پھیکا پکوان… تیکھا پکوان
ابتدا اس تیکھے پکوان کی تو بہت پہلے ہوئی تھی لیکن انتہا ’’گلوبل ویلج ریستوران‘‘ میں ہوئی
پھیکا پکوان اورتیکھا پکوان تواس کے ٹریڈ مارک اورکمرشل نام ہیں، عوامی زبان میں انھیں رزق حلال اور رزق حرام کہا جاتا ہے، آج کل تو ''تیکھے پکوان'' کا بول بالا ہے لیکن ایک زمانے میں اسے کوئی منہ بھی نہیں لگاتا تھا اورہرکوئی پھیکے پکوان ہی میں خوش تھا لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا ؟ کیسے ہوا ؟ کیوں ہوا ؟
ابتدا اس تیکھے پکوان کی تو بہت پہلے ہوئی تھی لیکن انتہا ''گلوبل ویلج ریستوران'' میں ہوئی اورآج کل یہ عالم ہے کہ جو پھیکا پکوان کھاتے ہیں یاکھانا چاہتے ہیں، وہ بھی اس میں چپکے سے کسی نہ کسی طرح تیکھا پکوان ملاکر کھاتے ہیں ۔ظاہرہے کہ یہ بہت بڑی تبدیلی بلکہ انقلاب بلکہ نیا پاکستان تھا۔
اس لیے ہماری محققانہ رگ کاپھڑکنالازمی تھا کہ آخر اس تیکھے پکوان کی ریسپی میں ایسا کیاہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی حالاںکہ بے شمار دواخانے مسلسل تیکھے پکوان کی لت چھڑانے اورپھیکا پکوان مروج کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو تیکھا پکوان چھڑا تونہیں سکے البتہ خود تیکھے پکوان کے رسیا ہوگئے خاص طور پر حکومت نے جتنے بھی دواخانے تیکھا پکوان چھڑوانے کے لیے قائم کیے تھے وہیں آج کل تیکھا پکوان زیادہ کھایا جارہا ہے۔
وہی پرانی حکایت کہ ایک بادشاہ کے ہاں بڑی منتوں اوردعاؤں، تعویذوں کے بعد بیٹا پیداہوا لیکن کچھ دنوں کے بعد پتہ چلا کہ اس میں مردانہ کے بجائے زنانہ لچھن تھے اورشہزادے کے بجائے شہزادی لگتی تھی ، بادشاہ نے اسے وزیروں کے مشوروں سے شہزادے یاشہزادی نما شہزادے کو ایک قلعے میں سو ایسے لڑکوں کے ساتھ رکھا جو بہترین مردانہ صفات کے حامل تھے، قلعے میں کسی بھی زنانہ چیزپر پابندی تھی ، ایک سال گزرنے پر بادشاہ نے چاہا کہ شہزادی نما شہزادے میں کیا ڈویلپمنٹ ہوئی لیکن جیسے ہی دروازہ کھلا وہ سوکے سو نوجوان تالیا ں بجابجا کر ، لہرا لہرا کر اورمٹکا مٹکاکر بادشاہ کااستقبال کررہے تھے ۔
ہمارے گاؤں میں ایک شخص کہیں سے آکر آباد ہوگیا، نہایت کمالی آدمی تھا جو کچھ بھی پکاتا تھا لوگ ٹوٹ پڑتے ، کبھی آلو چنے لگاتا تھا، کبھی پکوڑے سموسے ،کبھی پلاؤ ،کبھی بریانی ۔ پلاؤ بریانی اس کی ایسی فیمس ہوئی کہ گاؤں چھوڑ کر قریبی قصبے کے بازار میں اس نے دکان کھول لی، وہاں بھی لوگ ٹوٹ پڑے، پھروہ اس قصبے سے بھی ترقی کرکے شہرچلاگیا، وہاں باقاعدہ ایک ہوٹل کھول دیا۔ پھر ایک دن اچانک خبر آگئی کہ اسے پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اوراب جیل میں مقدمات بھگت رہاہے ، پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ کم بخت کاکاروبار اچھا خاصا جا رہا تھا لیکن اس نے ''کبوتروں'' کادھندہ شروع کر دیا تھا۔
اب اس دھندے کی تفصیل بھی آپ کو بتانا پڑے گی ،یہ خالص ہمارے گاؤں کی اصطلاح ہے ۔ اکثر کبوتر باز بازار میں تو آموزوں کے ہاتھ کبوتر بیجتے ہیں لیکن وہ کبوتر دوسرے دن اس کے پاس واپس آجاتے ہیں اوروہ اسے دوبارہ کسی اورنوآموز کے ہاتھ بیج دیتاہے، اس پرہمارے پاس ایک حقیقہ بھی ہے۔ ایک شخص نے اچانک گائے خریدلی حالاںکہ اس کی استطاعت بکری خریدنے کی بھی نہیں تھی، ہم نے پوچھا اتنے پیسے تمہارے پاس کہاں سے آئے۔ بولا ،کبوتر بیچ کر۔
