اسرائیل اور حق دفاع کا بیانیہ

فی الوقت جن طاقتوں کے ہاتھوں میں دنیا کی باگ ڈور ہے وہ خود اس ظلم اور سفاکی کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں

فی الوقت جن طاقتوں کے ہاتھوں میں دنیا کی باگ ڈور ہے وہ خود اس ظلم اور سفاکی کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

اسرائیل کے غزہ میں فلسطینیوں پر جاری حملوں میں وحشیانہ شدت آگئی ہے، عرب میڈیا رپورٹ کے مطابق غزہ میں 100 جنگی طیارے بمباری کر رہے ہیں، جب کہ ٹینکوں اور توپوں کے ذریعے بھی بمباری کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے ہر طرف تباہی اور آگ لگی نظر آرہی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بد ترین جنگی جرائم کا سلسلہ جاری ہے، فلسطینیوں کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بلند و بالا عمارتیں اسرائیلی حملوں کے بعد منٹوں میں زمین بوس ہو رہی ہیں جن میں موجود کئی معصوم فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔

یہ تو نہتے فلسطینیوں کی فریاد اور آہ و زاریاں ہیں، جن سے یورپی یونین کا کوئی واسطہ نہیں۔ انسانیت کے علمبردار اور انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں کے لیے فلسطینی تو شاید انسان ہی نہیں۔ شاید عالمی ضمیر بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہا ہے اور اسے بے گناہ نہتے فسلطینیوں کا لہو نظر نہیں آ رہا۔

فلسطین پر ہر روز آتش و آہن کا نیا کھیل کھیلا جاتا ہے، معصوم بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین پر زیادتی، قتل و غارت گری کا ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے، گویا آلام و مصائب کی نا ختم ہونے والی شب ظلمت چھائی ہوئی ہے، جب کہ صبح نمودار ہونے اور دن کا اجالا بڑھنے کے باوجود فلسطینی عوام کی زندگیوں میں اندھیرے ہیں کوئی نہ کوئی زندگی کی آخری سانسیں پوری کر رہا ہوتا ہے۔

ہر صبح ان کی زندگیوں میں خوشیوں کے بجائے افسردگی، پژمردگی اور مایوسی کی نوید لے کر آتی ہے۔سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے برسوں سے جاری اسرائیلی مظالم کا غیر متوقع اور سخت رد عمل دینے کے بعد سے اسرائیل کو اہل غزہ پر قیامت برپا کرنے کا بہانہ ہاتھ آیا ہے۔

چنانچہ حماس کے رد عمل کو بنیاد بنا کر وہ اپنے عالمی سرپرستوں کی مکمل تائید اور پشت پناہی سے رات دن، صبح، دوپہر، شام بلا توقف تسلسل کے ساتھ غزہ پر آتش وآہن کی برسات جاری رکھے ہوئے ہے۔

امریکا کا صدر بائیڈن نہ صرف خود تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر غزہ میں جارح اسرائیل کی جانب سے انسانیت کے خلاف جاری بد ترین جرائم کی حمایت کر رہا ہے بلکہ اس نے خصوصی دلچسپی لے کر مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کی تائید میں اپنے اتحادیوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو بھی میدان میں اتار دیا ہے اور امن و انسانیت کے یہ سارے علمبردار مل کر انتہائی سفاکی کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر کورس میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کے '' حق دفاع '' کا گیت گا رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیسا دفاع ہے جس کی مار بے گناہ، نہتے اور غیر متحارب عام شہری اور ان کے معصوم بچے سہہ رہے ہیں، کیا اسپتالوں میں انکیوبیٹر میں سانس لینے والے نوزائیدہ فلسطینی بچوں کا نہایت بے رحمانہ قتل بھی اسرائیل کا حق دفاع ہے؟

کیا اسرائیل اور اس کے انسانیت سے عاری سرپرستوں نے ہر فلسطینی بچے کو دہشت گرد اور حملہ آور ڈیکلیئرکردیا ہے؟ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کا جھوٹا، منافقانہ اور انسانیت سے عاری بیانیہ اس قدر بوگس ہے کہ آخرکار اقوام متحدہ جیسے بے حس ادارے کے سربراہ کو بھی چیخ کر بتانا پڑا ہے کہ اسرائیلی کارروائیاں عالمی قوانین کے منافی ہیں۔

اگرچہ یہ تلخ حقیقت بیان کرنے کے بعد اسرائیل نے بے چارے گوتریس کو اپنی بات واپس لینے پر مجبور کردیا ہے۔ حق دفاع کے نام پر اسرائیل کو اہل غزہ کی نسل کشی کا سرٹیفکیٹ دینا بد ترین انسانیت دشمنی اور فلسطینی بچوں کے قتل عام کی سند دینا ہے۔

نیتن یاہو اس وقت جن شدت پسند دائیں بازو والی سیاسی طاقتوں کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں وہ فلسطینی علاقوں کو فلسطینی باشندوں سے خالی کروا کے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کرنے پر مصر ہیں۔


2018 میں نیتن یاہو نے پارلیمنٹ میں ایک قانون پاس کروا کے اسرائیل کو صرف یہودی باشندوں کی قومی ریاست میں تبدیل کر دیا جہاں کسی غیر یہودی کو حق خود ارادیت حاصل نہیں ہوگا اور یہودی آباد کاروں کے لیے نئی بستیاں تعمیر کرنا ریاست کا قومی فریضہ بنا دیا گیا۔ مطلب یہ کہ فلسطینی زمین ضبط کرنے کا لائسنس حاصل کر لیا گیا ہے۔

