قصے جلا وطنی کے
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ مثبت ہے اور پھر یہ بوجھ تو اب اس ملک کے سیاستدانوں پر ہے
میاں نواز شریف کا پاکستان آنا،ان کے مخالفین کا اس بات پر اعتراضات اٹھانا کہ میاں صاحب تو سزا یافتہ تھے، مفرور تھے، پھر کیسے وطن واپسی پر ان کو حفاظتی ضمانت دی گئی؟
اور بہت سی باتیں۔ یہ تمام باتیں سیاست کرنے یا اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے تو کی جا سکتی ہیں مگرسیاست کے زمینی حقائق کے تناظر میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی کو جلا وطنی کا خاتمہ کہا جائے گا۔پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔
کئی سیاسی رہنما ماضی میں جلا وطن رہے، کئی سالوں تک رہے ، پھر اپنے ملک واپس آئے اور کچھ ر ہنما تو ایسے بھی تھے کہ وہ جلا وطنی میں ہی مارے گئے۔کچھ ایسے بھی رہنما تھے جو جلا وطنی کے بعد واپس تو آگئے مگر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جیسا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ،حسین سہروردی صاحب دورانِ جلا وطنی بیروت کے ایک ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے۔
جب جنرل اسکندر مرزا کی حکومت کا تختہ الٹایا گیا تو ان کو بھی جبراً جلا وطن کردیا گیا مگر بڑے اعزاز کے ساتھ۔ اسکندر مرزا کو رخصت کرتے وقت جنرل ایوب صاحب امریکی سفیر کے ساتھ خود ایئرپورٹ پر موجود تھے۔نہ مل سکی ان کو بھی دو گز زمین کوئے یار میں بہادر شاہ ظفر کی طرح۔ میاں صاحب کے والد کا انتقال جلا وطنی میں ہوا۔ باچا خان نے بھی اپنی زندگی کے کئی سال جلا وطنی میں گزارے۔
بہت سے بلوچ لیڈر بھی کئی سالوں تک جلا وطن رہے اور پھر وطن واپس آئے۔ان جلا وطنوں کی فہرست میں میرے والد کا نام بھی سرفہرست ہے۔میرے والد کا تعلق عوامی لیگ پارٹی سے تھا جو شیخ مجیب کی پارٹی تھی۔ بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں میرے والد جلاوطن ہوئے اور پھر ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں ہی جلا وطنی کاٹنے کے بعد باقی زمانہ اسیری میں گزارا۔
جی ایم سید نے جلا وطنی تو قبول نہیں کی مگر اپنی زندگی کا طویل عرصہ اسیری میں گزارا۔بے نظیر بھٹو صاحبہ نے میاں صاحب کے دورِ حکومت میں جلا وطنی کو قبول کیا، جب وہ جلا وطن تھیں ان کے شوہر ایک طویل مدت تک پابندِ سلاسل تھے۔
صوبہ پنجاب سے یہ پہلی روایت ملتی ہے کہ کوئی سیاسی لیڈر اسیری میں بھی رہا اور جلا وطنی میں بھی اور وہ ہیں میاں صاحب۔یہ کہنا کہ وہ کسی معاہدے کے تحت وطن واپس آئے ہیں تو سیاست کے نشیب وفراز میں ایسا ہوتا ہے۔معاہدہ تو ریاست نے نواب نوروز خان آف قلات سے بھی کیا تھا۔
معاہدے کے تحت ان کو پہاڑوں سے نکال کر لے آئے پھر ہوا کیا؟ ان کی اولاد کو پھانسیوں پر چڑھایا گیا اور وہ خود1965 میں کوہلو جیل میں اسیری کے دوران انتقال کر گئے۔معاہدہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی کیا گیا۔ ایک معاہدے کے تحت بے نظیر صاحبہ نے ملک میں قدم رکھے اور پہلے ہی دن ان کے کارواں پر بموں سے حملہ کیا گیا۔اس دن تو وہ معجزانہ طور پر بچ گئیں لیکن دو مہینے بعد ایک اور خود کش حملے میں جاں بحق ہوئیں۔
