تاج صحرائی
ماہرتعلیم، ادیب، شاعر، محقق اور تاریخ نویس، سندھ کی ایک عظیم شخصیت کا تذکرہ
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کام اور کارناموں کی وجہ سے دائمی احترام کا رتبہ حاصل کر جاتے ہیں۔ ان کی اجتماعی مفادات کی لیے کی گئی کاوشیں برسوں بعد بھی یاد رہتی ہیں۔
سندھ کے ایسے ہی لوگوں میں ایک نام تاج صحرائی کا بھی ہے۔ وہ اپنے نظریات اور عمل میںروشن خیالماہرتعلیم، ادیب، شاعر، محقق، تاریخ نویس، شاہ عبداللطیف بھٹائی کے شارح اور ماہرآثار قدیمہ تھے۔ انہوں نے اپنے علمی، ادبی، تدریسی اور تحقیقی کام کی وجہ سے بیسویں صدی کے سندھ میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی تھی۔
ان کی دیگر خدمات کے ساتھ جو سب سے بڑا کام مانا جاتا ہے وہ ہے سندھ کے شہر دادو میں مخدوم طالب المولٰی ہائی اسکول کا قیام۔ انہوں نے دادو میں اپنے ساتھیوں علی احمد قریشی اور دیگر کے ساتھ مل کر پہلے ایک مڈلاسکول قائم کیا اور بعد میں اس کو میٹرک تک لے گئے۔ اس اسکول کے حوالے سے انہوں نے 18 اکتوبر 2002ع میں اپنی وفات سے قبلایک معروف ادیبناصر پنہور کو ایک انٹرویودیتے ہوئے کہا تھا کہ ''(ہم نے) 1952ع میں ایک مڈل اسکول قائم کیا، جس کو میں 1956ع میں میٹرک تکلے گیا۔
اس وقت مجھے اسکول کی لیبارٹری اور لائبریری کی لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں میں مخدوم طالب المولیٰ کے پاس گیا، کیوںکہ ان سے میرے ادبی مراسم تھے۔انہوں نے مجھے اسکول کے لیے دس ہزار روپے دیے۔ اس رقم سے میں نے اسکول کی لیبارٹری اور لائبریری قائم کی۔''
تاج صحرائی کے بیٹے اور سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب صحرائی نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ان کے والد صاحب نے اسکول کا ایک ہاسٹل بھیقائم کیا تھا، جہاں پر سندھ کے مختلف علاقوں سے بچے آکر رہتے اور تعلیم کی روشنی سے منور ہوتے تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ آج سے 67 برس پہلے دیگر علاقوں کی طرح دادو کا علاقہ بھیسماجی طور پر ترقی یافتہ نہیں تھا، وہاں پر بھی روایتی سوچکا غلبہ تھا، لیکن تاج صحرائی نے نہ صرف اپنے اسکول میں کوایجوکیشن متعارف کروائی بلکہ انہوں نے آرٹ اور میوزک کو بھی بچوں کی تعلیم و تدریس کا حصہ بنایا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ 2023ع میں اس طرحکا فیصلہ سابق حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم و خواندگی کے وزیر سردار علی شاہ نے سندھ کے اسکولوں کے لیے میوزک ٹیچر مقررکرکے کیا۔
ڈاکٹر مجیب صحرائی اپنے والد کے بارے میں مزید کہتے ہیں،''بابا نے اسکول میں سندھ کے کلاسیکل فن کار استاد منظور علی خانسے فن کی تربیت حاصل کرنے والے استاد صالح ساند کومیوزک ٹیچر مقرر کیا تھا۔'' یہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر مجیب صحرائی مزید کہتی ہیں ،''تاج صحرائی نے نہ صرف اپنے بیٹوں بلکہ اپنی بیٹیوں کو بھی تعلیم دلوائی۔ وہ معاشرتی ترقی میں خواتین کے مردوں کے برابر کردار کو اہمیت دیتے تھے۔''
یہ روشن خیال لوگ اپنی ذات کے بجائے اپنی قوم کی ترقی اور اپنی آنے والے نسلوں کی ترقی کے لیے سوچتے اور کام کرتے تھے۔
تاج صحرائی کا وادیٔ سندھ کی تہذیب پر بھی اہم تحقیقی کام ہے جو ان کی کتاب ''سندھو تہذیب''میں محفوظ ہے۔ سندھ کے موجودہ دور کے ایک ممتاز محقق بدر ابڑو اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ، دادو ضلع میں واقعقدیم آثار وں سے،جن میں رنی کوٹ بھی شامل ہے، سب پہلے 1980 عکی دہائیمیں تاج صحرائی صاحب نے انہیں روشناس کرایا تھا۔
