بیگم رضی حمید کمالی
بہ طور طالب علم راہ نما، استاد، ماہرتعلیم اور سماجی راہ نما تاعمر قوم کی خدمت میں مصروف رہنے والی عظیم شخصیت
'ماں' کی چھاؤں سے دور ہوکر زندہ تو ہیں مگر بہت بے قرار، آپ کی یادیں اور محبت ہماری زندگی کا انمول سرمایہ حیات، آپ کی نصیحتیں زندگی کے لیے مشعل راہ اور آپ کی دعائیں دکھوں کی دھوپ میں سایہ فگن ہیں۔ موت کی بے رحم نیند نے آپ کو ہم سے جدا تو کردیا لیکن آپ کی شفقت اور محبت ہمارے دلوں میں ابد تک زندہ وجاوداں رہے گی۔ یہ ذکر ہے میری والدہ اور پاکستان میں تعلیم اور سماجی شعور کے فروغ کے لیے تاحیات مصروفِ عمل رہنے والی بیگم رضی حمید کمالی کا۔
بیگم آر ایچ کمالی ملک کی نام ور ماہرتعلیم، اسکالر، محقق تھیں۔ آپ ایک باضمیر، فرض شناس اور درد مند سماجی ہستی تھیں۔ بیگم کمالی نے ملک میں تعلیم کے فروغ اور ترقی کے لیے بے بہا خدمات انجام دیں۔ آپ انتہائی خوش اخلاق، نیک سیرت، پُرجوش، ہمہ گیر شخصیت کی مالک، تحریک پسند خاتون تھیں۔ وہ پاکستان کے تعلیمی مسائل پر نہ صرف گہری نظر رکھتی تھیں بلکہ انہوں نے ان کے حل کے لیے قابلِ عمل تجاویز بھی ہمیشہ پیش کیں۔
آپ نے ابتدائی تعلیم گوشہ محل اسکول، حیدر آباد دکن سے حاصل کی، وہیں سے سیکنڈری تعلیم بھی مکمل کی، جب کہ انٹر ویمنز کالج کراچی سے کیا۔ جب آپ انٹر میں تھیں طلبہ کی سب سے بڑی اور فعال انجمن ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کی پُرجوش کارکن اور نمائندہ بن گئیں۔ اُنہوں نے طالبات کی بیداری کے لیے بہت کام کیا۔ بعدازآں ڈی ایس ایف کا نام تبدیل کرکے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) رکھ دیا گیا جس نے ساٹھ کی دہائی میں ملکی سیاست پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ کچھ عرصے کے بعد این ایس ایف کے تحت گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کی بنیاد پڑی، جس کی رضی سیکریٹری جنرل تھیں۔ کانگریس نے طلباء کی بھلائی اور مسائل کے حل کے لیے بڑے بڑے معرکے سر کیے۔
یہ طالبات کی سب سے بڑی تنظیم تھی، اس کا پہلا سیشن خالق دینا ہال میں محترمہ عطیہ فیضی کی صدارت میں ہوا جس کا اخبارات میں خوب چرچا ہوا۔ کانگریس نے لینڈنگ لائبریریز وسیع پیمانے پر قائم کیں، جس سے غریب طالب علموں کو بہت فائدہ پہنچا۔ فلاحی خدمت کے جذبے سے سرشار رضی اور ان کے رفقاء نے مل کر رضویہ اسکول کے قیام کا بیڑا اٹھایا اور فوری طور پر وہاں نویں اور دسویں کلاسز کا کوچنگ سینٹر قائم کیا گیا اور شام میں باقاعدہ کلاسیں لینی شروع کیں۔ پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ اعلیٰ معیار کا اسکول بن گیا۔
شروع میں صبح پرائمری اسکول کے لیے کچھ تنخواہ دار ٹیچروں کو رکھا گیا، دوپہر کو سیکنڈری اسکول تھا، جہاں پڑھانے کا انتظام رضا کارانہ بنیاد پر تھا۔ بیگم رضی کمالی نے دورانِ طالب علمی ۱۹۵۵ء سے ہی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔
اپنے اسکول سے فارغ ہو کر وہ یہاں ہیڈمسٹریس کے فرائض انجام دیتیں۔ سن ساٹھ میں یہ اسکول بہترین انداز میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا۔ ملازمت کے ساتھ آپ نے اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور سیفیہ گرلز سیکنڈری اسکول سے وابستہ ہوگئیں۔ ۱۹۷۲ء میں جب اسکول نیشنلائیزڈ ہوئے تو رضویہ اسکول ایک معتبر سیکنڈری اسکول کے طور پر قومیا لیا گیا۔
آپ اور آپ کے کئی رفقاء نے اساتذہ کی تنظیم 'کراچی ٹیچرز یونین' ۱۹۶۰ء کے وسط میں قائم کی جس کی رکنیت پرائمری سے یونیورسٹی اساتذہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں نے ''کراچی کے پرائیویٹ اسکولوں پر ایک طائرانہ نظر'' کے عنوان سے رپورٹ مرتب کی اور اس تنظیم کی طرف سے ۷۱۔۱۹۷۰ء میں ارباب اقتدار کو بھجوائی۔ اس رپورٹ نے تعلیم کی نیشنلائزیشن میں جو بعد میں ۱۹۷۲ء میں ہوئی خاصا کردار ادا کیا۔
