیں گے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن کی رپورٹ کہہ رہی ہے کہ انڈس ڈیلٹا کے علاقے سے بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلا ہونے کا خطرہ ہے۔ ان موسیماتی تغیر کے سب سے پہلے متاثر وہاں کے بچے اور خواتین ہیں۔
کیٹی بندر ادارہ شماریات کی نظر میں
ادارہ شماریات کے مطابق کیٹی بندر کی آبادی 59,699 ہے۔ جس میں سے دیہی خواتین کی تعداد 26,363 ہے، اور 2,068 خواتین کیٹی بندر کے شہری حصے میں رہتی ہیں، جبکہ ایک سے دس سال کے بچوں کی تعداد 6,842 ہے۔ شماریات کے اعداد وشمار یہ بھی کہتے ہیں کہ کیٹی بندر کی 77.43 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے جن کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔ شہری آبادی زیادہ تر زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ فراہم کردہ چارٹ کے مطابق 1998 میں کُل آبادی 41.410 آبادی میں سے 38.897 دیہی اور شہری آبادی صرف 2.5 فیصد تھی، جبکہ اب شہری آبادی 7.15 فیصد ہے۔ یعنی آبادی شہری حصے کی طرف منتقل ہوئی ہے۔ اور یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
شہناز جیسی عورتوں کی تیرتی کہانی
واپس شہناز کے گھر چلتے ہیں۔ جہاں صبح کا وقت اور ہوا گرم ہے۔ وہ اپنے چند دنوں کے بیٹے صہیب کو جھولے سے نکال کر گیلے کپڑے سے صاف کر رہی ہیں۔ کئی مس کیرج، پری میچور ڈیلیوی اور غیر تربیت یافتہ دائی کی وجہ سے ان کے کئی بچے اس دنیا میں نہیں رہے۔ سلیم بتاتے ہیں کیونکہ پہلے بھی شہناز کو تکلیف رہی ہے، لہٰذا اس بار یہ تیسرے ماہ سے دائی اور پھر چھٹے ماہ سے میرپور ساکرو کے سرکاری اسپتال جارہی تھیں۔ بچے کی جنس معلوم ہونے کی وجہ سے بھی اس بار سلیم اور شہناز نے مستند ڈاکٹر کے پاس جانا بہتر سمجھا۔ لیکن خون کی شدید کمی کی وجہ سے اس بار بھی شہناز کو صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر میں آپریشن کے ذریعے ہی صہیب کی پیدائش ہوئی۔
شہناز بتاتی ہیں کہ یہاں کا بنیادی کھانا مچھلی اور جھینگا ہی ہے۔ کبھی کبھی سبزیاں مل جاتی ہیں۔ حکومت نے ابھی سرکاری نلکا لگایا ہے، جس کے بعد صاف پانی مل رہا ہے۔ پہلے ہم ٹریکٹر کے ذریعے نکلنے والا پانی استعمال کرتے تھے، جو تقریباً ہمیں 12 سے 15 ہزار کا پڑتا تھا۔ اب پانی مفت مل رہا۔ یہ پانی کیٹی بندر سٹی کےلیے ہے۔ کریک میں رہنے والوں کو یہاں سے پانی لینا پڑتا ہے۔
خواتین کی صحت اور ان سے جڑے مسائل کیا ہیں؟
کیٹی بندر میں واقع الفارابی اسپتال ڈاکٹر شیر شاہ کے زیر نگرانی چل رہا ہے۔ اس پرائیوٹ ادارے کو مڈ وائفری نظام کے تحت چلایا جارہا ہے، لیکن سرجری اور مشکل کیسز کےلیے تین لیڈی ڈاکٹر موجود رہتی ہیں۔ ڈاکٹر سدرہ کا کہنا ہے کہ یہاں کا بنیادی مسئلہ یہ کہ خواتین بہت دور دراز گاؤں اور کھاریوں سے آتی ہیں۔ ڈیلیوری کیسز او پی ڈی کے مقابلے میں کم آتے ہیں اور دائی کے پاس زیادہ جاتی ہیں۔ کیٹی بندر کی اکثریت خون کی کمی کا شکار ہے۔ یہاں بنیادی تعلیم، صحت اور کھانے پینے کے انداز درست نہیں۔ آدمی ہی نہیں یہاں کی خواتین بھی گٹکا اور ماوا کھاتی ہیں۔ پہلے ہی جسم میں خون نہیں۔ گھر کی خاتون، سب سے کم کھاتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ ہائی رسک حاملہ ہوتی ہیں۔ پھر زیادہ خون بہہ جانا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
