غزہ میں کبھی پھول بھی کھلا کرتے تھے

دعا ہے کہ فلسطین کے مظلوم لوگوں کے حق میں کوئی بہتر فیصلہ ہو اور وہ اپنی زمین پر سکون سے رہ سکیں

shabnumg@yahoo.com

غزہ، جہاں کچھ عرصے سے پھول کھلنے لگے تھے، خوبصورت عمارتیں بن گئی تھیں۔ غزہ میں رہنے والے بچے باغوں میں کھیلنے جاتے۔ اب وہ پھول، تتلیوں اور پرندوں سے محظوظ ہونے لگے تھے۔

اب پچھلی جنگ کے زخم بھرنے لگے تھے کہ اب ایک اور جنگ کا انہیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب ان کی آنکھوں میں تتلیوں کی جگہ موت کی پرچھائیاں اتر آئی ہیں۔ اب سبزہ اورکھیل قصہ پارینہ ہوچکے ہیں۔ابھی پچھلی بمباری کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے جب غزہ کے شعر الشجاعیہ، الشاف اور آلتوفہ پر بمباری کی گئی تھی، لیکن موجودہ وقت میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے تمام اخلاقی حدود پارکر دی ہیں۔

بچوں کی بہبود کیلئے کام کرنیوالی تنظیم '' سیو دی چلڈرن'' کیمطابق '' غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں میں ہر 15 منٹ میں 1 بچہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے جب کہ معصوم بچے ناکہ بندی کے باعث پانی اور خوراک کی قلت کو بھی جَھیل رہے ہیں۔'' بچوں کے حقوق کی عالمی تنظیم نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ معصوم بچوں کی اموات ہورہی ہیں۔

'' سیو دی چلڈرن '' نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں اور ناکہ بندی کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کا ہو رہا ہے۔ جرمن قوم نے یہودیوں کا جو حال کیا وہ پوری دنیا جانتی ہے۔ خلافت عثمانیہ کے بعد فلسطین کے اس خطے برطانوی تسلط قائم ہوگیا۔ اس وقت یہاں عرب، یہودی و دیگر اقوام رہائش پذیر تھیں۔

برطانیہ نے ایک معاہدے کے تحت ان یہودیوں کو اس خطے میں آباد کیا۔ امریکا اور برطانیہ خود ان سے خوفزدہ تھے حالانکہ ان کے پاس وسیع و عریض زمین کا رقبہ موجود تھا۔ یہ بھی بات حیرت انگیز ہے کہ اسرائیل کو عرب ملکوں کے بیچ میں آخرکیوں آباد کیا گیا؟اسرائیلیوں کی جارحیت اصلی باشندوں کیساتھ جاری رہی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت اسرائیل نے سرحدی حد بندی کا احترام کرتے ہوئے فلسطین کے مقبوضہ علاقے خالی کرنے تھے۔

معاہدے میں اسرائیل کو پابند کیا گیا کہ نئی یہودی بستیوں کا قیام روکنا ہوگا، فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کا کنٹرول حاصل ہونا تھا اور مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا گیا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ کے خفیہ مذاکرات 12 روز تک امریکا کی ریاست میری لینڈ میں جاری رہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم میناکم بیجن اور مصرکے صدر انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے تھے، ان مذاکرات میں اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر بھی شریک رہے۔

اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کیخلاف ورزی کی، معاہدے کے بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے کئی علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کیا اور یہاں نئی یہودی بستیاں قائم کیں جبکہ مشرقی یروشلم پر قبضہ بھی کر لیا۔ 1967 میں مغربی کنارے اور غزہ پر اسرائیل کے قبضے کے بعد، عرفات فلسطینی گوریلا گروپوں کیلئے ایک منظم تنظیم PLO (Palestine Liberation Organization) کا قیام وجود میں لے کر آئے اور تمام زندگی فلسطین کی آزادی کیلئے جدوجہد کی مگر کامیابی حاصل نہ کرسکے۔


یاسر عرفات کے اسلامی ممالک کے سربراہوں سے خوشگوار مراسم تھے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ 22 فروری 1974 کو لاہور نے اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے سربراہی اجلاس میں عالم اسلام کے تمام رہنماؤں کی میزبانی کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس سربراہی اجلاس کی صدارت کی، جس میں اس وقت کی عالمی سیاست کے کچھ بڑے نام شریک تھے۔

بھٹو صاحب کا یہ خیال تھا کہ اسلامی ملکوں کے سربراہوں کے مابین یکجہتی ہونی چاہیے تاکہ ان کے مخالف ان پر کوئی وار نہ کرسکیں، لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عرب دنیا کے بیشتر رہنما مارے جاچکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی تباہی سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کیوں ذوالفقار علی بھٹو عرب و تمام اسلامی دنیا جو اکھٹا کرنا چاہ رہے تھے۔

محترمہ بینظیر بھٹو نے مغرب اور اسلامی دنیا کے حوالے سے ''مفاہمت: اسلام، جمہوریت اور مغرب'' کے عنوان کے تحت کتاب لکھی، جس کیلئے کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب ان کی موت کا باعث بنی۔ فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے، غزہ پر حکومت کرنے کیلئے جدوجہد کی ہے اور وہ اسرائیل کی پر تشدد مزاحمت کیلئے پر عزم ہے۔ 2023 میں اسرائیل کیخلاف اس کا اچانک حملہ، مشرق وسطیٰ میں وسیع تر انتشار کا خطرہ بن گیا ہے۔

امریکا اور یورپی یونین نے حماس کو اسرائیل کیخلاف مسلح مزاحمت کی وجہ سے دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہے۔ اسرائیل نے 2023 میں جنوبی اسرائیل پر اپنے اچانک حملے کے جواب میں حماس کیخلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے، جو کئی دہائیوں میں ملک پر سب سے مہلک حملہ قرار دیا جاچکا ہے۔ اس وقت تنازعہ فلسطین میں، عرب دنیا کے بڑے لیڈر بہت بڑے دعوے کرنے کے باوجود غزہ پر حملے بند نہیں کراسکے۔ اس وقت غزہ میدان کربلا بنا ہوا ہے۔ اسرائیل نے بجلی، پانی اور امداد بند کر رکھی ہے۔ اسپتالوں، اسکول و مساجد پر حملے کر رہا ہے۔

حماس کی قید میں اپنے یرغمالی آزاد کروانے کیلئے اس نے زمینی حملہ بھی کیا مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا بھر کے سربراہان نے اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کی ہے مگر اسرائیل کسی کی نہیں سن رہا۔ امریکا کے دوغلے رویے پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایک طرف وہ اسرائیل کی مددکیلئے افواج بھیج رہا ہے تو دوسری طرف سیکریٹری جنرل اسرائیل کو آڑے ہاتھ لے رہا ہے۔

جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ انہیں '' بین الاقوامی انسانی قانون کی واضح خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ہے، اسرائیل میں حماس کے حملے فلسطینی عوام کی ' اجتماعی سزا' کا جواز پیش نہیں کر سکتے۔'' چین نے دو ریاست بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

دعا ہے کہ فلسطین کے مظلوم لوگوں کے حق میں کوئی بہتر فیصلہ ہو اور وہ اپنی زمین پر سکون سے رہ سکیں۔ پوری دنیا سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے مگر عرب و اسلامی ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور غزہ پر اسرائیل کے غیر انسانی مظالم جاری ہیں۔
Load Next Story