۱۲ جنوری ۱۹۶۴ء کو برصغیر کے نام ور ماہرتعلیم، ریاضی داں پروفیسر اللہ بخش کمالی صاحب کے بڑے صاحب زادے اور عالمی شہرت یافتہ فلسفی پروفیسر عبدالحمید کمالی سے آپ کا عقد ہوا۔ اس وقت تک محترمہ رضی سیفیہ گرلز سیکنڈری اسکول میں نائب پرنسپل ہوگئی تھیں۔۱۹۷۵ء میں بطور صدر مدرس میریڈین گورنمنٹ گرلز سیکینڈری اسکول آپ کو ترقی دی گئی اور اس ادارے کی تنظیم نو کے لیے آپ نے فلاحی پروگرام اور مینا بازار وغیرہ منعقد کیے ۔
یہ اسکول آج بھی آپ کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۱۹۹۵ء میں صدر مدرس کی حیثیت سے اسی اسکول سے آپ ریٹائر ہوئیں۔ اسی عرصے میں نظامت تعلیمات کے اندر کام کرنے کی متعدد بار پیش کش ہوئی مگر آپ نے میریڈین اسکول میں رہنا پسند کیا۔ صدر مدرس ہونے کے باوجود آپ کلاسز بھی لیتی تھیں غریب بچوں کی کفالت بھی کرتیں تھیں۔ غرض اسکول کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے کے لیے آپ نے بہت کچھ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی اعلیٰ خدمات کی وجہ سے محکمۂ تعلیم نے آپ کی مدت ملازمت میں مئی ۱۹۹۴ء سے ایک سال کی توسیع بھی کی۔
آپ نے بہت سی قومی اور بین الاقوامی تعلیمی یا علمی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور نہایت عالمانہ مقالات 'تعلیم' کے موضوع پر پیش کیے اور تجاویز بھی پیش کیں، جن میں تعلیم کے سلسلے میں قومی کانفرنس، اسلام آباد ۱۹۸۰ء اور ۱۹۸۱ء کی بین الاقوامی ہجرہ علماء کانفرنس وغیرہ بھی شامل ہیں۔ دسمبر ۱۹۹۴ء میں ارتقاء کراچی کی قومی ایجوکیشن کانفرنس میں تعلیمی اصلاحات کے موضوع پر بہت مفید تجاویز بھی پیش کیں۔
آپ نے سماجی بہبود کے بہت سے سلسلوں کی داغ بیل ڈالی۔ آپ کراچی ریجن ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور تعلیمی بورڈز کی متعدد کمیٹیوں، نصابی اور غیرنصابی کمیٹیوں وغیرہ کی رکن اور سربراہ بھی رہیں۔ آپ بہترین منتظم تھیں۔ انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں۔ کیا۔ الیکشن کے زمانے میں آپ پریزائڈنگ آفیسر تعینات ہوتیں اور کسی قسم کی دھاندلی نہ ہونے دیں۔ امتحانات کے زمانے میں آپ Centresupretendentْ/ centre inspector کے عہدوں پر فائز ہوتیں اور کسی قسم کی نقل نہ ہونے دیتیں۔ آپ نے ہر قسم کے حالات کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔
۱۹۷۲ء میں تعلیمی اداروں کو قومیائے جانے کے متعلق بننے والی فعال تنظیم 'کراچی کے نیشنلائزڈ اسکولوں کے اساتذہ'' کی ایکشن کمیٹی کی آپ چیئرپرسن رہیں۔ ۱۹۷۵ء میں صدر مدرسین کی انجمن میں شامل ہوئیں۔ آپ نے انجمن صدر مدرسین کی طرف سے نہم ودہم کے prelims امتحانات منعقد کروائے۔ صدر مدرسہ بننے کے بعد آپ نیشنلائزڈ ہیڈز ایسوسی ایشن کی صدر/سیکریٹری /خزانچی کے عہدوں پر بھی فائز ہوتی رہیں۔
ملازمت سے سبک دوشی کے بعد ریٹائرڈ صدر مدرسین ایسوسی ایشن سے وابستہ ہوگئیں اور علّم دوستی پھیلانے کا یہ سفر آپ کی رحلّت کے ساتھ ختم ہوا۔ آپHead Examiner،Head Checker، Moderator کے عہدوں پر تقریباً ہر سال فائز ہوتیں۔ آپ سندھ ٹیچرز فاؤنڈیشن کے تحت مرتب ہونے والی نہم و دہم کی علم کیمیا کی عملی کتابوں کے منصفین کے پینل میں بھی تھیں۔ آپ اساتذہ اور طالبِ علّموں کے حقوق کی علم بردار سمجھی جاتیں۔
آپ کے لیے ماہرِتعلیم پروفیسر انیتاغلام علی فرماتی ہیں،''بہت ہی زبردست، محنتی رکن طالب علموں کے حقوق کی تحریکوں کی، رضی ان لوگوں میں سے تھیں جنہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا جاسکتا جو بالکل بھی خودغرض نہیں تھیں، بے تکان کام کرتیں وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو ایک حب الوطن شہری کی طرح انجام دیتیں اور ایک فرض شناس ماں کی طرح بھی اپنے فرائض کو پورا کرتیں۔'' سابق چیئرمین انڑبورڈ پروفیسرانواراحمد زئی لکھتے ہیں،''بیگم رضی کمالی نے ملک میں تعلیم کے فروغ اور ترقی کی لیے بے بہا خدمات انجام دی ہیں۔