سانپ اور کیڑوں کے کاٹنے کے ساتھ کیٹی بندر کی خواتین بی پی چیک نہیں کراتیں۔ اس لیے یہاں کم عمری میں دل کی بیماریاں عام ہیں۔ پھر تین چار نہیں پندرہویں سولہویں بار کی حاملہ ہمارے پاس آتی ہیں۔ جس کی وجہ سے پری میچور ڈیلیوری عام ہے، یعنی 32۔36 ہفتے میں پیدائش۔ یہ ہی وجہ ہے کہ 1-5 سال تک کے بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے۔
رولر ہیلتھ سینٹر کیٹی بندر کی انچارج نرس ''مایا مہشوری'' نے بتایا کہ غیر تربیت یافتہ دائی کو ہائی جین اور اسٹیلائزیشن کا کیا پتا۔ یہاں خواتین کو گھروں سے نکالتے بھی نہیں۔ گھر میں مریں یا جیئیں، بس مردوں کا خرچہ نہ ہو۔ صبح ایک کیس آیا جس میں عورت خون کی شدید کمی کے ساتھ غذائی قلت کا بھی شکار تھی۔ اگر وہ پہلے ہمارے پاس آتی تو شاید اس کی حالت بہتر ہوتی۔ یہ ان کا ساتواں بچہ تھا۔ جیسے تیسے کرکے ڈیلیوری تو ہم نے کرادی۔ ماں کی جب یہ حالت تھی تو سمجھ سکتے ہیں کہ بچہ کس حال میں ہوگا۔ اسے فوراً آکسیجن لگانی پڑی۔ ہمارے پاس سہولیات تھیں اور ہم نے دیں۔ شاید بچہ اور ماں بہتر ہوجائیں لیکن دیر سے آنے اور شدید غذائی قلت کی وجہ سے ماں اور بچے کی صحت شدید متاثر تھی اور آئندہ بھی ہوگی۔
کیٹی بندر کے کھاروچھان کی رہائشی دائی سکینہ نے یہ کام 25 سال کی عمر سے شروع کیا تھا اور اب لگ بھگ 36 سال ہوگئے ہیں۔ اب میرے پاس جو حاملہ آتی ہے انہیں ہرن کا تیل دودھ میں ملا کر پلاتے ہیں۔ دائی سکینہ کے مطابق کچھ ہی کیسز ایسے ہیں جو ان سے حل نہیں ہوپاتے اور حاملہ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس بھی خواتین آخر وقت میں آتی ہیں۔ خواتین اپنے گھریلو حساب کے مطابق انہیں بلاتی ہیں۔ یہ ہی بات شہناز کے شوہر سلیم نے بتائی تھی کہ ہماری دائی ماں پیدائش کے وقت کام کرتی ہے۔ کیٹی بندر میں لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں، لہٰذا ساکرو کے سرکاری اسپتال پہنچنا مشکل کام تھا۔
کیٹی بندر اور موسمیاتی تبدیلی: ماہرین کیا کہتے ہیں؟
سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر عمران صابر کا کہنا ہے کہ یہاں ایک طرف خوراک اور پانی کی کمی ہے، دوسری طرف ان علاقوں میں وبائی امراض جیسے ملیریا، ٹائیفائیڈ اور جلدی امراض زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق رولر ہیلتھ سینٹر کیٹی بندر بھی کرتا ہے۔ یہ ہیلتھ سینٹر تین سے چار سو کی آبادی کو ابتدائی طبی امداد مہیا کرتا ہے۔ ڈاکٹر جمن کا کہنا ہے کہ زیادہ پانی میں رہنے کی وجہ سے یہاں وبائی اور جلدی امراض عام ہیں۔ لوگ ڈاکٹر کے پاس سب سے آخر میں آتے ہیں۔ عورتوں کا حال بہت ہی برا ہے لیکن یہاں پینا ڈول سے لے کر دیگر بنیادی ادویہ کی شدید قلت نظر آئی۔ لوگ ڈرپس اور انجکشن لگوانے میں زیادہ دلچسپی رکھ رہے تھے۔ اکثر خواتین کمزوری کی شکایت کر رہی تھیں اور ملیریا کے سب سے زیادہ مریض کلینک میں موجود تھے۔
