لفظوں کا توپچی

صولت رضا نے اپنی کتاب میں ایک کورٹ مارشل کی روداد بھی قدر احتیاط سے بیان کی ہے

msmrao786@hotmail.com

صولت رضا کی خود نوشت ''پیچ و تاب زندگی'' میں وہ لکھتے ہیں کہ ''میں نے چند واقعات اور کچھ شخصیات کو بے نقاب کرنے سے حتی الوسع گریز کیا ہے'' لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے والے ان کرداروں کی جڑ تک پہنچ جاتے ہیں۔

صولت رضا کی یہ تیسری کتاب ہے، اس سے پہلے ان کی دو کتابیں ''کاکولیات'' اور ''غیر فوجی کالم'' دنیائے ادب و صحافت میں نمایاں مقام حاصل کر چکی ہیں۔ صولت رضا نے جس دور میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا، اس وقت کی سیاست میں اسلامی سوشلزم ، نیشنلزم اور اسلامی نظام کے حوالے سے بحث عروج پر تھی۔

میں ان دنوں پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم تھا،حفیظ خان اور جہانگیر بدر بائیں بازو کے نوجوان طالب علم لیڈر تھے جب کہ حافظ محمد ادریس اور جاوید ہاشمی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے نظریے کے علم بردار تھے۔

صولت رضا نے اپنی کتاب میں ایک کورٹ مارشل کی روداد بھی قدر احتیاط سے بیان کی ہے۔ یہ مقدمہ اٹک جیل میں چل رہا تھا۔اس کورٹ مارشل ٹیم کے سربراہ اس وقت کے میجر جنرل اور بعد میں آرمی چیف بننے والے جنرل محمد ضیاء الحق تھے۔ صفائی کے وکلاء میں بیرسٹر اعتزاز احسن بھی شامل تھے۔ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل صولت رضا کی کتاب آئی ایس پی آر کی تاریخ کا اور اس دور کے آرمی چیف اور اس کے قریبی افسران کی سوچ اور اطوار کا مظہر بھی ہے۔

آئی ایس پی آر میں 30 سال سے زائد تعیناتی کے دوران انھوں نے جنرل محمد ضیاء الحق،جنرل اسلم بیگ، جنرل اصف نواز، جنرل عبدالوحید کاکڑ،جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کام کیا۔ کتاب ''پیچ تاب زندگی'' میں جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کے احوال کا تذکرہ بھی ہے لیکن انھوں نے ضیاء الحق کے حادثے کے پس منظر اور منظر نامے پر تبصرے سے گریز کیا ہے۔


مجیب الرحمن شامی س کتاب کو ''پوری قوم کی کہانی'' قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صولت رضا کا لہجہ شگفتہ، نظر گہری اور مشاہدہ وسیع ہے۔ ممتاز ادیب اور لکھاری مرحوم برگیڈیئر صدیق سالک جو صولت رضا کے سینیئر بھی تھے انھوں نے ان کی پہلی کتاب ''کاکولیات'' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ صولت کی فوجی زندگی کا پیشتر حصہ پہاڑوں پر گزرا وہ اپنی امیدوں کے ابگینے اٹھائے کوہ کوہ دمن دمن پھرتا رہا ہے... کاکول اکیڈمی کی کٹھالی نے صولت کا سارا کھوٹ نکال کر ایک ننھا منا لیفٹیننٹ تراش کر دیا جو بالکل خالص ہے۔ صولت ادبی بٹالین کا ایڈجوٹینٹ ہے وہ اس کا کمانڈنگ افیسر بن جائے گا۔

''مرحوم صدیق سالک کی یہ بات سچ ثابت ہوئی ۔صدر مشرف کے دور میں ریٹائرمنٹ لے کر خود کو ادبی اور علمی دنیا کے حوالے کر دیا۔ ریٹائرمنٹ کے چند ہفتے بعد ہی وہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) کے میڈیا سائنس ڈیپارٹمنٹ کے بانی چیئرمین بن گئے۔ خاصے عرصے تک یہاں رہنے کے بعد انھوں نے تدریسی صحافت کو خیر آباد کہا اور ایک نجی ٹیلی ویڑن چینل کے چیف آپریٹنگ افیسر بن کر عملی صحافت کی نوک پلک درست کرنے میں مصروف ہوگئے۔

پی ٹی وی کے سابق ڈائریکٹر نیوز اور ممتاز صحافی شکور طاہر صولت رضا کی شخصیت،ان کے انداز گفتگواور تحریروں کا تجزیہ کرتے ہوئے انھیں ''لفظوں کے توپچی'' کا خطاب دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سہولت رضا گولے بارود اور توپ و تفنگ سے کھیلنے کے لیے نہیں، لفظوں سے کھیلنے کے لیے پیدا ہوا تھا ۔2 1 اکتوبر 1999 کو جب وزیراعظم نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو برطرف کر کے جنرل ضیاء الدین کو تعینات کیا، وہ اپنی کتاب کے صفحہ 137 پر اس دن کا احوال بیان کیا ہے جو انتہائی دلچسپ اور معلومات افزاء ہے۔

یہ کتاب پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ پر تحقیق کرنے والے طالب علموں کے لیے کئی نئے زاویے لیے ہوئے ہے، انھوں نے تاریخی اعتبار سے پیچیدہ معاملات کی گتھیوں کا سرا کھول کر رکھ دیا ہے، اب یہ ایندہ تحقیق کرنے والے افراد کا کام ہے کہ وہ اس سرے کو پکڑ کر معاملے کی تہہ تک پہنچ جائیں۔کتاب کا اسلوب سادہ اور ابلاغی عمل قابل تقلید اور قابل ستائش ہے۔ صہولت رضا چھوٹے چھوٹے فقروں میں بڑی بات کہنے کی مہارت رکھتے ہیں۔

صولت رضا نے وردی میں ملبوس مرحوم جنرل شفیق الرحمان اور کرنل صدیق سالک جنرل اسلم بیگ کے قلم کی کاٹ اور روشنائی کو بام عروج تک پہنچایا ہے۔ان کی پٹاری میں ابھی بہت کچھ ہے ، اس کتاب میں انھوں نے جن اشارات کا ذکر کیا ہے وہ سب موضوع الگ الگ ایک کتاب کا عنوان بن سکتے ہیں۔اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ۔
Load Next Story