وہ پاکستان کے تعلیمی مسائل پر بڑی گہری نظر رکھتی تھیں۔ انہیں نہ صرف تعلیمی مسائل کا ادراک تھا بلکہ ان کے حل کے لیے بھی انہوں نے ہمیشہ قابلِ عمل تجاویز پیش کیں۔ بیگم رضی کمالی نے اپنا سفر اسٹوڈنٹ یونین سے شروع کیا۔ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کی پہلی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے انہوں نے طالبات کے تعلیمی مسائل کے حل اور ان میں سیاسی، سماجی اور تنظیمی شعور بیدار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
بطور استاد بھی ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع رہا اور تعلیمی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ رضی کمالی صاحبہ نے کراچی ٹیچرزیونین کے پلیٹ فارم سے اساتذہ کے مسائل کے حل کے لیے بھی بہت قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ بیگم رضی کمالی بہت ہی مہذب، شائستہ، ایمان دار، محنتی، نرم گفتار، تحمل مزاج اور بذلہ سنج خاتون تھیں۔ وہ ایک انتہائی بااصول اور اپنے کام سے کمٹ منٹ رکھنے والی خاتون تھیں۔''
پروفیسر ڈاکڑعقیلہ اسلام لکھتی ہیں،''رضی نہ صرف ایک بہترین استاد اور اس کے بعد بے حد منتظم پرنسپل تھیں بلکہ انجمن اساتذہ کی سرگرم صدر اور نصاب کی تیاری کے سلسلے میں ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔'' معروف کالم نگارافسانہ نگارانوراحسن صدیقی لکھتے ہیںکہ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس، پاکستان بھر میں طالبات کی وہ پہلی تنظیم تھی جس نے طالبات میں مسائل کے شعور کو اجاگر کرنے کا کام کیا اس تنظیم کی سیکرٹری جنرل رضی کمالی منتخب کی گئیں جو اس وقت رضی غفور تھیں اور برسہا برس تک کراچی کے تعلیمی اور سماجی حلقوں میں رضی غفور کے نام سے ہی جانی جاتی رہیں۔
رضی کو ان کی سنجیدہ طبیعت، طالبات کے کاز سے بے لوث وابستگی، نرم مزاجی اور معاملہ فہمی کے باعث اس قابلِ قدر منصب کا مستحق سمجھا گیا۔ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کی پہلی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے رضی نے اس تنظیم کو فعال اور بااثر بنانے میں اور اس کے دائرے کو کراچی کے زیادہ سے زیادہ تعلیمی اداروں تک پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تعاون کے ساتھ کام کرتی تھی جو کہ اپنے دور میں طلباء کی سب سے بڑی، متحرک اور فعال تنظیم تھی۔
۱۹۵۶ء میں جب برطانیہ اور فرانس نے مصر کی جانب سے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لیے جانے کے خلاف، اسرائیل کو آگے بڑھاکر مصر پر حملہ کردیا تو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان اور بالخصوص کراچی کے عوام نے بھی زبردست احتجاج کیا تھا۔ کراچی میں احتجاجی تحریک کا ہراوّل دستہ کراچی کے طلباء تھے۔ کراچی کے طلباء نے این ایس ایف کی سرکردگی میں وزیراعظم ہاؤس کے سامنے ایک زبردست مظاہرہ کیا اور ابھی یہ مظاہرہ جاری تھا کہ ایک اور بہت بڑا جلوس آکر اس میں شامل ہوگیا۔ یہ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کی جانب سے نکالا جانے والا طالبات کا جلوس تھا جس کی قیادت کرنے والیوں میں 'رضی' پیش پیش تھیں۔ رضی کمالی نے اپنی تمام تر زندگی تعلیمی شعبے کے لیے کام کرتے ہوئے گزاری۔ ۱۹۷۲ء میں تمام اسکولوں کو نیشنلائزکردیا گیا جس کے نتیجے میں اساتذہ کے لیے بہت سے نئے مسائل پیدا ہوئے۔ رضی کمالی نے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کراچی ٹیچرز یونین قائم کی جس میں اسکولوں سے لے کر یونیورسٹی کے اساتذہ شامل تھے۔ اس یونین نے اساتذہ کے مسائل کے حل کے سلسلے میں گراںقدر خدمات انجام دیں۔ رضی ناقابلِ شکست کمٹ منٹ کے ساتھ ساتھ تہذیب وشائستگی کا بھی مثالی نمونہ تھیں۔''
