کیا صرف قانون سازی سےکم عمر بچیوں کی شادیاں رک سکتی ہیں

لوگ رشتہ داروں کی مدد کیلئے اپنے بچوں کی کم عمری میں شادی کردیتے ہیں جو درحقیقت تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔


نادیہ آغا May 20, 2014
لوگ رشتہ داروں کی مدد کیلئے اپنے بچوں کی کم عمری میں شادی کردیتے ہیں جو درحقیقت تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ فوٹو فائل

سندھ حکومت نے بلآآخر کم عمری کی شادی کے خلاف بل پاس کر ہی لیا جس کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی پر سزا اور جرمانہ لاگو ہوگا۔ اِس بل پر اگر غور کیا جائے تو یہ عورتوں کو مزید بدحال ہونے بچانے کے لیے ایک اچھا راستہ ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بل پرعمل در آمد ہوگا بھی یا پھر اِس کا بھی وہی حال ہوگا جو پاکستان میں پاس ہونے والے اکثر بلوں کا ہوتا ہے یعنی کچھ نہیں ہوتا۔


کسی بھی مسئلے کے خلاف بل کا پاس ہونا اور بل پر عمل در آمد کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان کی تاریخ قانون سازی کے نتیجے میں منظور ہونے والے بلوں سے بھری پڑی ہے۔ چاہے پھر وہ کارو کاری کے خلاف پاس ہونے والا بل ہو یا پھرعورتوں کو ہراساں کرنے کا بل۔ اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب بھی یہ بل پاس ہوئے تو بڑے پیمانے پر خوشیاں منائی گئیں جیسے کے بل پاس ہونا ہی مسئلے کا حل ہو۔


ابھی پچھلے سال کی بات ہے کہ جب میرا 15 سالہ سکینہ سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ میں خیرپور کے ایک گاؤں میں رپورٹ کے سلسلے میں لوگوں کے تفصیلی انٹرویوز لے رہی تھی۔ وہاں میں کم سن سیکنہ کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ حیرانگی کی وجہ بہت سیدھی تھی اور وہ یہ تھی کہ اُس 15 سالہ سیکنہ کی ایک سال پہلے اپنے چچا کے بیٹے سے شادی کر دی گئی تھی. سکینہ اس وقت پریشان تھی کیونکہ اسکی شادی کو ایک سال سے اوپر ہو گیا تھا اور اسکے پاس ابھی تک کوئی خوشخبری نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے اسکی چچی ساس اسے ہر جمعرات کو پیر سائیں کے مزار پرلے جایا کرتی تھی کیونکہ گاؤں میں بسنے والے اکثریت کو یقین تھا کہ پیر سائیں سب کی سنتے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر اس گاؤں میں ایک لیڈی ڈاکٹر اور تھوڑی بہت طبی سہولیات میسر ہوتی تو شاید سکینہ کی ساس اسے پہلے ڈاکٹر کے پاس لیکر جاتی نہ کہ پیر سائیں کے پاس۔


پاکستان کی زیادہ تر آبادی گاؤں میں رہتی ہے اور اس میں سے اکثریت معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ نہ ہی وہاں تعلیم کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی بنیادی صحت کی سہولیات۔ اور اِس ساری صورتحال کے باوجود ریاست اب تک عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی بھی کامیاب پروگرام بنانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ایسی صورت حال میں لوگوں کے لئے سب سے پہلے اپنی بقا لازم ہو جاتی ہے۔ نتیجتاَ ایسی رسومات کو زندگی کا حصہ بنا دیا جاتا ہے جو انسان کے بقا میں اسکی مدد کرتی ہیں۔ جیسے خاندان میں شادی یا پھر وٹے سٹے کی شادی۔ اصل میں ان شادیوں کا مقصد خاندانی رشتوں کو مضبوط کرنا ہے تاکہ ضرورت کے وقت ایک خاندان دوسرے خاندان کے کام آ سکے۔ در حقیقت یہ مدد سب سے پہلے ریاست کی طرف سے آنی چائے مگر بد قسمتی سے غریب لوگوں کو ضرورت کے وقت ریاست کے بجائے رشتے داروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور وہ رشتے دار اسی وقت سہی سے کام آتے ہیں جب رشتہ بہت مضبوط ہو اور یہ رشتے آپس کی شادیوں سے ہی مضبوط ہوتے ہیں۔ اور میری رائے کے مطابق یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ لوگ اپنے رشتہ داروں کی مدد کے لیے اپنے بچوں کی کم عمری میں شادی کردیتے ہیں جو درحقیقت تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔


کہنے کو تو یہ شادیاں کرنے سے دونوں خاندانوں کو کافی فائدہ ہوتا ہے، لڑکی کو جہیز کم دینا پڑتا ہے، لڑکے والے لڑکی والوں کی مدد بھی کرتے ہیں، لڑکا اگر پڑھا لکھا نہ ہو اور کماتا بھی نہ تو بھی کوئی فرق نہی پڑتا کیونکہ خاندان کا جو ہوتا ہے۔ مگر اس سودے بازی میں سب سے زیادہ نقصان عورت کا ہوتا ہے کیونکہ اُس کی جوانی سے پہنچنے سے قبل ہی اس کے ماں باپ شادی کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں کیوں کے ذمہ داری بھی نبھانی ہے اور خاندان کو مضبوط بھی کرنا ہے اسی لئے اکثر گاوں میں ایک لڑکی کی شادی 13 سے 15 سال کی عمر میں کر دی جاتی ہے۔


میرا ذاتی خیال ہے کہ اس سنگین مسئلے کا حل کسی بل کے پاس ہونے سے شاید ممکن نہیں۔ اُس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ گاوں اور دیہات کے لوگوں کو کون یہ بات سمجھائے گا کہ جناب آپ کے خلاف پاکستان کے قانون ساز ادارے میں ایک بل منظور ہوا ہے۔ اور اگر اب آپ نے اپنے بچوں کی کم عمری میں شادی کی تو پھر آپکو سزا ہوسکتی ہے۔ اِس کام کے لیے تو پہلے آپکو اِن علاقوں میں لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر آپ ویسے ہی شعور کو بیدار کردیں تو مسائل ویسے ہی حل ہوجائینگے اور کسی بل کو پاس کروانے کی نوبت نہیں آئےگی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ریاست گاؤں اور دیہات میں مقیم لوگوں کی دادرسی کرنا شروع کردے اور اُن کی بنیادی ضروریات کو پورا کردے تو اس بات کا امکان انتہائی روشن ہوجاتا ہے کہ کم عمری میں شادی جیسے حادثات پھر کبھی پاکستان میں نہ ہوں۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں