عاصمہ جہانگیر ہے کوئی دوسرا ہے کوئی آخری حصہ

انسانیت کی پری بے شک رخصت ہوگئی ہو، لیکن ہم نے اس سے جو اعلیٰ تخیل اور ذہن رسا تعلیم پائی ہے وہ برقرار رہے گی

zahedahina@gmail.com

میں کچھ عرصہ پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ رہ چکی ہوں۔ ایمنسٹی نے عاصمہ کے بارے میں درج ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے۔

1995 میں بپھرے ہجوم کی جانب سے پرتشدد خطرات سے عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی نے کمسن مسیحی بچوں کی توہین مذہب کے الزام میں سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل میں سلامت مسیح اور رحمت مسیح کا کامیابی کے ساتھ دفاع کیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر اور ملزمان نے پورے مقدمے کے دوران پر تشدد خطرات کا سامنا کیا تھا۔

ایک موقع پر ان کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ جب انھوں نے عدالت سے جانے کی کوشش کی تو ان کی کارپر پتھروں کی بارش کرکے شدید نقصان پہنچایا گیا۔ اپنے بچوں کی سلامتی کے پیش نظر انھیں بیرون ملک روانہ کردیا تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

اس وقت انھوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا''ان لوگوں نے مجھے ڈرانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی، وہ میرے دو بچوں پر اپنا غصہ نکالنا چاہتے تھے۔ میں نے مجبوراً انھیں ملک سے باہر بھیج دیا۔ بعض اوقات آپ کو اپنے عقائد کی بنا پر ناقابل برداشت قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔''

چار سال بعد، 1999 میں عاصمہ جہانگیر اور ان کی بہن کے لاہور دفاتر میں ایک گن مین گھس آیا اور سمیعہ عمران کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ مقتولہ گھریلو تشدد کا شکار تھی اور اپنے شوہر سے طلاق لینے کے سلسلے میں مدد حاصل کرنے آئی تھی، ایک گولی حنا جیلانی کے پاس سے گزر گئی تھی۔

عالمی شہرت یافتہ معیشت دان اور فلاسفر امرتا سین جنھیں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا ہے۔ عاصمہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔''دنیا میں انسانی حقوق کی انتہائی ممتاز وکیل عاصمہ نے اپنے قانون کے علم کو خطرے سے دوچار لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے اور عوامی حقوق کو ناقابل تصور طور پر تقویت دہی کے لیے استعمال کیا تھا۔مجھے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ تقریباً دو دہائیوں تک عاصمہ میری قریبی دوست رہی تھی۔

عاصمہ سے میری ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب ہم دونوں اس مشترکہ ہندو پاک تنظیم کے رکن تھے جو دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہتی تھی۔ (عاصمہ گروپ کی شریک چیئرپرسن تھی جب کہ ہندوستان کی جانب سے سابق وزیر اعظم آئی کے گجرال تھے۔) میں نے عاصمہ سے اس بارے میں بہت زیادہ سیکھا کہ انتہائی پیچیدہ صورت حال میں اپنی ترجیحات اور فرائض کے بارے میں کس انداز سے سوچنا چاہیے۔حالانکہ عاصمہ ہم سے جدا ہوچکی ہے، ہم اس کی بلند مرتبت شخصیت کے سائے میں مزے لے رہے ہیں، بلکہ اس کے دیے گئے سبق سے رہنمائی لیتے رہیں گے۔

انسانیت کی پری بے شک رخصت ہوگئی ہو، لیکن ہم نے اس سے جو اعلیٰ تخیل اور ذہن رسا تعلیم پائی ہے وہ برقرار رہے گی۔ اس المناک موقع پر اس خیال سے سکون ملتا ہے۔ ہم اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ ہم اتنی کامل شخصیت کے واقف کار تھے۔''


آئی اے رحمان نے عاصمہ جہانگیر کو ان الفاظ میں یاد کیا ہے۔ان کی موت تمام ذرایع ابلاغ میں سب سے بڑی خبر تھی۔ قومی اور عالمی رہنمائوں کی جانب سے وسیع تعداد میں اظہار عقیدت کے پیغامات کا تانتا بندھاہے۔ ملک بھر کے لاکھوں لوگ خواہ بنگلے والے ہوں، یا جھگی نشین، غم سے نڈھال ہیں کیونکہ ان کے حق میں مسلسل اٹھنے والی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوچکی ہے۔ ان کے جنازے میں شریک اکثر لوگوں کا اتفاق تھا کہ کسی بھی پاکستانی کے مقابلے میں انھوں نے بہت زیادہ دلوں کو متاثر کیا تھا۔

گوکہ صنفی انصاف قائم کرنا ان کا اولین نصب العین تھا۔ تاہم پریشانی میں مبتلا مردوں کی حمایت سے وہ کبھی پیچھے نہیں رہیں۔ گلگت، بلتستان کے عوامی ہیرو، بابا جان اور اوکاڑہ کے کسان رہنما، مہر ستار کے لیے مقدمہ لڑا تھا۔ جو دونوں قانون کے بے جا استعمال کے شکار ہوئے تھے۔ انھوں نے پنجاب کے اینٹوں کے بھٹوں اور سندھ کی زراعت میں جبری کام کرنے والوں کے لیے لڑائی کی اور انھوں نے 2007 سے اپنی موت تک ''گمشدہ افراد'' کی بازیابی کے لیے اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد بھی کی تھی۔

