میرے گاؤں کا تاج
صحرا کی خاک چھاننے والا اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی پیاس نہ بجھا لے
میں اپنی سندھو دھرتی کی ماتا پر فخر ہی تو کر سکتا ہوں کہ جس نے میرے وجود کو اپنی مٹی سے گوندھا اور ''دادو'' کو میرا جنم شہر بنایا،میں نہیں جانتا کہ میرے شہر کا وہ کیا کھچاؤ یا کشش ہے کہ کہیں سے بھی آنے والا پھر اسی شہر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے۔
''دادو'' کے متعلق شاید درست ہی کہا جاتا ہے کہ ''دادومیں جادو ہے''، میرے دادو کی تہذیب و شائستگی کا یہی وہ جادو تھا کہ شکارپور سے تعلیم اور درس و تدریس سے محبت کرنے والا ''تاج صحرائی'' اس کے سحر میں ایسا الجھا کہ ''دادو'' ہی اسکی شناخت اور اس کے علم و ادب کی نشانی ٹہرا اور ''تاج صحرائی'' علم کی تقسیم کا خوگر کہلایا۔
خانہ بدوش زندگی جہاں چیلنجز کا نام ہوتی ہے، وہیں صحرا کی خاک چھاننے والا اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی پیاس نہ بجھا لے۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہندو دھرم کے علم و ادب اور تخلیق کے شاہکار رکھنے والے شہر شکار پور کے ''تاج صحرائی'' نے آخر پہاڑوں ایسے اکھڑ دماغ رکھنے والے ''دادو'' کے خطے کو ہی علم و ادب اور تدریس کے لیے ہی کیوں چنا۔
تاج صحرائی واقعی کیا اتنے مضبوط اعصاب کا فرد تھا کہ اس نے دادو ایسے پسماندہ شہر اور ضلع میں علم کی شمع روشن کرنے کی ٹھانی اور بہت استقامت سے اس نے اپنے خواب کو نہ صرف پایہ تکمیل تک پہنچایا بلکہ روشن خیال سیاسی و سماجی رجحانات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وگرنہ ''تاج صحرائی''کیونکر خاکسار تحریک کا سرگرم کارکن ہوتا اور وطن کی جمہوری آزادی کے لیے دہلی میں قید کاٹتا۔
تاج صحرائی کی یہ روشن خیال سیاسی اور سماجی سوچ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شعوری طور سے سماج میں ہونے والی تبدیلی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا تھا اور اس نے دادو میں صحافت سے لے کر درس و تدریس کا یہ کام اپنے سیاسی اور سماجی شعور سے کرکے دکھایا۔
جب ہم 1972میں دادو کے گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری اسکول جو کہ 1938میں بنا تھاکی آٹھویں کلاس میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ آئندہ سال بورڈ کا امتحان ہوگا اور نویں جماعت کا پیپر دینے طالب المولیٰ ہائی اسکول جانا ہوگا،سو اسکول کے تمام اساتذہ نے تاکید کی کہ نویں جماعت کے پیپرز کی بہت اچھی طرح تیاری کرلی جائے کہ طالب المولی ہائی اسکول میں تاج صحرائی کی نگرانی میں امتحانات کے معاملے میں کسی بھی رعایت کی امید نہ رکھی جائے۔
ہم نے پہلی مرتبہ اس وقت تاج صحرائی صاحب کا نام سنا تو اشتیاق ہوا کہ تاج صحرائی صاحب کو دیکھا جائے،شہر میں دوست احباب سے پوچھتے پھرے کہ کیا کسی نے تاج صحرائی صاحب کو دیکھا ہے تو ہر طرف سے انکار میں جواب آیا،ہم بڑے مایوس سے ہوگئے اور چاہتے ہوئے بھی تاج صحرائی صاحب کو نہ دیکھ سکے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر رہے کہ یہ وہ دور تھا جب اسکول کے استاد اپنے فرائض اور تعلیم دینے کو فرض اور دیانت سمجھتے تھے،اس بنا اساتذہ کی تہذیب تھی کہ وہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر کے علاوہ کسی بھی سماجی تقریب میں نہیں جاتے تھے اور نہ ہی شہر میں شام کے وقت اس وجہ سے نکلتے تھے کہ ان کے شاگرد انہیں اگر شہر میں گھومتا ہوا دیکھیں گے تو ان پر استاد کا اثر جاتا رہے گا۔
