ایس ایم ظفر…ایک عہد ساز شخصیت

ایس ایم ظفر مرحوم کو پاکستان میں ایک عہد ساز شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا

salmanabidpk@gmail.com

اوڑھ کر مٹی کی چادر بے نشان ہوجائیں گے
ایک دن آئے گا ہم بھی داستان ہوجائیں گے

ایس ایم ظفر مرحوم کو پاکستان میں ایک عہد ساز شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ سیاست، قانون، حکمرانی اور انسانی حقوق کی دنیا میں انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے۔

ایک ماہ قبل برادر عبدالستار عاصم کا فون آیا اور پیغام دیا کہ ایس ایم ظفرصاحب سے ملنا ہے ، ان کی خواہش ہے کہ آپ بھی اس ملاقات میں شامل ہوں۔

ایس ایم ظفر صاحب سے کئی دہائیوں سے ملاقاتیں رہی ہیں، ہمیشہ بڑی عاجزی ، انکساری، محبت، خلوص او راپنائیت سے ملتے، مکالمہ کرتے، سوالات کا مختصر جواب دیتے، مسائل کو الجھانے کے بجائے سلجھانے کا ہی طریقہ بتاتے۔ ان کے بقول علم و دانش الجھنے یا ٹھراؤ کا نام نہیں بلکہ آگے بڑھنے کا نام ہے ۔اپنی سوچ اور فکر کو جامد نہ کرو او رجو بھی مشکل سے مشکل حالات ہوں ان میں سے راستہ نکالنے کا ہنر ہونا چاہیے۔

ایس ایم ظفر پاکستان کی معتبر سیاسی اور قانونی شخصیت تھے ۔ ان کی حیثیت قومی سیاست او رقانون کے میدان میں انسائیکلوپیڈیا کی تھی ۔ بہت سے اہم راز جو ان کے سینے میں موجود تھے اس کی ایک جھلک ہمیں ان کی اپنی لکھی ہوئی بیشتر کتابوں میں نظر بھی آتی ہے ۔ان کا ایک تفصیلی بیانیہ ''مکالمہ '' کی صورت میں برادرم ڈاکٹر وقار ملک کی صورت میں موجود ہے۔

اس مکالمہ کو پڑھ کر ہی ہمیں ایس ایم ظفر کی شخصیت کی مختلف جہتوں سمیت ان کی فکری اور علمی کاوشوں او رخیالات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی طرح ان کی یاداشتوں پر مشتمل ہی ایک شاہکار''ایس ایم ظفر کی کہانی ان کی اپنی زبانی '' موجود ہے۔ اس کہانی میں ایس ایم ظفر کی ارتقائی پہلو سے لے کر آخری سانس تک جو بھی مراحل تھے پڑھنے کو ملتے ہیں۔

مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے

لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

ایس ایم ظفر سے آخری ملاقات دو گھنٹوں پر محیط تھی ۔ انھوں نے بڑی محبت کے ساتھ مجھے اپنی کتاب'' پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ '' دی او ر کہا کہ اگر اس کتاب پر کچھ لکھو تو یہ ضرور لکھنا ''ابونصر الفارابی مسلم فلاسفر جنھیں ارسطور کے بعد فلسفہ کا استاد ثانی کہتے ہیں ۔ انھوں نے سیاسیات پر بہت سی کتابیں لکھی ہیںجن میں ایک نام Political Regime یعنی سیاسی حکومتیں ہے۔


ایک جمہوری ملک فارابی کے مطابق وہ ہوتا ہے جہاںاس کے شہریوں کو آزادی ہو کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ حکمران شہریوں کے اعتماد پر حکومت کرتے ہیں اور شہری حکمران سے خوش ہوتے ہیں ۔''

قیوم نظامی، ڈاکٹر محمد صادق، بیگم مہنازرفیع، پروفیسر ہمایوں احسان ، ایم اے شکوری کی توسط سے ان سے اکثر ملاقاتیں رہتی اور وہ مختلف فکری فورمز میں اپنا مقدمہ نہایت ہی سلیقہ، شائشتگی، تحمل او ربردباری سے پیش کرتے تھے ۔ کبھی تنقید کرتے ہوئے کسی کی تضحیک نہیں کرتے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت کو ہر مکتبہ فکر میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ہمیشہ اپنے دائرہ میں رہتے اور وکٹ سے باہر نکل کر کھیلنا ان کی عادت نہیں تھی ۔ حکمرانی کے نشے کا شکار نہیں ہوئے ۔وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے ان میں عوام پارلیمنٹ اسلام، عدالت میں سیاست، جب تاریخ دہراتی ہے،ڈکٹیٹر کون ، مکالمہ ، Interpreted - Re- History of Pakistan ,تذکرے جائزے جیسی معروف کتابیں شامل ہیں ۔

ایس ایم ظفر 18ویں ترمیم جو 2010میں منظور ہوئی اس پارلیمانی کمیٹی کے بھی رکن تھے جہاں وہ مسلم لیگ ق کی نمایندگی کررہے تھے ۔ ان کے بقول ان ترامیم کے نتیجے میں ملک کے آئینی ڈھانچے میں جو بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں آئیں میں انھیں ایک'' نیا عمرانی معاہدہ '' قرار دیتا ہوں او ران کے بقول اس کا ایک بڑا کریڈیٹ سینٹر رضاربانی کو جاتا ہے جنھوں نے سب کے نقطہ نظر کو سنا ، سمجھا اور اس کو حتمی شکل دے کر نئی تاریخ رقم کی۔

اسی طرح ایس ایم ظفر کا یہ نقطہ نظر بھی اہمیت رکھتا ہے جس کے مطابق '' خدمت خلق اس وقت راج کرے گی جب ان کی منتخب پارلیمنٹ اپنا صحیح کردار ادا کرے گی ،کوئی مسیحا نہیں ہوتا ۔ قوم کو مسیحا کی نہیں فقط ایک جمہوری قائد کی ضرورت ہے۔ آخری نشست میں بھی وہ پاکستان کے حالات پر بہت رنجیدہ تھے۔

ایس ایم ظفر اکثر اوقات گلہ کرتے تھے کہ میڈیا کی آزادی کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ دردناک ہے۔ مکالمہ کی جگہ تضحیک نے لے لی ہے۔اس سے مسائل کم نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوںگے۔

ہر بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

تم ہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے

عورتوں کی سیاسی عمل میں موثر شمولیت کے وہ بہت حامی تھے ۔ اس موضوع پر ان سے تفصیلی گفتگو بھی ہوئی تھی ۔ ایس ایم ظفر اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ موت برحق ہے اور سب نے اﷲ تعالی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ ایس ایم ظفر ایک بھرپور او رلمبی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ۔ آپ ان کے خیالات پر تنقید کرسکتے ہیں مگر یہ گواہی موجود ہے کہ وہ جس چیز کو حق پر سمجھتے تھے اس کا مقدمہ آخری سانس تک خوب لڑا۔بقول شاعرکے

کتنی ویران سی رہ جاتی ہے دل کی بستی

کتنے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
Load Next Story