پے اور پنشن رپورٹ کہاں گئی نئی اسکیم غلط

اس ملک کا نظام ہی سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے ہاتھوں بک چکا ہے

ایک زمانے سے پے اینڈ پنشن رپورٹ ہر سال بنائی جاتی تھی۔ اس سے قبل 1969 میں جب ایئرمارشل نور خان وزیر محنت بنے تو کوئی قانونی تنخواہ اور پنشن کا برائے نام ایک بورڈ تھا، جو اپنے اپنے ادارے کے حوالے سے تنخواہ مقرر کرتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ تنخواہ کے کوئی اسکیل نہیں تھے، برائے نام اسکیل نمبر1 کی تنخواہ 55 روپے 80 مقرر تھی اور سالانہ انکریمنٹ 50 پیسے ہوا کرتا تھا جبکہ پی آئی اے کے اسکیل الگ سے تھے۔

ہمارا ریلوے کا ایک وزیر محنت ایئرمارشل نورخان سے ملنے گیا تو وہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ سالانہ انکریمنٹ 50 پیسے ہے تو انھوں نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پی آئی اے میں ایک خاکروب کو سالانہ ترقی یا انکریمنٹ 5 روپیہ ہے اس طرح ریلوے میں بھی یہ قانون لاگو ہوگیا بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو پھر پے اینڈ پنشن کمیٹی بنا کر اسکیل نمبر1 تا اسکیل نمبر22 مقرر کیا گیا۔

جب میں ریلوے میں بحیثیت کمرشل کلرک یا بکنگ کلرک بنا تو ہماری اسکیل نمبر5 میں تنخواہ 115 تا 175 مقرر تھی اور سالانہ ترقی 5 روپے تھی، اس فرق کو مٹانے کیلئے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن اور ذوالفقار علی بھٹو نے کمیٹی تشکیل دی تب سے یہ کمیٹی1975 تا 2022 تک کام کرتی رہی صرف کلاس فور ملازمین اور دیگر ملازمین کو اس فرق سے نکالنے کا کام انجام دیا گیا اور درجہ چہارم کا دھبہ دھو دیا گیا اور تمام ملازمین کو اسکیل وائز تسلیم کیا گیا اور ملازمین سے یک مشت پنشن یا گریجویٹی لینے کیلئے آپشن دیا گیا۔

اکثر ملازمین نے پنشن اسکیم کو منظورکیا اور اس طرح60 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی پنشن، جنرل پروویڈنٹ فنڈ، جی پی ایف اور گریجویٹی ریٹائرمنٹ پر دے دی جاتی تھی۔ یہ ایک بہتر نظام تھا۔

اب تازہ خبریں آ رہی ہیں کہ پنشن میں کٹوتی ہوگی اور بیوہ کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وزارت خزانہ یا پھر حکومت نے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے جوکہ سراسر غلط ہے اور تمام سرکاری ملازمین میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ جس کے تحت اب اسکیل نمبر 17 تا 22 کے اسکیل یا گریڈ میں کافی اضافہ جبکہ اسکیل نمبر1 تا اسکیل نمبر16 کی تنخواہوں اور پنشن میں کٹوتی ہوگی۔

لائف ٹائم کاسٹ مراعات اور آپریٹنگ اخراجات کا مشترکہ تناسب 17 تا 22 کے گریڈ کے مقابلے میں نچلے گریڈ کے مقابلے میں بہت زیادہ یعنی نیچے کم اور اوپر فائدہ ہی فائدہ ہے۔ لائف ٹائم کاسٹ آف پبلک سرونٹ کے عنوان سے خبریں چھپی ہیں، اس کے عنوان سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس یعنی (پائیڈ) کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق اسکیل نمبر22 کے ملازمین کو اسکیل نمبر1 کے ملازم کو 32.52 گنا ملنے والے تنخواہوں، مراعات اور آپریٹنگ اخراجات کا مشترکہ تناسب بہت زیادہ ہے۔


سب سے زیادہ تنخواہ اور سب سے کم تنخواہ کی سطح کے درمیان کافی فرق کے ساتھ یہ مراعات ملیں گی، جس میں بڑی عدم مساوات کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس وقت پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق دسمبر2022 تک پاکستان میں وفاقی اداروں میں سرکاری ملازمین کی تازہ ترین تعداد تقریباً 13 لاکھ74 ہزار 911 ہے۔ اس تعداد میں شہری، مسلح افواج اور خودمختار اداروں اور کارپوریشنز بھی شامل ہیں حکومت اپنے ملازمین پر تنخواہ اور پنشن کی فراہمی پر کافی رقم خرچ کرتی ہے۔

ان ملازمین پر ادائیگی کرنے کے لیے تقریباً 3 کھرب روپے تنخواہ پر اور پنشن پر تقریباً ڈیڑھ کھرب کی لاگت آتی ہے۔ اسی طرح پروجیکٹ ورکرز سرکاری کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین یا افراد پر اور دیگر تنظیموں پر تقریباً ڈھائی کھرب روپے لاگت آتی ہے۔ فوج کی تنخواہوں اور بھرتیوں پر کل خرچ ہونے والی رقم تقریباً ایک کھرب بنتی ہے۔