امریکا نے اوسلو معاہدے کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سابق صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ امریکا دیانت دار ثالث نہیں بلکہ صہیونیوں کا طرفدار ہے۔کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اوسلو معاہدے کے دوران مرکزی مسائل کو مستقبل میں طے کرنے کی اسرائیلی تجویز کو منظور کر کے فلسطینی قیادت نے بھاری بھول کی۔

اسرائیل کی سرحدوں، فلسطینی رفیوجیوں اور یروشلم کو مجوزہ فلسطینی ریاست کے دارالحکومت بنانے کے فیصلوں کو آخری مرحلے کے مذاکرات تک موخر کر دینے کی رابن کی تجویز کو عرفات کو مسترد کر دینا چاہیے تھا۔اب اس دلیل میں وزن نہیں ہے کہ فلسطینی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو تسلیم کرچکی ہے لیکن اسرائیل نے فلسطینی ریاست کا حق دینے سے انکار کیا ہے۔

دریں حالات حماس نے اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رکھی ہے لیکن کیا ایک چھوٹے سے گروہ کو جسے اسرائیل، امریکا اور بعض دوسرے ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں، فلسطینیوں کا نمایندہ مان کر فلسطینی آبادیوں پر قہر نازل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا اسرائیل اور اس کے دوست کبھی اس پہلو پر بھی غورکریں گے کہ حماس نے اگر اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے تو اس نے غزہ کے 24 لاکھ فلسطینیوں کو بھی اپنی دہشت گردی کے زور پر یرغمال بنا رکھا ہے۔

اسرائیل اگر ہٹ دھرمی چھوڑ دے تو مشرق وسطیٰ میں امن دور نہیں ہے۔ اسے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ کیے گئے خود مختار فلسطین کے قیام کا مطالبہ پورا کرنا چاہیے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنگی جرائم کی عالمی عدالت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جنگی جرائم کو روکنے اور مجرم اسرائیل کو کٹہرے میں لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

اس وقت اسرائیل کا جوابی حملہ جاری ہے، لیکن کیا محض غزہ پر قبضہ کرنے سے اسرائیل کا انتقام پورا ہو جاتا ہے، اس کی انا کی تسکین ہوجاتی ہے اور مقامی سیاست کی ضروریات بھی پوری ہوجاتی ہیں؟ ایسا کرتے ہوئے حماس کے ساتھ فلسطینی عوام کا خواہ کتنا ہی بڑا قتل عام کیوں نہ ہو جائے، وہ اسرائیل کے لیے کوئی بڑا مدعا نہیں ہوگا، لیکن اس کا ردعمل عرب دنیا میں ضرور ہوگا۔ اس کا ردعمل انھیں متحرک کر دے گا اور یہ تحریک اب امریکی سرپرستی میں نہیں رہے گی۔

حماس کے حملے کا یہی مقصد ہے اور اس میں فلسطین کا کوئی مفاد پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ بدقسمتی سے ماضی میں عالمی طاقتیں فلسطینیوں پر اسرائیلی قبضے اور ظلم و ستم کو دوام اور حمایت مہیا کرتی رہی ہیں۔ سابق ٹرمپ انتظامیہ نے تو حد کردی۔ اس نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا، فلسطینی رقبے پر یہودیوں کی مزید بستیاں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔

امریکا سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا استعمال کر کے اسرائیل کو کئی بار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی، فلسطینیوں کے خلاف تشدد، ان کی زمینیں ہتھیانے، ان کے مکانات منہدم کرنے، انھیں بے دخل کرنے اور یہودیوں کی غیرقانونی آبادکاری پر مذمتی قراردادوں، پابندیوں اور سزا سے بھی بچاتا آیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذرایع نے اعلان کیا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقے میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ غزہ مکمل طور پر مسلسل بمباری کی زد میں ہے۔ انسانیت سسک رہی ہے، اسپتال تباہ ہوچکے ہیں۔ شہریوں کے لیے انسانی زندگی کے ہولناک المیے رونما ہو رہے ہیں۔ اسپتالوں میں زخمیوں کی بڑی تعداد ادویات اور میڈیکل آلات ختم ہوگئے ہیں۔

اسرائیل نے پانی اور بجلی کا نظام منقطع کردیا ہے اور خوراک کی قلت ہولناک صورت حال اختیار کر گئی ہے۔ اسرائیل تمام عالمی قوانین اور عالمی انسانی حقوق چارٹر کی پامالی کے جرائم کا ارتکاب کررہا ہے، جنگی جرائم کا ہاتھ روکنا عالمی برادری کا فرض ہے۔

اس تنازع کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے غاصب کو غاصب اور مظلوم کو مظلوم تسلیم کرنا اور ظالم سے مظلوم کو اس کا حق دلانا لازمی ہے، لیکن فی الوقت جن طاقتوں کے ہاتھوں میں دنیا کی باگ ڈور ہے وہ خود اس ظلم اور سفاکی کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔

فلسطین، اسرائیل تنازع میں ظالم اور مظلوم کے فرق کو نظر انداز کرنے کا یہی رویہ برطانیہ سمیت بیشتر ترقی یافتہ اور طاقتور ملکوں کی حکومتوں کا ہے، تاہم حکمرانوں کی اس ہٹ دھرمی کے باوجود سچائی اپنے آپ کو منوا رہی ہے اور اسرائیل اور مغربی ملکوں سمیت دنیا بھر میں انصاف پسند لوگ اس درندگی اور دھاندلی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔
Load Next Story