ڈاکٹر عاصم بشیر خان ماہرِ معاشیات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غذائی تحفظ کا تعلق تین بنیادی امور سے ہے۔ غذا کی دستیابی، غذا خریدنے کی استطاعت اور غذا کا معیار۔ سیلاب کی وجہ سے سب سے پہلے غذا کی دستیابی یا فراہمی متاثر ہوتی ہے اور متاثرین سیلاب کے مال، مویشی اورسامان زیست تباہ ہوجانے کی وجہ سے غذا خریدنے کی استطاعت یا تو بالکل ختم ہوجاتی ہے یا کم ہوجاتی ہے۔ یوں سیلاب، طوفان موسمیاتی تغیرات براہِ راست غذائی کمی کا باعث بنتے ہیں۔
قومی نیوٹریشن سروے 2018 کے مطابق سندھ میں 15 سے 49 سال کی خواتین میں خون کی کمی کی شرح 55 فیصد سے زائد ہے۔ بچوں میں stunting یعنی عمر کے اعتبار سے قد 45.3 کی کمی 50 فیصد تک ہے۔ یہ 5 سال پرنے اعدادو شمار ہیں، اب سوچیے سیلاب کی وجہ سے لوگ کس حال میں ہوں گے۔ اس صورت حال میں گزشتہ سال آنے والے طوفان اور سیلاب کے اثرات سب سے زیادہ خواتین اور بچوں پر پڑے ہیں۔ سندھ کے ساحلی علاقوں میں علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں جبکہ یہاں کے لوگوں کی نمائندگی اسمبلیوں میں موجود ہے۔ اس کے باوجود ان علاقوں میں کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ہوتا۔
جامعہ کراچی کے شعبہ ماحولیات کے ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا ہے کہ بگڑتے ماحول کے خراب اثرات انڈس ڈیلٹا کی زندگی، معاش اور لوگوں کے روزگار پر پڑے ہیں۔ اگر ہم کیٹی بندر کی خواتین کی بات کریں تو جو سلائی کڑھائی کرکے چار پیسے کمانے والی دیہی خواتین ہوں یا شہری حصے کی خواتین جو کھیتوں میں کام کاج کرتی ہوں، سب ہی گھرانوں کے معاشی حالات اور سماجی ڈھانچہ ہل گیا ہے۔ لہٰذا ہرخاندان میں روزگار اور دیگر مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔
کیٹی بندر میں خصوصاً کئی خواتین شجرکاری اور جنگلات کے کام سے وابستہ تھیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ان پر منفی انداز میں پڑے ہیں۔ خصوصاً طوفان، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات میں ان کے روزگار متاثر ہوئے ہیں۔ عموماً گھر میں پینے کا صاف پانی اور غذائی کمی ہے۔ یہاں کی خواتین کی صحت کس حد تک متاثر ہوتی ہے، اس کےلیے اعداد وشمار ہمارے سامنے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیاں کیسے کیٹی بندر کو متاثر کررہی ہیں
شہناز کے شوہر سلیم نے انٹر تک تعلیم حاصل کی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف سے جڑے رہنے کی وجہ سے موسیماتی تبدیلی اور ماحولیات پر کام کرتے ہیں۔ وہ پچھلے سال آنے والے سیلاب کے بعد کی صورت حال کے بارے میں بتاتے ہیں کہ بارشوں اور سیلاب آنے کی وجہ سے نہروں میں پانی چھوڑا ہی نہیں گیا۔ زرعت کےلیے پانی ہی نہیں تھا۔ پانی ابھی چار ماہ پہلے ہی نہروں میں آیا ہے۔ اس لیے سیلاب کے بعد اب چاول اور کچھ سبزیوں کی فصل آرہی ہے۔ کیٹی بندر دنیا بھر میں لال چاول کےلیے جانا جاتا ہے۔
