لاہور چڑیا گھر اور سفاری پارک کے جانوروں کی منتقلی پر غور شروع
اکتوبر سے نومبر تک کا موسم جانوروں کی منتقلی کے لیے نہایت موضوع تصور کیا جاتا ہے
چڑیا گھر اور سفاری پارک کی اَپ گریڈیشن کے باعث یہاں رکھے گئے جنگلی جانوروں اور پرندوں کی منتقلی پر غور کیا جا رہا ہے۔
لاہور چڑیا گھر کے تمام جانور اور پرندے وائلڈ لائف پارک جلو اور چھانگا مانگا میں منتقل کیے جانے کا امکان جبکہ سفاری پارک کے جانوروں کو پارک کے اندر ہی مختلف حصوں میں منتقل کیا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق جنگلی جانوروں کو بے ہوش کرکے منتقل کرنے سمیت بوما تکنیک بھی استعمال کی جائے گی۔
پنجاب کی نگراں حکومت کی ہدایت پر لاہور چڑیا گھر اور رائے ونڈ روڈ پر واقع وائلڈ لائف سفاری پارک کی اَپ گریڈیشن کا کام آئندہ چند ہفتوں میں شروع ہونے کا امکان ہے۔ دونوں پارکوں کی اَپ گریڈیشن پر پانچ ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی جائے گی۔ تعمیراتی کام شروع کرنے سے قبل لاہور چڑیا گھر انتظامیہ اور سفاری پارک انتظامیہ نے جانوروں اور پرندوں کی محفوظ طریقے سے دوسرے مقامات پر منتقلی بارے مختلف تجاویز تیار کی ہیں۔ اس حوالے سے شفٹنگ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔
لاہور چڑیا گھر کی ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم نے بتایا کہ تعمیراتی کام جلد سے جلد مکمل کرنے کے لئے ایک سے زائد ٹھیکیدار کام شروع کریں گے۔ ایسی صورت حال میں جانوروں کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنا پڑے گا جبکہ وائلڈ لائف سفاری پارک کے ڈپٹی ڈائریکٹر غلام رسول کا کہنا ہے سفاری پارک میں چونکہ کافی کھلی جگہ ہے تو یہاں جس حصے میں کام شروع ہوگا وہاں سے جانوروں اور پرندوں کو دوسرے حصے میں منتقل کیا جائیگا۔
اَپ گریڈیشن پراجیکٹ کے ڈائریکٹرمدثر حسن نے اس حوالے سے لاہور چڑیا گھر اور سفاری پارک کا دورہ کیا اور انتظامیہ سے جانوروں کی منتقلی بارے مختلف تجاویز پر بات چیت کی ہے۔ ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے مدثر حسن نے بتایا کہ لاہور چڑیا گھر کے جانوروں اور پرندوں کو لاہور کے وائلڈ لائف پارک جلو اور چھانگا مانگا پارک میں منتقل کیا جائیگا۔
ماہرین کے مطابق جنگلی جانوروں اور پرندوں کی منتقلی انتہائی مشکل اور مہارت کا کام ہے۔ پوری دنیا میں وائلڈ لائف کے شعبے میں اس شخص کو ماہر تصور کیا جاتا ہے جو بحفاظت جنگلی جانوروں اور پرندوں کی منتقلی کرسکتا ہوں۔
پنجاب وائلڈ لائف کے سینیئر ویٹرنری آفیسر ڈاکٹر رضوان خان نے ایکسپریس نیوز کو بتایا جانوروں کی منتقلی کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جس میں انہیں مکمل بیہوش کرنا، نیم بیہوشی اور بوما تکنیک شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہرنوں کی بعض اقسام انتہائی حساس ہوتی ہیں جن کو اگر زندہ پکڑنے کی کوشش کی جائے تو ان کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کو مکمل بہیوش یا نیم بیہوش کیا جاتا ہے۔ شیر، ٹائیگر اور اس انواع کے دیگر جانوروں میں سے بعض کو بیہوش کرنا پڑے گا جبکہ بعض کے پنجروں کے دروازے کے ساتھ دوسرا پنجرا لگا کر شیر کو ڈرا کر اس میں منتقل کرکے منتقل کیا جائیگا۔ زرافہ، گینڈا، دریائی گھوڑا ان کے لیے اسپیشل بکس تیار کروائے جاتے ہیں اور ان جانوروں کو ان بکسز میں داخل ہونے کی تربیت دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر رضوان خان نے بتایا کہ بوما تکنیک جانوروں کو پکڑنے اورانہیں ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا ایک محفوظ طریقہ کار ہے جو اس سے پہلے بہاولپور اور چولستان میں ہرنوں کی منتقلی کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے۔ جانوروں کو بہیوش کرنے کے لیے ہر جانور کو اس کی صحت اور عمر کے مطابق الگ الگ قسم کی بیہوشی کی دوا الگ الگ ڈوز میں دینا پڑتی ہے، ذرا سی بے احتیاطی سے جانور کی جان جا سکتی ہے، اسی طرح پھر بعض جانوروں کو ہوش میں لانے کے لئے اینٹی ڈوز دینا پڑتی ہے۔ اس کے لئے ڈاٹ گن کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور مینیول طریقے سے بھی جانور کو پکڑ کر انجیکشن لگایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اکتوبر سے نومبر تک کا موسم جانوروں کی منتقلی کے لیے نہایت موضوع تصور کیا جاتا ہے۔