لہٰذا استاد اور شاگرد کے احترام کو باقی رکھنے کے لیے نہ تو کوئی استاد کسی تقریب میں جاتا تھا اور نہ ہی کسی سے ملنے کو ترجیح دیتا تھا،اس وقت یہ صورتحال ہمارے لیے مزید دشوار ہوگئی کہ تاج صحرائی صاحب کو کیسے دیکھا جائے،پھر ایک روز ہم طالب المولی ہائی اسکول کی دکانوں کی ایک بیکری پر بیٹھے تھے کہ ایک صاحب سفید شلوار قمیض اور سر پہ جناح کیپ رکھے بیکری والے سے بارعب آواز میں کہنے لگے کہ''جمعہ صاحب اس مرتبہ آپ نے کرایہ دینے میں کوتاہی کردی ہے،جو درست بات نہیں،آپ جانتے ہیں کہ اسی فنڈ سے ہم اسکول چلاتے ہیں اور آپ کوتاہی کرتے ہیں''
ہم نے دیکھا کہ اس بارعب شخص کے سامنے دکاندار کی گھگھی بندھ گئی اور وہ جی جی ہی کرتا رہا،یہ بات کہہ کر وہ صاحب جا چکے تھے،میں نے بڑھ کر پوچھا کہ ''یہ کون تھے؟''جس پر دکاندار نے بتایا کہ'' یہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر تاج صحرائی صاحب تھے۔'' تاج صحرائی صاحب گھٹے ہوئے جسم کے درمیانے قد کے بارعب اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے جو ہمیشہ سفید شلوار اور قمیض میں ملبوس جناح کیپ لگائے صرف اسکول آتے جاتے ہی دکھتے تھے،ہم نے کبھی انہیں شہر میں کسی جگہ نہ بیٹھے دیکھا اور نہ کہیں گھومتے ہوئے پایا۔
تاج صحرائی کی قماش کے اساتذہ میں نجم الحسن نقوی،بقا محمد قریشی،سائیں کوڈوملاور سائیں وریل سومرو بھی پائلٹ ہائی اسکول میں اپنے اصول کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے دیکھے گئے،''تاج صحرائی صاحب کے اسکول میں سینٹر پڑنے کا مطلب تھا کہ جب تک مکمل تیاری نہیں کی جائے گی تو پیپر دینے میں کسی بھی رعایت کے آپ مستحق نہیں ہونگے،تاج صحرائی صاحب کی اصول پسندی اور تعلیم و تربیت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی تاج صاحب کے مزاج کے خلاف تھی،یہی وجہ تھی کہ اکثر طالبعلم کوشش کرتے تھے کہ وہ تعلیم پر محنت کریں اور اپنی تمامتر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔
یہ 70 کی دہائی کا وہ وقت تھا جب بھٹو صاحب نے اسکول قومیائے نہیں تھے،ان دنوں طالب المولی ہائی اسکول ملاکھڑے اور سندھی ثقافت کے پروگرام کروانے میں شہرت رکھتا تھا،مجھے یاد ہے کہ ہم نے ملاکھڑے کے صف اول کے پہلوان شیر میر بحر کی کشتی طالب المولی ہائی اسکول ہی میں دیکھی اور اسی اسکول میں سندھی ثقافت و تہذیب کے مختلف پروگرامز میں شریک ہوئے،ان پروگراموں کے دوران بھی کبھی ہمیں تاج صحرائی صاحب گھومتے پھرتے نظر نہیں آئے۔
طالب المولی اسکول کے قیام کے بارے میں تاج صحرائی بتاتے ہیں کہ ''ہم نے 1952میں ایک مڈل اسکول قائم کیا،جس کو میٹرک اسکول بنایا،اس وقت مجھے اسکول کی لیبارٹری اور لائبریری کے لیے پیسوں کی ضرورت تھے،اس سلسلے میں مجھے مخدوم طالب المولی کے پاس جانا پڑا،کیونکہ ان سے میرے ادبی مراسم تھے،انہوں نے مجھے اسکول کے لیے دس ہزار روپے دیئے،اس رقم سے میں نے اسکول کی لیبارٹری اور لائبریری قائم کی''۔
تاج صحرائی نے دور دراز کے بچوں کی تعلیم اور رہائش کے لیے ایک ہاسٹل بھی قائم کیا تھا،جہاں سندھ کے مختلف علاقوں سے بچے آکر رہتے تھے اور اپنی تعلیم مکمل کرتے تھے۔ تاج صحرائی ایک ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ خانہ بدوشی کی زندگی گذارنے کے بھی عادی تھے، اور اسی خانہ بدوشی نے انہیں سندھ کی قدیم تہذیب کی کھوجنا کی طرٖف مائل کیا۔