وقار احمد ملک نے اپنے مضمون میں کیا خوب کہا ہے۔ ''عاصمہ جہانگیر پاکستان کا کیسا خوبصورت صاحب کردار چہرہ ہے جس کی کبھی کسی گروہ سے نسبت نہیں رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سول مارشل لا کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور آئین کے بننے میں اہم قابل ذکر کردار ادا کیا۔ ڈکٹیٹر ضیا الحق کے خلاف ڈٹی رہیں۔ بی بی بے نظیر کی قریبی دوست ہونے کے باوجود مسلسل ان پر تنقید کرتی رہیں۔ نواز شریف کے ہر دور میں ان کو آئینہ دکھایا۔ جنرل مشرف کے مارشل لا کے خلاف سب سے توانا آواز رہیں۔ آصف علی زرداری حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔ عدلیہ کو تو کسی دور میں عاصمہ جہانگیر نے تنقید سے نہیں بخشا۔ فوج کی غلط پالیسیوں اور دخل اندازیوں پر چیختی رہیں۔ طالبان کی مسلسل دھمکیوں کے باوجود طالبان پر اس وقت کھل کر تنقید کی جب ریاست گومگو کا شکار تھی اور عمران خان طالبان کے دفتر کھولنے کے حامی تھے ۔''

عامر ہزاروی اپنے مضمون میں عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے ایک منفرد پہلو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔''اکیسویں ترمیم پاس ہوئی۔ فوجی عدالتوں سے جن لوگوں کو سزائے موت دی جارہی ہے، عاصمہ جہانگیر بولیں اور کہا، آپ کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ آپ کسی کے بارے میں فیصلہ کریں۔میں عاصمہ جہانگیرکو ایک ایماندار اور جرات مند خاتون سمجھتا ہوں۔ مصائب کے باوجود ملک نہیں چھوڑا۔ جو بات کہی منافقت سے بالاتر ہو کے کہی۔ بعد میں اسے سلامی دینے سے بہتر ہے کہ اس کی خوبیوں کا اعتراف کرلیا جائے۔ کب تک ہم پروپیگنڈے کا شکار ہو کر لوگوں کو بدنام کرتے رہیں گے؟''

ربیعہ باجوہ، عاصمہ جہانگیر کو یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔''میں وہ وقت کبھی نہیں بھول سکتی جب مئی 2005 کے مشرف دور میں خواتین پر تشدد کے خلاف عاصمہ جہانگیر ہی کی قیادت میں خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے میراتھن ریس کا اہتمام کیا۔ اس ریس کو روکنے کی کوشش کی گئی اور عاصمہ پر تشدد کیا گیا۔عاصمہ جہانگیر نے اس ملک کے لیے وہ کام کیا جو کوئی اسکول، کالج یا یونیورسٹی نہ کر سکی اور وہ ہے روشن خیالی کی عوامی بنیاد۔عاصمہ جہانگیر اس ریاست کے احتساب کی علامت تھیں۔''

زنیرہ ثاقب اپنے مضمون میں سوال کرتی ہیں۔اب کون بارہ سال کے بچے کا وکیل بنے گا جس کو ریاست توہین رسالت کے مقدمے میں لٹکانا چاہتی ہے۔ اب کون اس بچی کا والی وارث بنے گا جو ریپ بھی ہوتی ہے اور پھر زنا کے جرم میں سزا بھی کاٹتی ہے۔ اب کون ڈٹ کر کھڑا ہو گا لوگوں کو غائب کرنے والے اداروں کے سامنے، ماورائے عدالت قتل کرنے والے پولیس والوں کے سامنے، اپنے فائدے کے لیے مذہب بیچنے والے مولویوں کے سامنے، اپنی شہرت کے لیے بظاہر عجیب فیصلے کرنے والے ججوں کے سامنے؟ ہے کوئی دوسرا؟ ہے کوئی؟

عاصمہ چلی گئیں ، ان کے اور ہم سب کے بہت سے خواب ابھی تک ادھورے ہیں، ایک دن یہ خواب ضرور پورے ہوں گے۔ مشرف آمریت کے دور میں جب وہ سردار اکبر بگٹی سے ملنے ڈیرہ بگٹی جارہی تھیں تو ان کو اس ملاقات سے روکنے کے لیے ان کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا۔ حملہ آورجب ناکام رہے تو ا ن کے حملہ آوروں سے کہے ہوئے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ:

''آپ کی گولیاں ختم ہو جائیں گی ، میرا سفر ختم نہیںہوگا''۔

ذوالفقار ہالیپوٹہ نے عاصمہ جہانگیر پر تین زبانوں میں شایع ہونے والے مضامین کو یکجاکرکے ایک غیر معمولی کام سرانجام دیا ہے۔ ان کی مرتب کردہ یہ کتاب محققین، سیاست وصحافت سے وابستہ لوگوں اور حقوق انسانی کے لیے جدوجہد کرنے والے سرگرم کارکنوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔ عاصمہ جہانگیر کو خراج تحسین پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی اورنہیں ہوسکتا تھا۔
Load Next Story