اس طرح بڑے گریڈوں پرکام کرنے والے افسران کو تنخواہ اور الاؤنسز کا تناسب اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ان کی سرکاری رہائش گاہ، موٹر گاڑیاں، میڈیکل کی سہولت اس کے علاوہ پرائیویٹ میڈیکل بلوں کی تعداد پر بھی بھاری رقم کھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ کرپشن اور رشوت کا پیسہ الگ ہے جبکہ گریڈ 1 تا 16 گریڈ کے ملازمین اس سے محروم ہیں جو سراسر ظلم ہے۔

دوسری طرف پنشن کے بارے میں نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں یعنی پے اینڈ پنشن کمیٹی کی رپورٹ رد کردی گئی ہے اور نئی اصلاحات کے تحت اب وفات پا جانے والے ملازمین کی بیوہ کو صرف 10 سال تک پنشن دی جائے گی جو سراسر ظلم ہے کہ جبکہ فوجی ادارے کے ملازمین کی بیوہ اور بچوں کو 20 سال تک پنشن دی جائے گی، یہ کیا وجہ ہے، لیکن اگر کسی ملازم کا بچہ یا بیٹی معذور ہے تو اس کو یا تو ملازم رکھا جائے گا اور تاحیات پنشن دی جائے گی، لیکن یہاں عرض کرنا ہے کہ بعض ملازمین دوران ملازمت انتقال کر جاتے ہیں یا پھر 50 یا 60 کی عمر سے قبل ہی انتقال کر جاتے ہیں اور ان کی بیوی جوان اور بچے چھوٹے ہیں تو بیوہ کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی جو سراسر ظلم ہے، اس لیے ہم مطالبہ کریں گے کہ حکومت اپنے پرانے سسٹم کو بحال رکھے اور اب تو ریلوے ملازمین کو ماہانہ تنخواہ بھی کئی کئی دن بلکہ ایک ماہ بعد دی جاتی ہے جبکہ 2022 تا 2023 کے ریٹائرڈ ملازمین اور بیوہ کو دو سال گزر گئے ان کا جی پی ایف فنڈ اورگریجویٹی رقم ابھی تک ادا نہیں کی گئی ہے۔

گزشتہ 24 اکتوبر اس سلسلے میں ملک بھر میں بھرپور جلسے جلوس اور بھوک ہڑتال بھی کی گئی ہے عبوری حکومت کا یہ اقدام درست نہیں ہے۔ پنشن اسکیم کا معاملہ آنے والی منتخب حکومت کو کرنا ہوگا۔ دوسری جانب 35 فیصد کے بجائے 25 فیصد پر گریجویٹی رقم دی جائے گی، اسی طرح پنشن میں آیندہ صرف 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا، مہنگائی چاہے 40 تا 50 فیصد بڑھ جائے مگر 10 فیصد ہی اضافہ ملے گا یہ کہاں کا انصاف ہے۔

70 فیصد کی بجائے 35 فیصد ادا کی جائے گی جس کی وجہ نچلے یا پھر دوسرے درجے کے ملازمین کو صرف نہ صرف پنشن کم ہوگی بلکہ کوئی بھی میڈیکل کی سہولت بچوں کی تعلیم اور ان کی رہائش کا مسئلہ حل ہو سکے گا، جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے پہلے ہی انکم ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے جبکہ بڑے بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کے مالکان اور بڑے پلازوں کے مالکان چھوٹے دکانداروں سے لے کر بڑے بڑے سرمایہ کاروں سے برائے نام انکم ٹیکس لیا جاتا ہے اور ایف بی آر ان کے ساتھ ملی بھگت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

اس ملک کا نظام ہی سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے ہاتھوں بک چکا ہے، سو انھی کی ہدایت پر عمل ہوگا۔ کیا امریکا اور یورپی ممالک میں پنشن یا گزارا الاؤنس نہیں ملتا، کیا بے روزگاری الاؤنس نہیں ملتا، کیا میڈیکل اور تعلیمی سہولت کے علاوہ رہائشی سہولیات نہیں ملتیں، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر غریب ملک پاکستان کے ملازمین اور ریٹائرڈ اور بیوہ کو بھی وہی سہولتیں دی جائیں جو امریکا یا یورپی ممالک میں ملتی ہیں۔

آخر میں یہ بھی شرط لگا دی گئی ہے پچھلی 36 ماہ کی تنخواہ پر پنشن اب 50 فیصد کی بجائے 25 فیصد پر کموڈیٹ کی جائے گی تو پھر یہ حکمران، ججز صاحبان سمیت وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ تمام سینیٹ کے ممبران سینیٹ کے سابق اور حاضر چیئرمین ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی لاتعداد سہولتیں بھی ختم کی جائیں، ان کی مفت کی رہائش، ملازمین کی تعداد اور پٹرول اور گیس بجلی سمیت میڈیکل کی سہولت ہوائی جہازوں میں فیملی کے ساتھ سفر کرنے سمیت تمام فری چیزیں ختم کردی جائیں تو شاید ہمیں بھی صبر آجائے گا۔
Load Next Story