رضی کمالی ایک بلند پایہ معلّمہ ہی نہیں بلکہ حق شناس، ملنسار اور منصف مزاج پرنسپل بھی تھیں۔ وہ ہردل عزیز شخصیت تھیں بڑی محنت، جانفشانی اور بڑی لگن سے اپنے کام میں سرگرمِ عمل رہتیں۔ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے ٹیچرز کی صلاحیتوں کو ابھارتیں اور طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتیں۔ تعلیم کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں اور مشاغل کے علاوہ اعلٰی معیار کو قائم رکھنے کے لیے بہت انہماک، لگن اور دل چسپی سے کام کرتیں۔ آپ کے منہ سے کسی کام کے لیے کبھی انکار کا لفظ نہیں سنا گیا۔ چاہے ان کے پاس پہلے سے کاموں کا انبار کیوں نہ ہو۔ شائستہ زیدی صاحبہ تحریر فرماتی ہیں،''رضی کی شخصیت بڑی منفرد تھی۔
نہ کسی عہدے کی پرواہ نہ اس بات سے مطلب کہ ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے بس ایک جذبہ بے اختیار انسانوں کی خدمت کا، جس میں کبھی تھکن پیدا نہیں ہوتی تھی۔ مختلف لوگوں سے رابطے کے لیے طالبات کو منظم کرنے کے لیے ایک کالج سے دوسرے کالج ایک اسکول سے دوسرے اسکول، اخباروں سے رابطہ رکھنا، یہ سب کراچی جیسے بڑے شہر میں بڑے جان لیوا کام ہیں، لیکن ہماری رضی ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے میلوں پیدل چلنے کے بعد بھی تھکن کی شکایت نہیں کی، کیوںکہ ان کے حوصلے اور ارادے کبھی نہیں تھکے۔
رضی نے اپنی سرگرمیوں کو گرلز کانگریس تک ہی محددود نہ رکھا بلکہ جہاں کہیں بھی کوئی ایسا کام ہورہا ہو جس میں شہر کے پس ماندہ طبقوں کی بھلائی ہو تو ہماری یہ خدائی خدمت گار اس کام میں اپنی توانائیوں سے بڑھ کر رضاکارانہ تعاون کرتی۔ ہماری رضی نہ کبھی خوف زدہ ہوتیں نہ ان کے چہرے پر کبھی ناگواری دیکھی گئی۔
وہ جب کسی بات پر قائل ہوجاتیں یا جب انہیں یقین ہوجاتا کہ یہ کام صحیح ہے اور وقت کی ضرورت ہے تو پھر انہیں کسی بات پر کوئی تلخی محسوس نہ ہوتی۔ رضی کو جو خدا نے انسانی محبت کا اور دوسروں کی خدمت کا جذبہ عطا کیا تھا وہ ہر شعبۂ زندگی میں کارفرما رہا۔ وہ نہ کبھی دولت کے پیچھے دوڑیں نہ شہرت کے پیچھے، نہ ہی اپنی محنتوں کا کوئی صلہ یا اعتراف کسی سے چاہا۔ ایک بے لوث محبت کرنے والی شخصیت جس نے ساری زندگی لوگوں کو خوشیاں بانٹنے میں صرف کی۔''
محترمہ حسینہ معین صاحبہ تحریر فرماتی ہیں،'میں نے رضی کو ہمیشہ ہنستے بولتے قہقہے لگاتے یادھواں دھار تقریریں کرتے دیکھا ہے۔ رضی کمالی اور ان کی ساتھی لڑکیاں بہت دوراندیش تھیں وہ کھلی آنکھوں سے آنے والے سالوں کی کہانی پڑھ رہی تھیں۔
انہیں معلوم تھا کہ آج اگر بنیاد مضبوط نہ کی گئی تو قوم و ملک کی عمارت میں دراڑیں پڑنے لگیں گی۔ یہ تو رضی کمالی کا ایک رنگ تھا، بہت مثبت اور بہت ٹھوس رنگ جو انسان اپنی زندگی سے کچھ لمحے بچاکر ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنے کا سوچے وہ عظیم ہوتا ہے۔ کاش ان جیسے بہت سے لوگ ہوتے تو آج ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ قوموں میں ہوتا۔''
بیگم رضی کی سرگرمیوں کی بہت سی شکلیں رہیں لیکن منزل ایک تھی جس کے حصول کی خاطر وہ اپنی آخری سانسوں تک جدوجہد کرتی رہیں انسانیت کے شرف اور نوع انسانی کی نجات کی منزل۔ انہوں نے آخری سانس تک اپنے مشن کی تکمیل کے لیے اپنے آپ کو متحرک رکھا۔ نماز کی پابندی اور روزانہ باقاعدگی کے ساتھ کئی کئی گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت کرتیں۔