تاج صحرائی صاحب کی علمی سرگرمیاں صرف ان کے قائم کردہ اسکول تک محدودنہیں تھیں، بلکہ وہ اپنی زندگی کے بڑے عرصیتک سیوہن میں لال شہباز قلندر کے عرس کے موقع پر منعقدہ انتظامات باالخصوص ادبی کمیٹی کے سیکریٹری ِبھی رہے تھے۔
11 ستمبر 1921عکو شکارپور میں جنم لینے والے تاج صحرائینے1942ع میں میٹرک شکارپور سے کیا۔ شکار پور سے وہ پہلے سیوہن منتقل ہوئے اور بعد میں انہوں نے دادو کو اپنا شہر اور اپنی تمام سرگرمیوں کامرکز بنالیا۔
معروف ادیببشیر سیتائی اپنے ایک مضمون میں تاج صحرائی کی زندگی اور جدوجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں،''وہآزادی کی جدوجہد میں کچھ عرصے تک دہلی کے جیل میں بھی قید رہے تھے۔1948ع میں انہوں نے دادو سے ایک ہفتہ وار اخبار آوازبھی نکالا تھا، جس کے وہ ایڈیٹر تھے۔ اور 1968ع میں علامہ آئی آئی قاضی لائبریری بھی قائم کی تھی۔''
ایک اور ادیبعبدالغفار صدیقی، پروفیسر اعجاز قریشی کی مرتب کردہ کتاب ''تاج صحرائی'' میں لکھتے ہیں کہتاج صحرائی 1945ع سے تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے تھے۔
جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی نیشنلائیزیشن پالیسی کے تحت 1972 میں ملک کی تمام صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا، تو ان اداروں میں طالب المولیٰہائی اسکول دادو بھی شامل تھا۔ سندھ سے دیگر قومیائے گئے تعلیمی اداروں میں سندھ مدرستہ الاسلام، داؤد کالج اور اینڈی یونیورسٹی سرفہرست تھے۔
ڈاکٹر مجیب صحرائیبتاتے ہیں کہ ان کے والدصاحب نے ہی ان کو انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کی لیے ڈی جے سندھ کالج، کراچی بھیجا تھا اور انہوں نے ہاسٹل میں رہائش اختیار کی تھی۔ کراچی سے تعلیمحاصل کرانیکا ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ ایک بڑا شہر ہونے کے ساتھ ایک ملٹی کلچرل شہر بھی ہے، اس لیے بچوں کے لیے اس شہرکا ایکسپوژر بہت ضروری ہے۔ اور یہی دو سال ان کی زندگی کی لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے۔
تاج صحرائی نے سندھ مدرستہ الاسلام سیبھی تعلیم حاصل کی تھی اور سندھ مدرسہ بورڈکے میٹھارام ہاسٹل میں رہے تھے، جہاں پر سندھ کے ممتاز افسانہ نگار جمال ابڑو بھی اپنی طالب علمی کے دور میں ان کے ہاسٹل میٹ تھے۔ اس طالب علمی کے زمانے میں ہی تاج صحرائی نے خاکسار تحریک کے پلیٹ فارم سے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ انہوں 1942میں بنگال میں پڑنے والیقحط میں متاثرین کے لیے سامان جمع کرکے ان تک پہنچایا تھا۔
تاج صحرائیکو کئی اعزازات سے بھی نوازاگیا۔ ان میں سرفہرست حکومت پاکستان کا دیا ہواپرائیڈ آف پرفارمنس ہے، جب کہ رواں سال حکومت سندھ کے محکمۂ تعلیم و خواندگی نے دادو شہر کیگورنمنٹ بوائزہائی اسکول غریب آباد، کو تاج صحرائی سے موسوم کردیا ہے۔ چند سال قبل یہ کوششیں بھی ہوئی تھیں کہ دادو میں تاج صحرائی کے نامپر ایک یونیورسٹی کام کی جائے۔
تاج صحرائی کا سندھ کے ان عظیم لوگوں میں شمار ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی نئی نسل کے مستقبل کے لیے سوچا اور کوئی جائیداد بنانے کے بجائے جدید تعلیمی ادارے بنائے تاکہ نئی نسل روایت پسندی سے ہٹ کر جدید دنیا کے علمکی مدد سے آگے بڑھے۔
اسی طرح تاج صحرائی علمی تحریک چلانے والی شخصیات سندھ مدرستہ الاسلام کراچی کے بانی خان بہادر حسن علی آفندی، نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد کے بانی نور محمد لاکھیر وکیل، نوشہروفیروز اسکول کے بانی سید الھندو شاہ اور ٹنڈو باگو اسکول کے بانی میر غلام محمد ٹالپر کے قافلے کے رکن کہے جاسکتے ہیں۔