پی ٹی آئی کا پہلا سیاسی رویہ
شدید سیاسی مخالفین کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے بھی دیکھا گیا ہے
کرنے کی باتیں تو بہت سی ہیں لیکن ان پر ایک ملاقات غالب آ گئی ہے۔ یہ وہی ملاقات ہے جس پر سب کو اچنبھا ہوا کہ آخر یہ آگ اور پانی کیسے اکٹھے ہو گئے؟
یہ ماجرا ہے، مولانا فضل الرحمن سے پی ٹی آئی کے وفد کی ملاقات کا۔ یوں یہ ملاقات ایک تعزیت کے عنوان سے ہوئی۔ سیاسی عمل میں تعلقات سلام دعا سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔
شدید سیاسی مخالفین کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے بھی دیکھا گیا ہے۔ دکھ درد والی بات بھی یوں جانئے کہ پورا سچ بیان نہیں کرتی، یہ لوگ مشکل میں ایک دوسرے کے کام بھی آتے ہیں۔ سماجی سطح پر ان کے تعلقات بہترین ہوتے ہیں۔
ملک محمد نواز اعوان میرے مرحوم والد کے دوست تھے، دونوں ایک ساتھ مسجد جاتے اور علاقے کی ترقی اور بہبود کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے۔ ملک صاحب پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدے دار تھے اور میرے والد اس جماعت سے کوسوں دور ہی نہ تھے بلکہ اس کے وجود کو وطن عزیز کے لیے بے برکت سمجھتے تھے۔
اس کے باوجود ان دونوں بزرگوں کے درمیان احترام سے بڑھ کر رشتہ تھا۔ ملک صاحب ایک روز میرے والد کے پاس تشریف رکھتے تھے کہ میرے والد صاحب پر فالج کا حملہ ہوا۔ والد مرحوم نے ان سے درخواست کی کہ آپ تشریف لے جائیں، میری طبیعت بگڑ رہی ہے۔
ملک صاحب نے فرمایا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کی طبیعت اچھی نہ ہو اور میں آپ کو چھوڑ کر چلا جاؤں۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ تعلق باہم کی ایک دل نشیں داستان ہے ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قومی سیاست میں جتنی شدت بھی رہی ہو، سیاسی شخصیات اور کارکنوں کے درمیان سماجی تعلق کو کبھی ضعف نہیں پہنچا۔
ماضی میں سیاسی اختلاف کے باعث مخالفین کو ایذائیں دینے کا سلسلہ بھی رہا لیکن ہمارا سماجی ڈھانچا ایسا تھا کہ معاشرتی سطح پر ربط ضبط ہمیشہ برقرار رہا اور لحاظ مروت بھی۔ حالیہ تاریخ یعنی پی ٹی آئی کے ظہور میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اوپر سے نیچے تک سیاسی تعلقات متاثر ہوئے۔
صورت حال اس قدر بگڑ گئی کہ خاندان کے اندر کم عمر نوجوان بھی اپنے بزرگوں کے منہ کو آنے لگے۔ اس صورت حال نے ہمارے معاشرتی تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا۔ اس پس منظر میں پی ٹی آئی کے وفد کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات حیران کن ہے۔
پی ٹی آئی کا جمعیت علمائے اسلام سے رابطہ تو حیران کن ہے ہی، ایک حیرت اس کے علاوہ بھی ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی۔ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر چیئرمین تحریک انصاف کے لیے آئین شکنی تک کے مرتکب ہونے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ان کے لیے اہم نہیں رہے تھے۔
بالکل اسی طرح علی محمد خان کا شمار بھی پسندیدہ لوگوں میں نہیں ہوتا تھا۔ معلوم ہوا کہ ابتلا کے ان دنوں میں چیئرمین تحریک انصاف نے پارٹی کے وفادار راہنماؤں کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کی ہے۔ یہ چیز چیئرمین تحریک انصاف کے عمومی رویے میں تبدیلی کی غماز ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف کے رویوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ ضرورت کے وقت وہ اپنی رائے میں سو فیصد تبدیلی میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ ان کے اسی طرز عمل کے بارے میں ان کے بارے میں یو ٹرن کی اصطلاح وجود میں آئی تھی۔