وہ سندھ کی قدیم تہذیب کے نشانات کی تلاش میں در در کی خاک چھانتے اور سندھ کی تہذیب کو محفوظ کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہتے، سہون اور سن سے آگے سندھی تہذیب کا ''رنی کوٹ''کے قلعے کی اہمیت اور حیثیت کو تاج صحرائی نے ساری دنیا میں متعارف کروایا۔
''دادو'' کے متعلق شاید درست ہی کہا جاتا ہے کہ ''دادومیں جادو ہے''، میرے دادو کی تہذیب و شائستگی کا یہی وہ جادو تھا کہ شکارپور سے تعلیم اور درس و تدریس سے محبت کرنے والا ''تاج صحرائی'' اس کے سحر میں ایسا الجھا کہ ''دادو'' ہی اسکی شناخت اور اس کے علم و ادب کی نشانی ٹہرا اور ''تاج صحرائی'' علم کی تقسیم کا خوگر کہلایا۔
خانہ بدوش زندگی جہاں چیلنجز کا نام ہوتی ہے، وہیں صحرا کی خاک چھاننے والا اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی پیاس نہ بجھا لے۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہندو دھرم کے علم و ادب اور تخلیق کے شاہکار رکھنے والے شہر شکار پور کے ''تاج صحرائی'' نے آخر پہاڑوں ایسے اکھڑ دماغ رکھنے والے ''دادو'' کے خطے کو ہی علم و ادب اور تدریس کے لیے ہی کیوں چنا۔
تاج صحرائی واقعی کیا اتنے مضبوط اعصاب کا فرد تھا کہ اس نے دادو ایسے پسماندہ شہر اور ضلع میں علم کی شمع روشن کرنے کی ٹھانی اور بہت استقامت سے اس نے اپنے خواب کو نہ صرف پایہ تکمیل تک پہنچایا بلکہ روشن خیال سیاسی و سماجی رجحانات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وگرنہ ''تاج صحرائی''کیونکر خاکسار تحریک کا سرگرم کارکن ہوتا اور وطن کی جمہوری آزادی کے لیے دہلی میں قید کاٹتا۔
تاج صحرائی کی یہ روشن خیال سیاسی اور سماجی سوچ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شعوری طور سے سماج میں ہونے والی تبدیلی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا تھا اور اس نے دادو میں صحافت سے لے کر درس و تدریس کا یہ کام اپنے سیاسی اور سماجی شعور سے کرکے دکھایا۔
جب ہم 1972میں دادو کے گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری اسکول جو کہ 1938میں بنا تھاکی آٹھویں کلاس میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ آئندہ سال بورڈ کا امتحان ہوگا اور نویں جماعت کا پیپر دینے طالب المولیٰ ہائی اسکول جانا ہوگا،سو اسکول کے تمام اساتذہ نے تاکید کی کہ نویں جماعت کے پیپرز کی بہت اچھی طرح تیاری کرلی جائے کہ طالب المولی ہائی اسکول میں تاج صحرائی کی نگرانی میں امتحانات کے معاملے میں کسی بھی رعایت کی امید نہ رکھی جائے۔
ہم نے پہلی مرتبہ اس وقت تاج صحرائی صاحب کا نام سنا تو اشتیاق ہوا کہ تاج صحرائی صاحب کو دیکھا جائے،شہر میں دوست احباب سے پوچھتے پھرے کہ کیا کسی نے تاج صحرائی صاحب کو دیکھا ہے تو ہر طرف سے انکار میں جواب آیا،ہم بڑے مایوس سے ہوگئے اور چاہتے ہوئے بھی تاج صحرائی صاحب کو نہ دیکھ سکے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر رہے کہ یہ وہ دور تھا جب اسکول کے استاد اپنے فرائض اور تعلیم دینے کو فرض اور دیانت سمجھتے تھے،اس بنا اساتذہ کی تہذیب تھی کہ وہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر کے علاوہ کسی بھی سماجی تقریب میں نہیں جاتے تھے اور نہ ہی شہر میں شام کے وقت اس وجہ سے نکلتے تھے کہ ان کے شاگرد انہیں اگر شہر میں گھومتا ہوا دیکھیں گے تو ان پر استاد کا اثر جاتا رہے گا۔
لہٰذا استاد اور شاگرد کے احترام کو باقی رکھنے کے لیے نہ تو کوئی استاد کسی تقریب میں جاتا تھا اور نہ ہی کسی سے ملنے کو ترجیح دیتا تھا،اس وقت یہ صورتحال ہمارے لیے مزید دشوار ہوگئی کہ تاج صحرائی صاحب کو کیسے دیکھا جائے،پھر ایک روز ہم طالب المولی ہائی اسکول کی دکانوں کی ایک بیکری پر بیٹھے تھے کہ ایک صاحب سفید شلوار قمیض اور سر پہ جناح کیپ رکھے بیکری والے سے بارعب آواز میں کہنے لگے کہ''جمعہ صاحب اس مرتبہ آپ نے کرایہ دینے میں کوتاہی کردی ہے،جو درست بات نہیں،آپ جانتے ہیں کہ اسی فنڈ سے ہم اسکول چلاتے ہیں اور آپ کوتاہی کرتے ہیں''
ہم نے دیکھا کہ اس بارعب شخص کے سامنے دکاندار کی گھگھی بندھ گئی اور وہ جی جی ہی کرتا رہا،یہ بات کہہ کر وہ صاحب جا چکے تھے،میں نے بڑھ کر پوچھا کہ ''یہ کون تھے؟''جس پر دکاندار نے بتایا کہ'' یہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر تاج صحرائی صاحب تھے۔'' تاج صحرائی صاحب گھٹے ہوئے جسم کے درمیانے قد کے بارعب اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے جو ہمیشہ سفید شلوار اور قمیض میں ملبوس جناح کیپ لگائے صرف اسکول آتے جاتے ہی دکھتے تھے،ہم نے کبھی انہیں شہر میں کسی جگہ نہ بیٹھے دیکھا اور نہ کہیں گھومتے ہوئے پایا۔
تاج صحرائی کی قماش کے اساتذہ میں نجم الحسن نقوی،بقا محمد قریشی،سائیں کوڈوملاور سائیں وریل سومرو بھی پائلٹ ہائی اسکول میں اپنے اصول کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے دیکھے گئے،''تاج صحرائی صاحب کے اسکول میں سینٹر پڑنے کا مطلب تھا کہ جب تک مکمل تیاری نہیں کی جائے گی تو پیپر دینے میں کسی بھی رعایت کے آپ مستحق نہیں ہونگے،تاج صحرائی صاحب کی اصول پسندی اور تعلیم و تربیت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی تاج صاحب کے مزاج کے خلاف تھی،یہی وجہ تھی کہ اکثر طالبعلم کوشش کرتے تھے کہ وہ تعلیم پر محنت کریں اور اپنی تمامتر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔
یہ 70 کی دہائی کا وہ وقت تھا جب بھٹو صاحب نے اسکول قومیائے نہیں تھے،ان دنوں طالب المولی ہائی اسکول ملاکھڑے اور سندھی ثقافت کے پروگرام کروانے میں شہرت رکھتا تھا،مجھے یاد ہے کہ ہم نے ملاکھڑے کے صف اول کے پہلوان شیر میر بحر کی کشتی طالب المولی ہائی اسکول ہی میں دیکھی اور اسی اسکول میں سندھی ثقافت و تہذیب کے مختلف پروگرامز میں شریک ہوئے،ان پروگراموں کے دوران بھی کبھی ہمیں تاج صحرائی صاحب گھومتے پھرتے نظر نہیں آئے۔
طالب المولی اسکول کے قیام کے بارے میں تاج صحرائی بتاتے ہیں کہ ''ہم نے 1952میں ایک مڈل اسکول قائم کیا،جس کو میٹرک اسکول بنایا،اس وقت مجھے اسکول کی لیبارٹری اور لائبریری کے لیے پیسوں کی ضرورت تھے،اس سلسلے میں مجھے مخدوم طالب المولی کے پاس جانا پڑا،کیونکہ ان سے میرے ادبی مراسم تھے،انہوں نے مجھے اسکول کے لیے دس ہزار روپے دیئے،اس رقم سے میں نے اسکول کی لیبارٹری اور لائبریری قائم کی''۔
تاج صحرائی نے دور دراز کے بچوں کی تعلیم اور رہائش کے لیے ایک ہاسٹل بھی قائم کیا تھا،جہاں سندھ کے مختلف علاقوں سے بچے آکر رہتے تھے اور اپنی تعلیم مکمل کرتے تھے۔ تاج صحرائی ایک ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ خانہ بدوشی کی زندگی گذارنے کے بھی عادی تھے، اور اسی خانہ بدوشی نے انہیں سندھ کی قدیم تہذیب کی کھوجنا کی طرٖف مائل کیا۔
وہ سندھ کی قدیم تہذیب کے نشانات کی تلاش میں در در کی خاک چھانتے اور سندھ کی تہذیب کو محفوظ کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہتے، سہون اور سن سے آگے سندھی تہذیب کا ''رنی کوٹ''کے قلعے کی اہمیت اور حیثیت کو تاج صحرائی نے ساری دنیا میں متعارف کروایا۔