میاں صاحب بھی اسی ٹریک پر ہیں۔پہلے بھٹو صاحب مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے ساتھ تھے۔جب بنگالیوں پر مظالم ڈھائے گئے تو بھٹو صاحب آمریت کے ساتھ کھڑے رہے ، چونکہ اس وقت مغربی پاکستان پر قابض اسٹبلشمنٹ اور بیوروکریسی بنگالیوں سے گھبراتی تھی، پھر وہ دن بھی آیا جب ہماری حکمران اشرافیہ اسٹبلشمنٹ اور بیوروکریسی بھٹو سے گھبرانے لگی۔
امریکا بھٹو صاحب سے خوفزدہ ہونے لگا،کیونکہ بھٹو صاحب کچھ زیادہ ہی پر اعتماد ہو گئے، ان کو لگا کہ تمام مسلم ممالک کو مغرب کے خلاف ایک ہو نا چاہیے اور وہ اکھٹے بھی ہو رہے تھے۔ان کی یہ پر اعتمادی اور ان کی سوچ تو بڑی مثبت تھی مگر ان کو اپنی طاقت کا اندازہ نہ ہو سکا کہ جن پتوں پر ان کو ناز تھا، وہ پتے ہی صدائیں دینے لگے۔
بھٹو صاحب نے ہی جنرل ضیاء کو اونچے عہدے پر بٹھایا۔ بھٹو صاحب نے بہت سے سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے یہ عہدہ ضیاالحق کو دیا تھا۔بھٹو صاحب آئے تو غلط دروازے سے تھے مگر گئے ایک بلند نام کے ساتھ اور اس نام کا کوئی ثانی نہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں۔
ہمارے میاں صاحب بھی آمریت کے ساتھ کھڑے رہے جب وہ بے نظیر صاحبہ کی مقبولیت سے خائف تھے۔میاں صاحب کا سیاسی مقام اور سیاسی قد اس قدر بلند نہ تھا جتنا کہ شیخ مجیب یا پھر بھٹو صاحب کا تھا۔مگر وقت کے ساتھ ان کا سیاسی قد بلندہوا اور وہ ان قوتوں کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہوئے جو جمہوریت کے ارتقاء کی جدوجہد میں رکاوٹ ہیں۔پھر ملک کی سیاسی گردشوں نے کبھی بے نظیر کو اسٹلشمنٹ کے ساتھ کھڑا کیا اور میاں صاحب کو سائیڈ لائن کیا تو کبھی میاں صاحب کو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا کیا اور بے نظیر صاحبہ کو سائیڈ لائن کیا۔
جب جنرل مشرف ملک پر قابض ہوئے اور میاں صاحب کو جلا وطن کیا گیا تو اس وقت مشرف نے آئین کو معطل کیا تھا۔اس وقت آئینِ پاکستان میں 58(2)(b) کی شق ختم ہو چکی تھی۔میاں صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت کے ذریعے آئین کی اس شق کو ختم کردیا تھا ۔اس وقت عوام بھی اتنی باشعور نہ تھے کہ آئین کی پامالی اور بے حرمتی کے خلاف راستوں پر نکل پڑتی۔
جنرل مشرف نے بے نظیر صاحبہ اور میاں صاحب دونوں کو جمہوری قوت مانایا پھر یہ کہیے کہ بے نظیر صاحبہ نے ایک آمر اور اس کی حکومت کو ماننے سے انکار کردیا اور اس کو موقعہ دیا کہ وہا نتخابات کرائے اور اقتدار چھوڑ دے۔ دونوں بڑی سیاسی قوتوں یعنی بے نظیر صاحبہ اور میاں صاحب نے لندن میں ، میثاقِ جمہوریت جیسا معاہدہ تحریر کیا۔ پاکستان کے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد اگر کوئی دستاویز منظم عمرانی معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے تو وہ ہے میثاقِ جمہوریت کا ڈاکیومنٹ۔