خیال کیا جا سکتا ہے کہ ابتلا کے موجودہ دور میں بھی شاید یہی ہوا ہو لیکن ایک فرق ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ چیئرمین تحریک انصاف کی رائے میں اگر تبدیلی واقع ہوئی ہے تو اس کا ظہور ایک بڑے واقعے کے بعد ہوا ہے یعنی 9 نومبر کے بعد۔
چیئرمین تحریک انصاف حزب اختلاف میں تھے تو انھوں نے پارلیمان کا مسلسل بائیکاٹ کیے رکھا اور حکومت کی طرف سے رابطوں کاکبھی مثبت جواب نہ دیا۔ وہ حکومت میں آئے تو انھوں نے حزب اختلاف کو دیوار سے لگا کر رکھا اور پارلیمان کے اندر بھی رسمی سلام دعا سے بچنے کے لیے مضحکہ خیز طریقے اختیار کیے۔ یوں وہ تنہا ہوتے چلے گئے۔
بعض تجربہ کار سیاسی قائدین کی رائے تھی کہ چیئرمین تحریک انصاف کو کچھ عرصے تک سیاسی آزمائش کا سامنا کرنا چاہیے۔
اس طرح انھیں اپنی غلطیوں پر سوچ بچار کر کے انھیں درست کرنے کا موقع میسر آئے گا اور وہ ہم چو ما دیگرے نیست کی کیفیت سے نکل کر سیاسی طور طریقے اپنا سکیں گے۔ بظاہر لگتا تو یہی ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ اگر یہ تاثر درست ہے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن نے بھی پی ٹی آئی کے رابطے کے جواب میں سخت طرز عمل اختیار نہیں کیا۔ انھوں نے ایک تجربہ کار، بزرگ اور زیرک سیاستدان کی حیثیت سے خوش دلی سے پی ٹی آئی کے وفد کی میزبانی کی جس پر وہ تعریف کے مستحق ہیں۔
مولانا کے رویے کا ذکر اس اعتبار سے ناگزیر ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں راہ پا جانے والی شدت پسندی اور بد اخلاقی کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ ان تمام لوگوں کو اس سے یہ سیکھنے کا موقع ملے گا کہ اختلاف کے باوجود سماجی تعلق کس طرح برقرار رکھا جاتا ہے اور اسے برقرار رکھنا کیوں ضروری ہے۔
اس ملاقات پر جو تنقیدی رویہ سامنے آیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مولانا کے رویے سے ثابت ہو گیا کہ اصل میں یہ سب اندر سے ایک ہیں، درست نہیں ہے بلکہ سیاسی عدم بلوغت کا غماز ہے۔
اس ملاقات کا ہر سطح پر اس لیے بھی خیر مقدم ہونا چاہیے کہ یہ وطن عزیز کے سیاسی درجہ حرارت میں کمی کر کے اسے معمول پر لانے کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس طرح پاکستان سیاسی طور ایک جست آگے بڑھ جائے گا اور ملک میں وہ سازگار فضا پیدا ہو سکے گی جو سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے۔
اطلاعات کے مطابق تجربہ کار سیاسی راہ نما اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات جناب محمد علی درانی بھی سیاسی درجہ حرارت میں کمی کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے بہت سے سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں، ان میں کچھ کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں اور کچھ کی تفصیل صیغہ راز میں ہے۔ قابل اعتماد ذرایع کے مطابق اس ملاقات کے پس پشت بھی ان ہی کی کوششیں کار فرما رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن سے ان کی ملاقات کے بعد ہی ان سے پی ٹی آئی کے وفد کی ملاقات ممکن ہو سکی ہے۔ اپنی سرگرمیوں پر وہ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وہ ملک کی موجودہ بدترین سیاسی کشیدگی کی صورت حال میں دہکتی ہوئی آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک مبارک کوشش ہے جس کے نتائج بہت صورت اچھے ہوں گے۔
درانی صاحب ایک سنجیدہ اور ذہین سیاست دان ہیں۔ ماضی میں وہ نہایت پیچیدہ سیاسی صورت حال میں کردار ادا کر چکے ہیں۔
ان دنوں وہ اس عزم کے ساتھ کام کر رہے ہیں کہ ملک میں آئین کی حکمرانی اور جمہوریت کی جڑیں گہری ہونی چاہئیں۔ ان کی مساعی قابل قدر ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ آنے والے دنوں میں مزید ملاقاتوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مستقبل میں ان کی خدمات کا نہ صرف اعتراف کیا جائے گا بلکہ ان کا سیاسی قد کاٹھ مزید ابھرے گا۔