خود ساری عمر کسی نہ کسی شکل میں خدمت کی لیکن اس قدر خوددار تھیں کہ کسی سے اپنی خدمت لینا گوارا نہیں کیا۔ اور بالآخر ۱۷ فروری ۲۰۰۷ء بروز ہفتہ مختصر علالت کے بعد کراچی میں انتقال کرگئیں۔ وہ ابدی نیند سوچکی ہیں لیکن اپنے پیچھے ایسے کام کر گئیں جو تاقیامت ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں اور یادوں کا ایک ایسا سلسلہ چھوڑ گئیں جس سے ایک عہد کی تاریخ مرتب کی جاسکے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
لنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
بیگم آر ایچ کمالی ملک کی نام ور ماہرتعلیم، اسکالر، محقق تھیں۔ آپ ایک باضمیر، فرض شناس اور درد مند سماجی ہستی تھیں۔ بیگم کمالی نے ملک میں تعلیم کے فروغ اور ترقی کے لیے بے بہا خدمات انجام دیں۔ آپ انتہائی خوش اخلاق، نیک سیرت، پُرجوش، ہمہ گیر شخصیت کی مالک، تحریک پسند خاتون تھیں۔ وہ پاکستان کے تعلیمی مسائل پر نہ صرف گہری نظر رکھتی تھیں بلکہ انہوں نے ان کے حل کے لیے قابلِ عمل تجاویز بھی ہمیشہ پیش کیں۔
آپ نے ابتدائی تعلیم گوشہ محل اسکول، حیدر آباد دکن سے حاصل کی، وہیں سے سیکنڈری تعلیم بھی مکمل کی، جب کہ انٹر ویمنز کالج کراچی سے کیا۔ جب آپ انٹر میں تھیں طلبہ کی سب سے بڑی اور فعال انجمن ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کی پُرجوش کارکن اور نمائندہ بن گئیں۔ اُنہوں نے طالبات کی بیداری کے لیے بہت کام کیا۔ بعدازآں ڈی ایس ایف کا نام تبدیل کرکے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) رکھ دیا گیا جس نے ساٹھ کی دہائی میں ملکی سیاست پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ کچھ عرصے کے بعد این ایس ایف کے تحت گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کی بنیاد پڑی، جس کی رضی سیکریٹری جنرل تھیں۔ کانگریس نے طلباء کی بھلائی اور مسائل کے حل کے لیے بڑے بڑے معرکے سر کیے۔
یہ طالبات کی سب سے بڑی تنظیم تھی، اس کا پہلا سیشن خالق دینا ہال میں محترمہ عطیہ فیضی کی صدارت میں ہوا جس کا اخبارات میں خوب چرچا ہوا۔ کانگریس نے لینڈنگ لائبریریز وسیع پیمانے پر قائم کیں، جس سے غریب طالب علموں کو بہت فائدہ پہنچا۔ فلاحی خدمت کے جذبے سے سرشار رضی اور ان کے رفقاء نے مل کر رضویہ اسکول کے قیام کا بیڑا اٹھایا اور فوری طور پر وہاں نویں اور دسویں کلاسز کا کوچنگ سینٹر قائم کیا گیا اور شام میں باقاعدہ کلاسیں لینی شروع کیں۔ پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ اعلیٰ معیار کا اسکول بن گیا۔
شروع میں صبح پرائمری اسکول کے لیے کچھ تنخواہ دار ٹیچروں کو رکھا گیا، دوپہر کو سیکنڈری اسکول تھا، جہاں پڑھانے کا انتظام رضا کارانہ بنیاد پر تھا۔ بیگم رضی کمالی نے دورانِ طالب علمی ۱۹۵۵ء سے ہی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔
اپنے اسکول سے فارغ ہو کر وہ یہاں ہیڈمسٹریس کے فرائض انجام دیتیں۔ سن ساٹھ میں یہ اسکول بہترین انداز میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا۔ ملازمت کے ساتھ آپ نے اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور سیفیہ گرلز سیکنڈری اسکول سے وابستہ ہوگئیں۔ ۱۹۷۲ء میں جب اسکول نیشنلائیزڈ ہوئے تو رضویہ اسکول ایک معتبر سیکنڈری اسکول کے طور پر قومیا لیا گیا۔
آپ اور آپ کے کئی رفقاء نے اساتذہ کی تنظیم 'کراچی ٹیچرز یونین' ۱۹۶۰ء کے وسط میں قائم کی جس کی رکنیت پرائمری سے یونیورسٹی اساتذہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں نے ''کراچی کے پرائیویٹ اسکولوں پر ایک طائرانہ نظر'' کے عنوان سے رپورٹ مرتب کی اور اس تنظیم کی طرف سے ۷۱۔۱۹۷۰ء میں ارباب اقتدار کو بھجوائی۔ اس رپورٹ نے تعلیم کی نیشنلائزیشن میں جو بعد میں ۱۹۷۲ء میں ہوئی خاصا کردار ادا کیا۔
۱۲ جنوری ۱۹۶۴ء کو برصغیر کے نام ور ماہرتعلیم، ریاضی داں پروفیسر اللہ بخش کمالی صاحب کے بڑے صاحب زادے اور عالمی شہرت یافتہ فلسفی پروفیسر عبدالحمید کمالی سے آپ کا عقد ہوا۔ اس وقت تک محترمہ رضی سیفیہ گرلز سیکنڈری اسکول میں نائب پرنسپل ہوگئی تھیں۔۱۹۷۵ء میں بطور صدر مدرس میریڈین گورنمنٹ گرلز سیکینڈری اسکول آپ کو ترقی دی گئی اور اس ادارے کی تنظیم نو کے لیے آپ نے فلاحی پروگرام اور مینا بازار وغیرہ منعقد کیے ۔