پاکستان کی آزادی کے بعد 1971 تک ہم اس ملک کو ایک جامع آئین نہ دے سکے اور اگر دیا بھی تو وہ آدھا ملک گنوانے کے بعد دیا۔ اس آئین کو وجود میں آئے ابھی پانچ سال بھی پورے نہ ہو پائے کہ آمریت اس ملک پر غاصب ہو گئی۔اس آمریت نے ملک کو افغان پالیسی دی ، ایک ایسا بیا نیہ دیا جس نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا۔
آمریت تو پھر چلی گئی مگر اس کا دیا ہوا تحفہ افغان پالیسی اس ملک کی بنیادوں میں بس گئی۔ قائد تحریک انصاف ضیاالحق والی افغان پالیسی کے سب سے بڑے ترجمان تھے ۔انھوں نے اپنی مقبولیت امریکا کے سابق صدر ٹرمپ کی طرح disinformation سے بنائی ہے۔ قائد تحریک انصاف کی پا لیسیز اس ملک کے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں تھیں۔
بہرحال میاں صاحب اپنی جلا وطنی کاٹ کر وطن واپس آئے ہیں ہمیں ان کو خوش آمدید کہنا چاہیے کہ ہمارا جمہوری عمل جاری ہے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ نگراں حکومت میں بھی اسٹبلشمنٹ کا کردار ہے لیکن ایسا نہیں کہ کو ئی آمر اس وقت ملک پر قابض ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ مثبت ہے اور پھر یہ بوجھ تو اب اس ملک کے سیاستدانوں پر ہے کہ وہ کس طرح سے اسٹیبلشمنٹ کا کردار سیاست سے ختم کرتے ہیں۔اس ملک کے پاس شاید اب آخری موقعہ ہے کہ ہم سنبھل جائیں اور اگر اب بھی خود غرضی کا مظا ہرہ کیا گیا تو کوئی بعید نہیں کہ اس ملک کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اور بہت سی باتیں۔ یہ تمام باتیں سیاست کرنے یا اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے تو کی جا سکتی ہیں مگرسیاست کے زمینی حقائق کے تناظر میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی کو جلا وطنی کا خاتمہ کہا جائے گا۔پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔
کئی سیاسی رہنما ماضی میں جلا وطن رہے، کئی سالوں تک رہے ، پھر اپنے ملک واپس آئے اور کچھ ر ہنما تو ایسے بھی تھے کہ وہ جلا وطنی میں ہی مارے گئے۔کچھ ایسے بھی رہنما تھے جو جلا وطنی کے بعد واپس تو آگئے مگر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جیسا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ،حسین سہروردی صاحب دورانِ جلا وطنی بیروت کے ایک ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے۔
جب جنرل اسکندر مرزا کی حکومت کا تختہ الٹایا گیا تو ان کو بھی جبراً جلا وطن کردیا گیا مگر بڑے اعزاز کے ساتھ۔ اسکندر مرزا کو رخصت کرتے وقت جنرل ایوب صاحب امریکی سفیر کے ساتھ خود ایئرپورٹ پر موجود تھے۔نہ مل سکی ان کو بھی دو گز زمین کوئے یار میں بہادر شاہ ظفر کی طرح۔ میاں صاحب کے والد کا انتقال جلا وطنی میں ہوا۔ باچا خان نے بھی اپنی زندگی کے کئی سال جلا وطنی میں گزارے۔