اب ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس سوال پر غور کیا جائے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی افتاد طبع کے برعکس مخالف سیاسی قوتوں سے رابطوں کا آغاز کیا ہے تو اس کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ سوال کوئی بہت بڑا معمہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف اس وقت اپنے سیاسی اور غیر سیاسی رویوں کے باعث جن مشکلات کا شکار ہیں، ان میں کمی واقع ہو سکے اور وہ اور ان کی جماعت ایک بار پھر بھرپور انداز میں سیاسی میدان عمل میں لوٹ سکے۔
اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آتے یا قانونی معاملات میں کوئی سہولت نہیں ملتی تو کم از کم سیاسی مخالفین کی طرف سے مخالفت میں ہی کسی قدر کمی واقع ہو جائے۔ چیئرمین تحریک انصاف کی فکر کے بارے میں یہ اندازے اگر درست ہیں اور وہ ماضی کے برعکس سنجیدگی کے ساتھ اس حکمت عملی پر کاربند ہوئے ہیں تو اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔
یہی راستہ ہے جس پر چلنے کے بعد وہ اپنے ماضی کے برخود غلط طرز عمل (Self righteousness) کی گرفت سے نکل کر اپنی غلطیوں کی اصلاح کے قابل ہو سکیں گے۔ ایسا ہو جاتا ہے تو یہ بھی ہماری سیاست کے لیے ایک نیک فال ہو گی۔
اب ایک آخری بات۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف صاحب کو گزشتہ چند دنوں کے دوران میں کئی قانونی ریلیف ملے ہیں۔ ان فیصلوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں غیر معمولی تیز رفتاری کے ساتھ انصاف مل رہا ہے۔
یہ تاثر خلاف واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں قانونی عمل کے ذریعے غیر معمولی سرعت کے ساتھ سیاسی عمل سے باہر کیا گیا تھا۔ یہ ایک تاریخی نا انصافی تھی۔ اب ان غلطیوں کا تدارک ہو رہا ہے تو اس میں حیرت کیسی؟ یہ موضوع تفصیلی گفتگو کا متقاضی ہے، اس پر آیندہ بات ہوگی، ان شاء اللہ ۔
یہ ماجرا ہے، مولانا فضل الرحمن سے پی ٹی آئی کے وفد کی ملاقات کا۔ یوں یہ ملاقات ایک تعزیت کے عنوان سے ہوئی۔ سیاسی عمل میں تعلقات سلام دعا سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔
شدید سیاسی مخالفین کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے بھی دیکھا گیا ہے۔ دکھ درد والی بات بھی یوں جانئے کہ پورا سچ بیان نہیں کرتی، یہ لوگ مشکل میں ایک دوسرے کے کام بھی آتے ہیں۔ سماجی سطح پر ان کے تعلقات بہترین ہوتے ہیں۔
ملک محمد نواز اعوان میرے مرحوم والد کے دوست تھے، دونوں ایک ساتھ مسجد جاتے اور علاقے کی ترقی اور بہبود کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے۔ ملک صاحب پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدے دار تھے اور میرے والد اس جماعت سے کوسوں دور ہی نہ تھے بلکہ اس کے وجود کو وطن عزیز کے لیے بے برکت سمجھتے تھے۔
اس کے باوجود ان دونوں بزرگوں کے درمیان احترام سے بڑھ کر رشتہ تھا۔ ملک صاحب ایک روز میرے والد کے پاس تشریف رکھتے تھے کہ میرے والد صاحب پر فالج کا حملہ ہوا۔ والد مرحوم نے ان سے درخواست کی کہ آپ تشریف لے جائیں، میری طبیعت بگڑ رہی ہے۔
ملک صاحب نے فرمایا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کی طبیعت اچھی نہ ہو اور میں آپ کو چھوڑ کر چلا جاؤں۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ تعلق باہم کی ایک دل نشیں داستان ہے ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قومی سیاست میں جتنی شدت بھی رہی ہو، سیاسی شخصیات اور کارکنوں کے درمیان سماجی تعلق کو کبھی ضعف نہیں پہنچا۔