یاسین کا کہنا ہے کہ آج کل یہاں چاول کی فصل تیار ہے۔ مچھلی بانی اور زراعت ہی یہاں کی پہچان ہے۔ چاول کی فصل مارکیٹ میں آرہی ہے لیکن مارکیٹ ڈاؤن ہے۔ بھاؤ ہی نہیں مل رہا۔ یہاں کیونکہ گھر کا خرچہ شہروں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے۔ یہاں بجلی اور گیس کا بل نہیں، لوگ لکڑی پر کھانا پکا لیتے ہیں۔ لیکن اس کےلیے مینگروز کٹتے ہیں۔ گھر بھی لکڑی کے بنے ہیں۔ لوگوں کو اگر تین وقت کا کھانا نہ ملے تو ایک وقت میں بھی گزارا چل جاتا ہے۔ یہاں اکثریت دو وقت کا کھانا کھاتی ہیں۔ اس صورت حال میں ہمارے سماجی نظام کے تحت خواتین اور بچیوں کی باری آخر میں ہی آتی ہے۔
سلیم بتاتے ہیں کہ ابھی ہم سیلاب سے نہیں سنبھلے تھے کہ طوفان کی خبریں آگئیں۔ اس وقت ہمیں جلدی میں نکلنا پڑا اور گھر اور کشتی ایسے ہی چھوڑ کر نکل پڑے تھے۔ کوئی ساکرو گیا، کوئی ٹھٹھہ، کوئی مکلی اور کوئی گھارو پہنچا۔ واپسی ہماری ایک ماہ کے اندر ہوگئی تھی۔ لیکن کئی مہینوں تک یہاں روزگار نہیں تھا۔ بند ہونے کی وجہ سے سیلابی پانی کا دباؤ کچھ کم رہا۔
سلیم نے یاد کرکے بتایا کہ دس بارہ سال سے سیلاب اور طوفان زیادہ آرہے ہیں۔ خاص کر 2010 کے بعد سے۔ سلیم سمجھتے ہیں کہ زمین نیچے جارہی ہے اور پانی کی سطح بڑھ رہی ہے۔ اس سے پہلے ہم کیٹی بندر کی جھامرو کریکر پر رہتے تھے، لیکن سیلابوں اور پانی کی سطح بڑھنے کی وجہ سے ہم نے وہ جگہ چھوڑ دی اور اب یہاں کیٹی بندر میں شہری آبادی کی طرف آگئے ہیں۔ یہاں کے مقابلے میں کھاروچھان کی کریکروں پر آبادی زیادہ ہے۔
خواتین کی صحت کیسے بہتر کی جائے؟
ماہر معاشیات ڈاکٹر عاصم سمجھتے ہیں کہ خواتین ہی نہیں بلکہ نوعمر بچیوں میں خون کی کمی کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ اس مسئلے کا حل حکومتی سطح پر تمام بچیوں کو خواہ وہ اسکول اور کالج میں پڑھتی ہوں یا گھروں اور کھیتوں میں کام کرتی ہوں، خون کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے اسباب یعنی ادویہ اور رہنمائی فراہم کی جائے۔
اولاً تو براہِ راست دوا فراہم کی جائے، دوسرا یہ کہ بالواسطہ اقدامات یعنی صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب کے طریقے کو بہتر بنانا، کچن گارڈننگ کے ذرایع فراہم کرنا، سماجی تحفظ کے پروگرام کے ذریعے خطِ غربت سے نیچے رہنے والوں کی مالی معاونت کرنا وغیرہ۔
دنیا کے وہ 45 ممالک جنہوں نے غذائی کمی پر خاطر خواہ قابو پایا، انہوں نے مؤخر الذکر اقدامات پر زیادہ زور دیا۔ اس کے نتیجے میں دوا پر اٹھنے والے سرکاری اخراجات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جامع تربیت کا نظام وضع کیا جائے۔ غذائی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کےلیے دو طرح کی حکمت عملی ہوتی ہے۔ جبکہ الفارابی اسپتال کی انچارج نرس مادھوری کا کہنا ہے کہ اگر تعلیم کے ساتھ خوارک بہتر کی جائے تو ماں اور بچے کو محفوط زندگی فرہم کی جاسکتی ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خود عورتوں کی اپنی صحت کا خیال رہنا بہت ضروری ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