یہ اسکول آج بھی آپ کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۱۹۹۵ء میں صدر مدرس کی حیثیت سے اسی اسکول سے آپ ریٹائر ہوئیں۔ اسی عرصے میں نظامت تعلیمات کے اندر کام کرنے کی متعدد بار پیش کش ہوئی مگر آپ نے میریڈین اسکول میں رہنا پسند کیا۔ صدر مدرس ہونے کے باوجود آپ کلاسز بھی لیتی تھیں غریب بچوں کی کفالت بھی کرتیں تھیں۔ غرض اسکول کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے کے لیے آپ نے بہت کچھ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی اعلیٰ خدمات کی وجہ سے محکمۂ تعلیم نے آپ کی مدت ملازمت میں مئی ۱۹۹۴ء سے ایک سال کی توسیع بھی کی۔
آپ نے بہت سی قومی اور بین الاقوامی تعلیمی یا علمی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی اور نہایت عالمانہ مقالات 'تعلیم' کے موضوع پر پیش کیے اور تجاویز بھی پیش کیں، جن میں تعلیم کے سلسلے میں قومی کانفرنس، اسلام آباد ۱۹۸۰ء اور ۱۹۸۱ء کی بین الاقوامی ہجرہ علماء کانفرنس وغیرہ بھی شامل ہیں۔ دسمبر ۱۹۹۴ء میں ارتقاء کراچی کی قومی ایجوکیشن کانفرنس میں تعلیمی اصلاحات کے موضوع پر بہت مفید تجاویز بھی پیش کیں۔
آپ نے سماجی بہبود کے بہت سے سلسلوں کی داغ بیل ڈالی۔ آپ کراچی ریجن ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور تعلیمی بورڈز کی متعدد کمیٹیوں، نصابی اور غیرنصابی کمیٹیوں وغیرہ کی رکن اور سربراہ بھی رہیں۔ آپ بہترین منتظم تھیں۔ انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں۔ کیا۔ الیکشن کے زمانے میں آپ پریزائڈنگ آفیسر تعینات ہوتیں اور کسی قسم کی دھاندلی نہ ہونے دیں۔ امتحانات کے زمانے میں آپ Centresupretendentْ/ centre inspector کے عہدوں پر فائز ہوتیں اور کسی قسم کی نقل نہ ہونے دیتیں۔ آپ نے ہر قسم کے حالات کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔
۱۹۷۲ء میں تعلیمی اداروں کو قومیائے جانے کے متعلق بننے والی فعال تنظیم 'کراچی کے نیشنلائزڈ اسکولوں کے اساتذہ'' کی ایکشن کمیٹی کی آپ چیئرپرسن رہیں۔ ۱۹۷۵ء میں صدر مدرسین کی انجمن میں شامل ہوئیں۔ آپ نے انجمن صدر مدرسین کی طرف سے نہم ودہم کے prelims امتحانات منعقد کروائے۔ صدر مدرسہ بننے کے بعد آپ نیشنلائزڈ ہیڈز ایسوسی ایشن کی صدر/سیکریٹری /خزانچی کے عہدوں پر بھی فائز ہوتی رہیں۔
ملازمت سے سبک دوشی کے بعد ریٹائرڈ صدر مدرسین ایسوسی ایشن سے وابستہ ہوگئیں اور علّم دوستی پھیلانے کا یہ سفر آپ کی رحلّت کے ساتھ ختم ہوا۔ آپHead Examiner،Head Checker، Moderator کے عہدوں پر تقریباً ہر سال فائز ہوتیں۔ آپ سندھ ٹیچرز فاؤنڈیشن کے تحت مرتب ہونے والی نہم و دہم کی علم کیمیا کی عملی کتابوں کے منصفین کے پینل میں بھی تھیں۔ آپ اساتذہ اور طالبِ علّموں کے حقوق کی علم بردار سمجھی جاتیں۔
آپ کے لیے ماہرِتعلیم پروفیسر انیتاغلام علی فرماتی ہیں،''بہت ہی زبردست، محنتی رکن طالب علموں کے حقوق کی تحریکوں کی، رضی ان لوگوں میں سے تھیں جنہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا جاسکتا جو بالکل بھی خودغرض نہیں تھیں، بے تکان کام کرتیں وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو ایک حب الوطن شہری کی طرح انجام دیتیں اور ایک فرض شناس ماں کی طرح بھی اپنے فرائض کو پورا کرتیں۔'' سابق چیئرمین انڑبورڈ پروفیسرانواراحمد زئی لکھتے ہیں،''بیگم رضی کمالی نے ملک میں تعلیم کے فروغ اور ترقی کی لیے بے بہا خدمات انجام دی ہیں۔