ماضی میں سیاسی اختلاف کے باعث مخالفین کو ایذائیں دینے کا سلسلہ بھی رہا لیکن ہمارا سماجی ڈھانچا ایسا تھا کہ معاشرتی سطح پر ربط ضبط ہمیشہ برقرار رہا اور لحاظ مروت بھی۔ حالیہ تاریخ یعنی پی ٹی آئی کے ظہور میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اوپر سے نیچے تک سیاسی تعلقات متاثر ہوئے۔
صورت حال اس قدر بگڑ گئی کہ خاندان کے اندر کم عمر نوجوان بھی اپنے بزرگوں کے منہ کو آنے لگے۔ اس صورت حال نے ہمارے معاشرتی تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا۔ اس پس منظر میں پی ٹی آئی کے وفد کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات حیران کن ہے۔
پی ٹی آئی کا جمعیت علمائے اسلام سے رابطہ تو حیران کن ہے ہی، ایک حیرت اس کے علاوہ بھی ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی۔ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر چیئرمین تحریک انصاف کے لیے آئین شکنی تک کے مرتکب ہونے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ان کے لیے اہم نہیں رہے تھے۔
بالکل اسی طرح علی محمد خان کا شمار بھی پسندیدہ لوگوں میں نہیں ہوتا تھا۔ معلوم ہوا کہ ابتلا کے ان دنوں میں چیئرمین تحریک انصاف نے پارٹی کے وفادار راہنماؤں کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کی ہے۔ یہ چیز چیئرمین تحریک انصاف کے عمومی رویے میں تبدیلی کی غماز ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف کے رویوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ ضرورت کے وقت وہ اپنی رائے میں سو فیصد تبدیلی میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ ان کے اسی طرز عمل کے بارے میں ان کے بارے میں یو ٹرن کی اصطلاح وجود میں آئی تھی۔
خیال کیا جا سکتا ہے کہ ابتلا کے موجودہ دور میں بھی شاید یہی ہوا ہو لیکن ایک فرق ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ چیئرمین تحریک انصاف کی رائے میں اگر تبدیلی واقع ہوئی ہے تو اس کا ظہور ایک بڑے واقعے کے بعد ہوا ہے یعنی 9 نومبر کے بعد۔
چیئرمین تحریک انصاف حزب اختلاف میں تھے تو انھوں نے پارلیمان کا مسلسل بائیکاٹ کیے رکھا اور حکومت کی طرف سے رابطوں کاکبھی مثبت جواب نہ دیا۔ وہ حکومت میں آئے تو انھوں نے حزب اختلاف کو دیوار سے لگا کر رکھا اور پارلیمان کے اندر بھی رسمی سلام دعا سے بچنے کے لیے مضحکہ خیز طریقے اختیار کیے۔ یوں وہ تنہا ہوتے چلے گئے۔
بعض تجربہ کار سیاسی قائدین کی رائے تھی کہ چیئرمین تحریک انصاف کو کچھ عرصے تک سیاسی آزمائش کا سامنا کرنا چاہیے۔
اس طرح انھیں اپنی غلطیوں پر سوچ بچار کر کے انھیں درست کرنے کا موقع میسر آئے گا اور وہ ہم چو ما دیگرے نیست کی کیفیت سے نکل کر سیاسی طور طریقے اپنا سکیں گے۔ بظاہر لگتا تو یہی ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ اگر یہ تاثر درست ہے تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن نے بھی پی ٹی آئی کے رابطے کے جواب میں سخت طرز عمل اختیار نہیں کیا۔ انھوں نے ایک تجربہ کار، بزرگ اور زیرک سیاستدان کی حیثیت سے خوش دلی سے پی ٹی آئی کے وفد کی میزبانی کی جس پر وہ تعریف کے مستحق ہیں۔
مولانا کے رویے کا ذکر اس اعتبار سے ناگزیر ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں راہ پا جانے والی شدت پسندی اور بد اخلاقی کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ ان تمام لوگوں کو اس سے یہ سیکھنے کا موقع ملے گا کہ اختلاف کے باوجود سماجی تعلق کس طرح برقرار رکھا جاتا ہے اور اسے برقرار رکھنا کیوں ضروری ہے۔
اس ملاقات پر جو تنقیدی رویہ سامنے آیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مولانا کے رویے سے ثابت ہو گیا کہ اصل میں یہ سب اندر سے ایک ہیں، درست نہیں ہے بلکہ سیاسی عدم بلوغت کا غماز ہے۔