بہت سے بلوچ لیڈر بھی کئی سالوں تک جلا وطن رہے اور پھر وطن واپس آئے۔ان جلا وطنوں کی فہرست میں میرے والد کا نام بھی سرفہرست ہے۔میرے والد کا تعلق عوامی لیگ پارٹی سے تھا جو شیخ مجیب کی پارٹی تھی۔ بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں میرے والد جلاوطن ہوئے اور پھر ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں ہی جلا وطنی کاٹنے کے بعد باقی زمانہ اسیری میں گزارا۔
جی ایم سید نے جلا وطنی تو قبول نہیں کی مگر اپنی زندگی کا طویل عرصہ اسیری میں گزارا۔بے نظیر بھٹو صاحبہ نے میاں صاحب کے دورِ حکومت میں جلا وطنی کو قبول کیا، جب وہ جلا وطن تھیں ان کے شوہر ایک طویل مدت تک پابندِ سلاسل تھے۔
صوبہ پنجاب سے یہ پہلی روایت ملتی ہے کہ کوئی سیاسی لیڈر اسیری میں بھی رہا اور جلا وطنی میں بھی اور وہ ہیں میاں صاحب۔یہ کہنا کہ وہ کسی معاہدے کے تحت وطن واپس آئے ہیں تو سیاست کے نشیب وفراز میں ایسا ہوتا ہے۔معاہدہ تو ریاست نے نواب نوروز خان آف قلات سے بھی کیا تھا۔
معاہدے کے تحت ان کو پہاڑوں سے نکال کر لے آئے پھر ہوا کیا؟ ان کی اولاد کو پھانسیوں پر چڑھایا گیا اور وہ خود1965 میں کوہلو جیل میں اسیری کے دوران انتقال کر گئے۔معاہدہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی کیا گیا۔ ایک معاہدے کے تحت بے نظیر صاحبہ نے ملک میں قدم رکھے اور پہلے ہی دن ان کے کارواں پر بموں سے حملہ کیا گیا۔اس دن تو وہ معجزانہ طور پر بچ گئیں لیکن دو مہینے بعد ایک اور خود کش حملے میں جاں بحق ہوئیں۔
میاں صاحب بھی اسی ٹریک پر ہیں۔پہلے بھٹو صاحب مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے ساتھ تھے۔جب بنگالیوں پر مظالم ڈھائے گئے تو بھٹو صاحب آمریت کے ساتھ کھڑے رہے ، چونکہ اس وقت مغربی پاکستان پر قابض اسٹبلشمنٹ اور بیوروکریسی بنگالیوں سے گھبراتی تھی، پھر وہ دن بھی آیا جب ہماری حکمران اشرافیہ اسٹبلشمنٹ اور بیوروکریسی بھٹو سے گھبرانے لگی۔
امریکا بھٹو صاحب سے خوفزدہ ہونے لگا،کیونکہ بھٹو صاحب کچھ زیادہ ہی پر اعتماد ہو گئے، ان کو لگا کہ تمام مسلم ممالک کو مغرب کے خلاف ایک ہو نا چاہیے اور وہ اکھٹے بھی ہو رہے تھے۔ان کی یہ پر اعتمادی اور ان کی سوچ تو بڑی مثبت تھی مگر ان کو اپنی طاقت کا اندازہ نہ ہو سکا کہ جن پتوں پر ان کو ناز تھا، وہ پتے ہی صدائیں دینے لگے۔
بھٹو صاحب نے ہی جنرل ضیاء کو اونچے عہدے پر بٹھایا۔ بھٹو صاحب نے بہت سے سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے یہ عہدہ ضیاالحق کو دیا تھا۔بھٹو صاحب آئے تو غلط دروازے سے تھے مگر گئے ایک بلند نام کے ساتھ اور اس نام کا کوئی ثانی نہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں۔