وہ پاکستان کے تعلیمی مسائل پر بڑی گہری نظر رکھتی تھیں۔ انہیں نہ صرف تعلیمی مسائل کا ادراک تھا بلکہ ان کے حل کے لیے بھی انہوں نے ہمیشہ قابلِ عمل تجاویز پیش کیں۔ بیگم رضی کمالی نے اپنا سفر اسٹوڈنٹ یونین سے شروع کیا۔ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کی پہلی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے انہوں نے طالبات کے تعلیمی مسائل کے حل اور ان میں سیاسی، سماجی اور تنظیمی شعور بیدار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
بطور استاد بھی ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع رہا اور تعلیمی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ رضی کمالی صاحبہ نے کراچی ٹیچرزیونین کے پلیٹ فارم سے اساتذہ کے مسائل کے حل کے لیے بھی بہت قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ بیگم رضی کمالی بہت ہی مہذب، شائستہ، ایمان دار، محنتی، نرم گفتار، تحمل مزاج اور بذلہ سنج خاتون تھیں۔ وہ ایک انتہائی بااصول اور اپنے کام سے کمٹ منٹ رکھنے والی خاتون تھیں۔''
پروفیسر ڈاکڑعقیلہ اسلام لکھتی ہیں،''رضی نہ صرف ایک بہترین استاد اور اس کے بعد بے حد منتظم پرنسپل تھیں بلکہ انجمن اساتذہ کی سرگرم صدر اور نصاب کی تیاری کے سلسلے میں ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔'' معروف کالم نگارافسانہ نگارانوراحسن صدیقی لکھتے ہیںکہ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس، پاکستان بھر میں طالبات کی وہ پہلی تنظیم تھی جس نے طالبات میں مسائل کے شعور کو اجاگر کرنے کا کام کیا اس تنظیم کی سیکرٹری جنرل رضی کمالی منتخب کی گئیں جو اس وقت رضی غفور تھیں اور برسہا برس تک کراچی کے تعلیمی اور سماجی حلقوں میں رضی غفور کے نام سے ہی جانی جاتی رہیں۔
رضی کو ان کی سنجیدہ طبیعت، طالبات کے کاز سے بے لوث وابستگی، نرم مزاجی اور معاملہ فہمی کے باعث اس قابلِ قدر منصب کا مستحق سمجھا گیا۔ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کی پہلی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے رضی نے اس تنظیم کو فعال اور بااثر بنانے میں اور اس کے دائرے کو کراچی کے زیادہ سے زیادہ تعلیمی اداروں تک پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تعاون کے ساتھ کام کرتی تھی جو کہ اپنے دور میں طلباء کی سب سے بڑی، متحرک اور فعال تنظیم تھی۔
۱۹۵۶ء میں جب برطانیہ اور فرانس نے مصر کی جانب سے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لیے جانے کے خلاف، اسرائیل کو آگے بڑھاکر مصر پر حملہ کردیا تو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان اور بالخصوص کراچی کے عوام نے بھی زبردست احتجاج کیا تھا۔ کراچی میں احتجاجی تحریک کا ہراوّل دستہ کراچی کے طلباء تھے۔ کراچی کے طلباء نے این ایس ایف کی سرکردگی میں وزیراعظم ہاؤس کے سامنے ایک زبردست مظاہرہ کیا اور ابھی یہ مظاہرہ جاری تھا کہ ایک اور بہت بڑا جلوس آکر اس میں شامل ہوگیا۔ یہ گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس کی جانب سے نکالا جانے والا طالبات کا جلوس تھا جس کی قیادت کرنے والیوں میں 'رضی' پیش پیش تھیں۔ رضی کمالی نے اپنی تمام تر زندگی تعلیمی شعبے کے لیے کام کرتے ہوئے گزاری۔ ۱۹۷۲ء میں تمام اسکولوں کو نیشنلائزکردیا گیا جس کے نتیجے میں اساتذہ کے لیے بہت سے نئے مسائل پیدا ہوئے۔ رضی کمالی نے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کراچی ٹیچرز یونین قائم کی جس میں اسکولوں سے لے کر یونیورسٹی کے اساتذہ شامل تھے۔ اس یونین نے اساتذہ کے مسائل کے حل کے سلسلے میں گراںقدر خدمات انجام دیں۔ رضی ناقابلِ شکست کمٹ منٹ کے ساتھ ساتھ تہذیب وشائستگی کا بھی مثالی نمونہ تھیں۔''
