بنگلہ دیش میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے وزیراعظم شیخ حسینہ سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ
جھڑپوں میں ایک اہلکار ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے ہیں، پولیس
بنگلہ دیش میں وزیراعظم شیخ حسینہ کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں میں جھڑپ کے باعث ایک اہلکار ہلاک جبکہ متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے ہیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش کے حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ایک لاکھ سے زائد مظاہرین نے وزیراعظم شیخ حسینہ سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا تاکہ غیر جانبدار حکومت کے تحت آزادانہ اور منصفانہ ووٹنگ کی اجازت دی جائے۔
دارالحکومت کے وسط میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں جس کے باعث وسطی ڈھاکہ میں کئی گھنٹوں تک پرتشدد جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں ایک افسر ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے تصدیق شدہ فیس بک پیج پر لائیو فوٹیج میں ہزاروں مظاہرین کو پولیس کی شیلنگ سے حفاظت کے لیے بھاگتے ہوئے دکھایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب مظاہرین نے پولیس کی کارروائی کا جواب پتھر اور اینٹیں پھینک کردیا۔
ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان فاروق حسین نے بتایا کہ ایک اہلکار ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے "کانسٹیبل کو اپوزیشن کارکنوں نے سر میں وار کیا تھا۔"
مقامی صحافیوں کے مطابق بی این پی اور جماعت اسلامی کے مظاہرے رواں برس میں اب تک کے سب سے بڑے مظاہرے تھے، اور تین ماہ کے اندر ہونے والے عام انتخابات کے ساتھ ان کے مظاہروں کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کی گئی۔
پولیس انسپکٹر بچو میا کے مطابق ربڑ کی گولیوں سے کم از کم 20 افراد زخمی ہوئے جنہیں ڈھاکہ میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا۔ جھڑپیں شہر کے سب سے بڑے کیتھولک چرچ کے سامنے اس وقت شروع ہوئیں جب اپوزیشن کے حامیوں نے مبینہ طور پر ایک بس اور ایک پولیس چوکی کو نذر آتش کر دیا۔ علاوہ ازیں بی این پی نے تشدد کے خلاف اتوار کو ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش کے حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ایک لاکھ سے زائد مظاہرین نے وزیراعظم شیخ حسینہ سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا تاکہ غیر جانبدار حکومت کے تحت آزادانہ اور منصفانہ ووٹنگ کی اجازت دی جائے۔
دارالحکومت کے وسط میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں جس کے باعث وسطی ڈھاکہ میں کئی گھنٹوں تک پرتشدد جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں ایک افسر ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے تصدیق شدہ فیس بک پیج پر لائیو فوٹیج میں ہزاروں مظاہرین کو پولیس کی شیلنگ سے حفاظت کے لیے بھاگتے ہوئے دکھایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب مظاہرین نے پولیس کی کارروائی کا جواب پتھر اور اینٹیں پھینک کردیا۔
ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان فاروق حسین نے بتایا کہ ایک اہلکار ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے "کانسٹیبل کو اپوزیشن کارکنوں نے سر میں وار کیا تھا۔"
مقامی صحافیوں کے مطابق بی این پی اور جماعت اسلامی کے مظاہرے رواں برس میں اب تک کے سب سے بڑے مظاہرے تھے، اور تین ماہ کے اندر ہونے والے عام انتخابات کے ساتھ ان کے مظاہروں کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کی گئی۔
پولیس انسپکٹر بچو میا کے مطابق ربڑ کی گولیوں سے کم از کم 20 افراد زخمی ہوئے جنہیں ڈھاکہ میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا۔ جھڑپیں شہر کے سب سے بڑے کیتھولک چرچ کے سامنے اس وقت شروع ہوئیں جب اپوزیشن کے حامیوں نے مبینہ طور پر ایک بس اور ایک پولیس چوکی کو نذر آتش کر دیا۔ علاوہ ازیں بی این پی نے تشدد کے خلاف اتوار کو ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے۔