ان دنوں نہ جانے کیا ہوگیا تھا کہ کچھ لوگوں کو ہمارے صوبے میں شادی کرنے کا رجحان زیادہ ہوگیا تھا ، بہت سارے لوگ اس مقصد کے لیے آنے لگے تو اس کے ساتھ ہی نوسرباز بھی میدان میں آگئے ،جن میں ہمارا ''گڈ'' بھی تھا، تھوڑا سالنگڑانے کی وجہ سے لوگ اسے گڈ (لنگڑا) یاچاولوں والا گڈ بھی کہتے تھے ۔ اس کے چاولوں یا پلاؤ بریانی کا ہوٹل اچھا خاصا چل نکلاتھا یہاںتک کہ اس نے شہرمیں دکان بھی خرید لی تھا لیکن کم بخت تیکھے پکوان کا رسیا تھا، اس پر صبرنہیں کرسکا اور نوسربازی کے دھندے میں پڑ گیا ، وہ سادہ لوح افراد کو لڑکیاں دکھاتا۔
وہ لڑکی پر لٹو ہوجاتے تو دل کھول کر مال ڈھیلا کردیتے ، شادی ہوجاتی ، وہ لڑکی بیوی بن کر اس کے ساتھ شہر چلی جاتی لیکن دوتین دن بعد پتہ چلتا کہ دلہن گھر کاصفایا کرکے اڑ چکی ۔ وہ اس کی تلاش میں آجاتے تو دلال کہتے ، بھئی ہم نے تو شادی کرادی تھی، بیوی بھی ساتھ کردی تھی ، تم سنبھال نہیں سکے تو کیا ہم پھر آپ کے پہریدار بن جائیں۔ زیادہ تر لوگ شرم کے باعث خاموش رہ جاتے لیکن کچھ رسوخ والے بھی ہوتے تھے چنانچہ ''گڈ'' کے اوپر پانچ ایسے مقدمات درج ہوگئے۔
ہم نے یہ واقعہ اپنے گاؤں کے واحد دانا دانشور چشم گل چشم کو سنایا تو اس نے کہا ہے، مجھے پتہ ہے بلکہ اس کے پکڑے جانے سے پہلے مجھے پتہ تھا کہ یہ کم بخت تیکھے پکوان کارسیا ہے ۔پھر اس نے مزید تشریحتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگ اگر رزق حلال میں روزانہ ایک ہزار روپے کما رہے ہوں اورکہیں سے پتہ لگ جائے کہ فلاں حرام کاروبار میں پانچ سو روپے ملتے ہیں تو ہزار والا کام بلکہ پھیکا پکوان چھوڑ کر پانچ سوروپے والا تیکھا پکوان پسند کرلیتے ہیں۔
ابتدا اس تیکھے پکوان کی تو بہت پہلے ہوئی تھی لیکن انتہا ''گلوبل ویلج ریستوران'' میں ہوئی اورآج کل یہ عالم ہے کہ جو پھیکا پکوان کھاتے ہیں یاکھانا چاہتے ہیں، وہ بھی اس میں چپکے سے کسی نہ کسی طرح تیکھا پکوان ملاکر کھاتے ہیں ۔ظاہرہے کہ یہ بہت بڑی تبدیلی بلکہ انقلاب بلکہ نیا پاکستان تھا۔
اس لیے ہماری محققانہ رگ کاپھڑکنالازمی تھا کہ آخر اس تیکھے پکوان کی ریسپی میں ایسا کیاہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی حالاںکہ بے شمار دواخانے مسلسل تیکھے پکوان کی لت چھڑانے اورپھیکا پکوان مروج کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو تیکھا پکوان چھڑا تونہیں سکے البتہ خود تیکھے پکوان کے رسیا ہوگئے خاص طور پر حکومت نے جتنے بھی دواخانے تیکھا پکوان چھڑوانے کے لیے قائم کیے تھے وہیں آج کل تیکھا پکوان زیادہ کھایا جارہا ہے۔
وہی پرانی حکایت کہ ایک بادشاہ کے ہاں بڑی منتوں اوردعاؤں، تعویذوں کے بعد بیٹا پیداہوا لیکن کچھ دنوں کے بعد پتہ چلا کہ اس میں مردانہ کے بجائے زنانہ لچھن تھے اورشہزادے کے بجائے شہزادی لگتی تھی ، بادشاہ نے اسے وزیروں کے مشوروں سے شہزادے یاشہزادی نما شہزادے کو ایک قلعے میں سو ایسے لڑکوں کے ساتھ رکھا جو بہترین مردانہ صفات کے حامل تھے، قلعے میں کسی بھی زنانہ چیزپر پابندی تھی ، ایک سال گزرنے پر بادشاہ نے چاہا کہ شہزادی نما شہزادے میں کیا ڈویلپمنٹ ہوئی لیکن جیسے ہی دروازہ کھلا وہ سوکے سو نوجوان تالیا ں بجابجا کر ، لہرا لہرا کر اورمٹکا مٹکاکر بادشاہ کااستقبال کررہے تھے ۔