ہمارے میاں صاحب بھی آمریت کے ساتھ کھڑے رہے جب وہ بے نظیر صاحبہ کی مقبولیت سے خائف تھے۔میاں صاحب کا سیاسی مقام اور سیاسی قد اس قدر بلند نہ تھا جتنا کہ شیخ مجیب یا پھر بھٹو صاحب کا تھا۔مگر وقت کے ساتھ ان کا سیاسی قد بلندہوا اور وہ ان قوتوں کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہوئے جو جمہوریت کے ارتقاء کی جدوجہد میں رکاوٹ ہیں۔پھر ملک کی سیاسی گردشوں نے کبھی بے نظیر کو اسٹلشمنٹ کے ساتھ کھڑا کیا اور میاں صاحب کو سائیڈ لائن کیا تو کبھی میاں صاحب کو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا کیا اور بے نظیر صاحبہ کو سائیڈ لائن کیا۔
جب جنرل مشرف ملک پر قابض ہوئے اور میاں صاحب کو جلا وطن کیا گیا تو اس وقت مشرف نے آئین کو معطل کیا تھا۔اس وقت آئینِ پاکستان میں 58(2)(b) کی شق ختم ہو چکی تھی۔میاں صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت کے ذریعے آئین کی اس شق کو ختم کردیا تھا ۔اس وقت عوام بھی اتنی باشعور نہ تھے کہ آئین کی پامالی اور بے حرمتی کے خلاف راستوں پر نکل پڑتی۔
جنرل مشرف نے بے نظیر صاحبہ اور میاں صاحب دونوں کو جمہوری قوت مانایا پھر یہ کہیے کہ بے نظیر صاحبہ نے ایک آمر اور اس کی حکومت کو ماننے سے انکار کردیا اور اس کو موقعہ دیا کہ وہا نتخابات کرائے اور اقتدار چھوڑ دے۔ دونوں بڑی سیاسی قوتوں یعنی بے نظیر صاحبہ اور میاں صاحب نے لندن میں ، میثاقِ جمہوریت جیسا معاہدہ تحریر کیا۔ پاکستان کے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد اگر کوئی دستاویز منظم عمرانی معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے تو وہ ہے میثاقِ جمہوریت کا ڈاکیومنٹ۔
پاکستان کی آزادی کے بعد 1971 تک ہم اس ملک کو ایک جامع آئین نہ دے سکے اور اگر دیا بھی تو وہ آدھا ملک گنوانے کے بعد دیا۔ اس آئین کو وجود میں آئے ابھی پانچ سال بھی پورے نہ ہو پائے کہ آمریت اس ملک پر غاصب ہو گئی۔اس آمریت نے ملک کو افغان پالیسی دی ، ایک ایسا بیا نیہ دیا جس نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا۔
آمریت تو پھر چلی گئی مگر اس کا دیا ہوا تحفہ افغان پالیسی اس ملک کی بنیادوں میں بس گئی۔ قائد تحریک انصاف ضیاالحق والی افغان پالیسی کے سب سے بڑے ترجمان تھے ۔انھوں نے اپنی مقبولیت امریکا کے سابق صدر ٹرمپ کی طرح disinformation سے بنائی ہے۔ قائد تحریک انصاف کی پا لیسیز اس ملک کے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں تھیں۔
بہرحال میاں صاحب اپنی جلا وطنی کاٹ کر وطن واپس آئے ہیں ہمیں ان کو خوش آمدید کہنا چاہیے کہ ہمارا جمہوری عمل جاری ہے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ نگراں حکومت میں بھی اسٹبلشمنٹ کا کردار ہے لیکن ایسا نہیں کہ کو ئی آمر اس وقت ملک پر قابض ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ مثبت ہے اور پھر یہ بوجھ تو اب اس ملک کے سیاستدانوں پر ہے کہ وہ کس طرح سے اسٹیبلشمنٹ کا کردار سیاست سے ختم کرتے ہیں۔اس ملک کے پاس شاید اب آخری موقعہ ہے کہ ہم سنبھل جائیں اور اگر اب بھی خود غرضی کا مظا ہرہ کیا گیا تو کوئی بعید نہیں کہ اس ملک کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