اس ملاقات کا ہر سطح پر اس لیے بھی خیر مقدم ہونا چاہیے کہ یہ وطن عزیز کے سیاسی درجہ حرارت میں کمی کر کے اسے معمول پر لانے کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس طرح پاکستان سیاسی طور ایک جست آگے بڑھ جائے گا اور ملک میں وہ سازگار فضا پیدا ہو سکے گی جو سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے۔
اطلاعات کے مطابق تجربہ کار سیاسی راہ نما اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات جناب محمد علی درانی بھی سیاسی درجہ حرارت میں کمی کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے بہت سے سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں، ان میں کچھ کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں اور کچھ کی تفصیل صیغہ راز میں ہے۔ قابل اعتماد ذرایع کے مطابق اس ملاقات کے پس پشت بھی ان ہی کی کوششیں کار فرما رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن سے ان کی ملاقات کے بعد ہی ان سے پی ٹی آئی کے وفد کی ملاقات ممکن ہو سکی ہے۔ اپنی سرگرمیوں پر وہ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وہ ملک کی موجودہ بدترین سیاسی کشیدگی کی صورت حال میں دہکتی ہوئی آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک مبارک کوشش ہے جس کے نتائج بہت صورت اچھے ہوں گے۔
درانی صاحب ایک سنجیدہ اور ذہین سیاست دان ہیں۔ ماضی میں وہ نہایت پیچیدہ سیاسی صورت حال میں کردار ادا کر چکے ہیں۔
ان دنوں وہ اس عزم کے ساتھ کام کر رہے ہیں کہ ملک میں آئین کی حکمرانی اور جمہوریت کی جڑیں گہری ہونی چاہئیں۔ ان کی مساعی قابل قدر ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ آنے والے دنوں میں مزید ملاقاتوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مستقبل میں ان کی خدمات کا نہ صرف اعتراف کیا جائے گا بلکہ ان کا سیاسی قد کاٹھ مزید ابھرے گا۔
اب ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس سوال پر غور کیا جائے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی افتاد طبع کے برعکس مخالف سیاسی قوتوں سے رابطوں کا آغاز کیا ہے تو اس کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ سوال کوئی بہت بڑا معمہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف اس وقت اپنے سیاسی اور غیر سیاسی رویوں کے باعث جن مشکلات کا شکار ہیں، ان میں کمی واقع ہو سکے اور وہ اور ان کی جماعت ایک بار پھر بھرپور انداز میں سیاسی میدان عمل میں لوٹ سکے۔
اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آتے یا قانونی معاملات میں کوئی سہولت نہیں ملتی تو کم از کم سیاسی مخالفین کی طرف سے مخالفت میں ہی کسی قدر کمی واقع ہو جائے۔ چیئرمین تحریک انصاف کی فکر کے بارے میں یہ اندازے اگر درست ہیں اور وہ ماضی کے برعکس سنجیدگی کے ساتھ اس حکمت عملی پر کاربند ہوئے ہیں تو اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔
یہی راستہ ہے جس پر چلنے کے بعد وہ اپنے ماضی کے برخود غلط طرز عمل (Self righteousness) کی گرفت سے نکل کر اپنی غلطیوں کی اصلاح کے قابل ہو سکیں گے۔ ایسا ہو جاتا ہے تو یہ بھی ہماری سیاست کے لیے ایک نیک فال ہو گی۔
اب ایک آخری بات۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف صاحب کو گزشتہ چند دنوں کے دوران میں کئی قانونی ریلیف ملے ہیں۔ ان فیصلوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں غیر معمولی تیز رفتاری کے ساتھ انصاف مل رہا ہے۔
یہ تاثر خلاف واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں قانونی عمل کے ذریعے غیر معمولی سرعت کے ساتھ سیاسی عمل سے باہر کیا گیا تھا۔ یہ ایک تاریخی نا انصافی تھی۔ اب ان غلطیوں کا تدارک ہو رہا ہے تو اس میں حیرت کیسی؟ یہ موضوع تفصیلی گفتگو کا متقاضی ہے، اس پر آیندہ بات ہوگی، ان شاء اللہ ۔