وقت ہو سکتا کیا تبدیل اک تقریر سے
ان کی تقریر میں کچھ باتیں تکلیف دہ تھی کہ جنہیں سُن کر دل غم زدہ اور آنکھیں نم ہو ہو گئی
تیرے حُسن کے جلوئوں کا ہے دور میاں
اس لیے میں جاتا ہوں لاہور میں
پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک کئی حکمران آئے اور اپنی اپنی مدت پوری کرنے کے بعد کچھ نے ہمیشہ کے لیے علیحدگی اختیار کر لی، تو کچھ نے اسے قوم کی خدمت کا فریضہ سمجھتے ہوئے اپنائے رکھنے کا فیصلہ کیا، تو کچھ جلاوطنی اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے، اپنے خونی رشتوں کو سیاست کی بھیڑ چلتے ہوئے دیکھ کر بھی سیاست کا دامن نہ چھوڑنے کا عزم کیا۔
انہی سیاستدانوں میں کچھ ایسے چہرے بھی شامل ہیں جنہوں نے اس ملک و ملت کی باگ ڈور صحیح معنوں میں اپنا فرض سمجھ کر سنبھالی۔ میاں محمد نواز شریف کا شمار بھی ایسے ہی سیاست دانوں میں ہوتا ہے، جنہیں تین بار پاکستان کا وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہُوا، اس دوران انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں مہنگائی پر نہ صرف قابو پایا بلکہ ملک کی خوشحالی کے لیے کئی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، ہندئوستان کے مقابلے میں چاغی کے مقام پر دھماکے کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جس کا کریڈٹ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کو بھی جاتا ہے۔
بہرحال میاں صاحب چوتھی بار وزیراعظم پاکستان بننے کا سہانہ خواب اپنی آنکھوں میں سجائے لندن سے چار سال تک بیماری سے لڑنے کے بعد بارہ اکتوبر کو وطن واپس آ گئے ہیں، انہوں نے اپنے بھائی میاں شہباز شریف سے کیا ہُوا وعدہ وفا کر دیا ہے، ان کے اعزاز میں شہرِ لاہور مینارِ پاکستان کے سائے تلے ایک شاندار جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔
اس دن آنکھ کھلتے ہی ہر طرف ایک ہی شور تھا '' آئو پھر سے سنبھالو، یہ ملک بچا لو نواز شریف۔'' سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے پاس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے میاں نواز شریف کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہیں جس پر یہ قوم اعتماد کر سکے کہ ہمارے کھوئے ہوئے دن واپس لوٹ آئیں گے؟ اس تاریخی جلسے میں مریم نواز کا ایک جملہ دیکھیں '' آپ نواز شریف سے وفا کریں وہ آپ سے وفا کرے گا'' یاد رکھے کہ اس ملک کے عوام نے ہمیشہ ہر آنے والے لیڈر کو اپنی وفا کا ثبوت دیا ہے۔
کچھ لوگوں کو نواز شریف کی آمد سے لگ رہا ہے کہ ظلم آج سے مٹ گیا اور گلشن میں بہاریں لوٹ آئی ہے، بہت جلد ہر طرف خوشیوں کے پھول ہی پھول کھلیں گے، ہر گھر میں اندھیروں کی جگہ اُجالے ہوں گے، ہر زبان پر شکایت کی بجائے محبت کے ترانے ہونگے۔ بقول شاعر
مجھ کو منزل کا پتہ راتوں کے جگنو دے گئے
گھر سے نکلا ہوں وطن اپنا بچانے کے لیے
نواز شریف کی اسٹیج پر آمد ہوتے ہی ایک بیٹی کا باپ کو آبدیدہ آنکھوں سے ملنا دیدنی نظر آیا، خواجہ آصف نے نواز شریف کی تقریر سے قبل مائیک شہباز کے ہاتھوں میں دیا، جن کا کہنا تھا کہ '' نواز شریف جدوجہد کا نام ہے، جس کی مثال 76 سال کی تاریخ میں نہیں ملتی، ملک کی تاریخ بدلی تو سزا دی گئی، جیلیں کاٹنا پڑی، ہتھکڑیاں پہننا پڑی پھر بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔''