رضی کمالی ایک بلند پایہ معلّمہ ہی نہیں بلکہ حق شناس، ملنسار اور منصف مزاج پرنسپل بھی تھیں۔ وہ ہردل عزیز شخصیت تھیں بڑی محنت، جانفشانی اور بڑی لگن سے اپنے کام میں سرگرمِ عمل رہتیں۔ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے ٹیچرز کی صلاحیتوں کو ابھارتیں اور طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتیں۔ تعلیم کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں اور مشاغل کے علاوہ اعلٰی معیار کو قائم رکھنے کے لیے بہت انہماک، لگن اور دل چسپی سے کام کرتیں۔ آپ کے منہ سے کسی کام کے لیے کبھی انکار کا لفظ نہیں سنا گیا۔ چاہے ان کے پاس پہلے سے کاموں کا انبار کیوں نہ ہو۔ شائستہ زیدی صاحبہ تحریر فرماتی ہیں،''رضی کی شخصیت بڑی منفرد تھی۔
نہ کسی عہدے کی پرواہ نہ اس بات سے مطلب کہ ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے بس ایک جذبہ بے اختیار انسانوں کی خدمت کا، جس میں کبھی تھکن پیدا نہیں ہوتی تھی۔ مختلف لوگوں سے رابطے کے لیے طالبات کو منظم کرنے کے لیے ایک کالج سے دوسرے کالج ایک اسکول سے دوسرے اسکول، اخباروں سے رابطہ رکھنا، یہ سب کراچی جیسے بڑے شہر میں بڑے جان لیوا کام ہیں، لیکن ہماری رضی ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے میلوں پیدل چلنے کے بعد بھی تھکن کی شکایت نہیں کی، کیوںکہ ان کے حوصلے اور ارادے کبھی نہیں تھکے۔
رضی نے اپنی سرگرمیوں کو گرلز کانگریس تک ہی محددود نہ رکھا بلکہ جہاں کہیں بھی کوئی ایسا کام ہورہا ہو جس میں شہر کے پس ماندہ طبقوں کی بھلائی ہو تو ہماری یہ خدائی خدمت گار اس کام میں اپنی توانائیوں سے بڑھ کر رضاکارانہ تعاون کرتی۔ ہماری رضی نہ کبھی خوف زدہ ہوتیں نہ ان کے چہرے پر کبھی ناگواری دیکھی گئی۔
وہ جب کسی بات پر قائل ہوجاتیں یا جب انہیں یقین ہوجاتا کہ یہ کام صحیح ہے اور وقت کی ضرورت ہے تو پھر انہیں کسی بات پر کوئی تلخی محسوس نہ ہوتی۔ رضی کو جو خدا نے انسانی محبت کا اور دوسروں کی خدمت کا جذبہ عطا کیا تھا وہ ہر شعبۂ زندگی میں کارفرما رہا۔ وہ نہ کبھی دولت کے پیچھے دوڑیں نہ شہرت کے پیچھے، نہ ہی اپنی محنتوں کا کوئی صلہ یا اعتراف کسی سے چاہا۔ ایک بے لوث محبت کرنے والی شخصیت جس نے ساری زندگی لوگوں کو خوشیاں بانٹنے میں صرف کی۔''
محترمہ حسینہ معین صاحبہ تحریر فرماتی ہیں،'میں نے رضی کو ہمیشہ ہنستے بولتے قہقہے لگاتے یادھواں دھار تقریریں کرتے دیکھا ہے۔ رضی کمالی اور ان کی ساتھی لڑکیاں بہت دوراندیش تھیں وہ کھلی آنکھوں سے آنے والے سالوں کی کہانی پڑھ رہی تھیں۔
انہیں معلوم تھا کہ آج اگر بنیاد مضبوط نہ کی گئی تو قوم و ملک کی عمارت میں دراڑیں پڑنے لگیں گی۔ یہ تو رضی کمالی کا ایک رنگ تھا، بہت مثبت اور بہت ٹھوس رنگ جو انسان اپنی زندگی سے کچھ لمحے بچاکر ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنے کا سوچے وہ عظیم ہوتا ہے۔ کاش ان جیسے بہت سے لوگ ہوتے تو آج ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ قوموں میں ہوتا۔''
بیگم رضی کی سرگرمیوں کی بہت سی شکلیں رہیں لیکن منزل ایک تھی جس کے حصول کی خاطر وہ اپنی آخری سانسوں تک جدوجہد کرتی رہیں انسانیت کے شرف اور نوع انسانی کی نجات کی منزل۔ انہوں نے آخری سانس تک اپنے مشن کی تکمیل کے لیے اپنے آپ کو متحرک رکھا۔ نماز کی پابندی اور روزانہ باقاعدگی کے ساتھ کئی کئی گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت کرتیں۔
خود ساری عمر کسی نہ کسی شکل میں خدمت کی لیکن اس قدر خوددار تھیں کہ کسی سے اپنی خدمت لینا گوارا نہیں کیا۔ اور بالآخر ۱۷ فروری ۲۰۰۷ء بروز ہفتہ مختصر علالت کے بعد کراچی میں انتقال کرگئیں۔ وہ ابدی نیند سوچکی ہیں لیکن اپنے پیچھے ایسے کام کر گئیں جو تاقیامت ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں اور یادوں کا ایک ایسا سلسلہ چھوڑ گئیں جس سے ایک عہد کی تاریخ مرتب کی جاسکے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
لنے کے نہیں نایاب ہیں ہم