ہمارے گاؤں میں ایک شخص کہیں سے آکر آباد ہوگیا، نہایت کمالی آدمی تھا جو کچھ بھی پکاتا تھا لوگ ٹوٹ پڑتے ، کبھی آلو چنے لگاتا تھا، کبھی پکوڑے سموسے ،کبھی پلاؤ ،کبھی بریانی ۔ پلاؤ بریانی اس کی ایسی فیمس ہوئی کہ گاؤں چھوڑ کر قریبی قصبے کے بازار میں اس نے دکان کھول لی، وہاں بھی لوگ ٹوٹ پڑے، پھروہ اس قصبے سے بھی ترقی کرکے شہرچلاگیا، وہاں باقاعدہ ایک ہوٹل کھول دیا۔ پھر ایک دن اچانک خبر آگئی کہ اسے پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اوراب جیل میں مقدمات بھگت رہاہے ، پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ کم بخت کاکاروبار اچھا خاصا جا رہا تھا لیکن اس نے ''کبوتروں'' کادھندہ شروع کر دیا تھا۔
اب اس دھندے کی تفصیل بھی آپ کو بتانا پڑے گی ،یہ خالص ہمارے گاؤں کی اصطلاح ہے ۔ اکثر کبوتر باز بازار میں تو آموزوں کے ہاتھ کبوتر بیجتے ہیں لیکن وہ کبوتر دوسرے دن اس کے پاس واپس آجاتے ہیں اوروہ اسے دوبارہ کسی اورنوآموز کے ہاتھ بیج دیتاہے، اس پرہمارے پاس ایک حقیقہ بھی ہے۔ ایک شخص نے اچانک گائے خریدلی حالاںکہ اس کی استطاعت بکری خریدنے کی بھی نہیں تھی، ہم نے پوچھا اتنے پیسے تمہارے پاس کہاں سے آئے۔ بولا ،کبوتر بیچ کر۔
ان دنوں نہ جانے کیا ہوگیا تھا کہ کچھ لوگوں کو ہمارے صوبے میں شادی کرنے کا رجحان زیادہ ہوگیا تھا ، بہت سارے لوگ اس مقصد کے لیے آنے لگے تو اس کے ساتھ ہی نوسرباز بھی میدان میں آگئے ،جن میں ہمارا ''گڈ'' بھی تھا، تھوڑا سالنگڑانے کی وجہ سے لوگ اسے گڈ (لنگڑا) یاچاولوں والا گڈ بھی کہتے تھے ۔ اس کے چاولوں یا پلاؤ بریانی کا ہوٹل اچھا خاصا چل نکلاتھا یہاںتک کہ اس نے شہرمیں دکان بھی خرید لی تھا لیکن کم بخت تیکھے پکوان کا رسیا تھا، اس پر صبرنہیں کرسکا اور نوسربازی کے دھندے میں پڑ گیا ، وہ سادہ لوح افراد کو لڑکیاں دکھاتا۔
وہ لڑکی پر لٹو ہوجاتے تو دل کھول کر مال ڈھیلا کردیتے ، شادی ہوجاتی ، وہ لڑکی بیوی بن کر اس کے ساتھ شہر چلی جاتی لیکن دوتین دن بعد پتہ چلتا کہ دلہن گھر کاصفایا کرکے اڑ چکی ۔ وہ اس کی تلاش میں آجاتے تو دلال کہتے ، بھئی ہم نے تو شادی کرادی تھی، بیوی بھی ساتھ کردی تھی ، تم سنبھال نہیں سکے تو کیا ہم پھر آپ کے پہریدار بن جائیں۔ زیادہ تر لوگ شرم کے باعث خاموش رہ جاتے لیکن کچھ رسوخ والے بھی ہوتے تھے چنانچہ ''گڈ'' کے اوپر پانچ ایسے مقدمات درج ہوگئے۔
ہم نے یہ واقعہ اپنے گاؤں کے واحد دانا دانشور چشم گل چشم کو سنایا تو اس نے کہا ہے، مجھے پتہ ہے بلکہ اس کے پکڑے جانے سے پہلے مجھے پتہ تھا کہ یہ کم بخت تیکھے پکوان کارسیا ہے ۔پھر اس نے مزید تشریحتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگ اگر رزق حلال میں روزانہ ایک ہزار روپے کما رہے ہوں اورکہیں سے پتہ لگ جائے کہ فلاں حرام کاروبار میں پانچ سو روپے ملتے ہیں تو ہزار والا کام بلکہ پھیکا پکوان چھوڑ کر پانچ سوروپے والا تیکھا پکوان پسند کرلیتے ہیں۔