اس ملک کی 76 سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ جو بھی آیا اُس نے اپنا سوچا ملک اور قوم کا کیا سوچا ؟ کوئی نیا پاکستان بنانے کے چکر میں پاگل بناتا رہا تو کوئی پُرانا پاکستان لٹانے میں روشن خواب دکھاتا رہا۔ اس جلسہ میں نواز شریف کی تقریر کے آغاز سے قبل امن کی فاختہ کے طور پر جنگلی کبوتروں کو آزاد کیا گیا۔ نواز شریف نے اپنی تقریر کا آغاز شکیل بدایونی کے ان اشعار سے کیا:
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
وہ میری طرف دیکھیں تو میں سلام کروں
میاں صاحب کو اس بات کو بخوبی ادراک تھا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں کون سی بات کرنی ہے اور کون سی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' میں انتقام لینے نہیں، ملک کی خدمت کرنے آیا ہوں، ریاستی اداروں، سیاسی جماعتوں، سیاستدانوں اور ریاستی ستونوں کو مل کرکام کرنا ہوگا تاکہ آئین پر عمل درآمد ہوسکے۔
انہوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ '' آپ کو پتا ہے کہ دھرنے کون کروا رہا تھا، پھر جب اقتدار ملا تو ہمیں جیلوں میں ڈالا گیا، جعلی کیسزز ہمارے خلاف بنائے گئے، میری فیملی اور میری پارٹی کے عہدیداروں کو ذلیل کیا گیا، لیکن ایسے کڑے حالات میں بھی کسی نے مسلم لیگ ن کا جھنڈا اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑا۔'' میاں صاحب کا ایک جملہ تو کئی سوال لیے ہوئے ہیں کہ '' کون ہے جو چند سالوں بعد مجھے عوام سے جدا کر دیتا ہے؟'' جواب میں احمد فرازکی منظرکشی دیکھیں۔
ہُوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دینا تھی
اس جلسے میں میاں صاحب نے عوام کے دُکھ بانٹتے ہوئے بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں پر بات کرتے ہوئے عوام کی محبت میں آئی لو یو ٹو بھی کہہ دیا کہ ''آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو میں بھی آپ سے ڈھیر ساری محبت کرتا ہوں۔'' عوام کی محبت میں دل پر لگے تمام دکھ درد میاں صاحب بھول گئے۔ ایسے میں کچھ درد جن کو بھلانا نہ ممکن ہے اُنہیں ایک طرف رکھا تو سکتا ہے مگر فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
ان کی تقریر میں کچھ باتیں تکلیف دہ تھی کہ جنہیں سُن کر دل غم زدہ اور آنکھیں نم ہو ہو گئی۔ کہ '' میری والدہ ، میری بیوی میرا استقبال کیا کرتیں، آج جب گھر جائوں گا تو وہ گھر نہیں ہونگی وہ دونوں میری سیاست کی نذر ہو گئی، میں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں میری تربیت ایسی نہیں ، میرے دور میں روٹی ۴ روپے کی تھی اس لیے مجھے نکالا...؟ '' جب مسلم لیگ ن کے خلاف دھرنے جاری تھے، اُس وقت بھی بہت سے ترقیاتی کام تیزی سے جاری تھے۔ میاں صاحب کی زبان سے ادا ہونے والا غالبؔ کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
انتقامی سیاست کرنے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے میاں صاحب نے عوام کو خوشحالی کی نوید سناتے ہوئے دیوانِ غالبؔ سے ایک اور شعر سُنا دیا کہ:
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑکہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے
میاں صاحب کی زبان سے ادا ہونے والے اس جملے نے ساری قوم کا دل جیت لیا کہ '' ندامت کا ایک آنسو زندگی کے سارے گناہ دھو دیتا ہے'' اللہ کرے کہ ہمارے حکمرانوں کی ندامت کے سبھی داغ دھل جائیں اور ہمارا ملک خوشحالی اور کامیابی کی راہ پر پہلے کی طرح ہو جائیں۔ آخر میں میاں نواز شریف کی جارحانہ تقریر کے جواب میں مجھ خاکسارکا ایک شعر۔
وقت کے ان حاکموں سے کہہ دے یہ جا کر کوئی
وقت ہو سکتا کیا تبدیل اک تقریر سے