ڈالر کی قیمت میں استحکام کے بغیر مہنگائی کا خاتمہ ممکن نہیں
روپے کی قدر میں بہتری کے اثرات نیچے تک منتقل نہیں ہوئے، معاشی استحکام کیلئے شرح سود8 فیصد
ملک کو درپیش بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ مہنگائی ہے جس کا تعلق معیشت سے ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا مگر مہنگائی میں کمی نظر نہیں آئی۔
مہنگائی کی وجوہات کیا ہیں، معیشت کیسے مستحکم ہوسکتی ہے، روپے کی قدر میں اضافے سے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''مہنگائی کا خاتمہ کیسے ممکن؟'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات ، بزنس و تاجر کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات)
کیپٹل ازم میں فری مارکیٹ اور مقابلے کی فضاء کے ذریعے قیمتوں میں استحکام لایا جاتا ہے اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو فراڈ سے بچائے اور مقابلے کی فضاء قائم رکھے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا۔ یہاں تو کسی کو عام آدمی کی حالت زار بہتر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
یہ استحصالی نظام ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بکریوں کی رکھوالی کی ذمہ داری بھڑیے کو دے رکھی ہے۔ افسوس ہے کہ ہم بے سمت جا رہے ہیں، کسی حوالے سے کوئی پلاننگ ہے اور نہ ہی کام۔ ہم دنیا میں کسی بھی ملک کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ شرح سود کی بات کریں تو خطے سمیت دنیا کے بڑے ممالک میں ہمارے ہاں سب سے زیادہ ہے۔
یورپ میں 3فیصد، امریکا 5 فیصد ، بھارت 6 فیصد، برازیل 8 فیصد، جاپان میں منفی 1 فیصد جبکہ پاکستان میں 22 فیصد ہے، ایسے میں معیشت کیسے چل سکتی ہے؟ ہم کس طرح ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ میرے نزدیک ہونا تو یہ چاہیے کہ امپورٹ، ایکسپورٹ ڈیوٹی ختم کرکے صرف سیلز ٹیکس لگا دیا جائے۔ اس طرح یہاں دنیا بھر سے اشیاء آئیں گے۔
یہاں مقابلے کی فضا پیدا کی جائے، سیلز ٹیکس لے کر معیشت کو مستحکم کیا جائے اور پرائس کنٹرول کرکے عام آدمی تک سستے داموں اشیاء کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ٹیکس ، ریونیو اور کسٹم کے ادارے اچھا پرفارم نہیں کر رہے۔
اسی طرح قانون و انصاف کے اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ہمارے ملک کا مجموعی سسٹم ہی ناقص ہے جو عام آدمی کو ریلیف نہیں دے پا رہا، ڈیلور نہیں کر رہا یہی وجہ ہے کہ ملک کے معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل حل نہیں ہورہے، ہمیں سسٹم کے نقائص دور کرنا ہونگے۔
اگر حکومت کی مداخلت بہت زیادہ رہی، بجلی، تیل، گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا تو کسی کیلئے بھی کاروبار کرنا ممکن نہیں ہوگا، خصوصاََ چھوٹا کاروبار کرنے والے کاروبار نہیں کر سکیں گے لہٰذا اگر ملک میں سرمایہ کاری چاہیے تو کاروباری طبقے کو ریلیف دینا ہوگا، معاشی استحکام لانا ہوگا اور حکومت کو اپنا کردار محدود کرنا ہوگا۔ڈالر 300 روپے پر آیا تو خیال تھا کہ بیرونی سرمایہ کاری آئے گی مگر نہیں آئی۔
ڈالر کے نیچے آنے سے امپورٹ، ایکسپورٹ پر بھی فرق نہیں پڑا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ڈنڈے کے زور سے معیشت نہیں چلائی جاسکتی، بہتر پالیسی بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ 'یو این ڈی پی ' کی رپورٹ کے مطابق 4 ملین افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں، 1.4 ملین افراد چوری، ڈکیتی میں ملوث ہوگئے، یہ الارمنگ ہے۔
ہم ابھی تک سیلاب کے نقصان سے باہر نہیں نکل سکے، مسائل کے حل کیلئے بڑے اقدامات ضروری ہیں۔ معیشت کی بہتری کیلئے شرح سود 8 سے 9 فیصد کی جائے، بجلی کے ریٹ نیچے لائے جائیں، ٹیکس کم کیا جائے، لوگوں کو ریلیف دیا جائے، مقامی حکومتیں قائم کی جائیں اور سرمایہ داروں کو سہولیات دی جائیں۔ آئی ایم ایف غریب کو تحفظ دینے کی بات کرتا ہے،ہم غریب کو لوٹ کر امیر کو مستحکم کر رہے ہیں، متعدد ٹیکس لگائے جا رہے ہیں جو غریب پر بوجھ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غریب کا گھر کوئی بہتر نہیں کرنا چاہتا۔
آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ایک بینک اکاؤنٹ سے سب لنک کریں، سرکلر ڈیٹ کم کریں، اشرافیہ کی مراعات ختم کریں، حکومت کے اخراجات کم کریں، وہ ادارے جو معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں ان کی نجکاری کریں، امیر پر ٹیکس لگائیں اور غریب کو ریلیف دیں،اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط مان لے تو معیشت میں بہتری آسکتی ہے۔
اس وقت گورننس کا بحران ہے۔ نگران حکومت موجود ہے جس نے الیکشن نہیں لڑنا، شاید اسی لیے سخت فیصلے لیے جا رہے ہیں، اگر ملک کو آگے لے جانا ہے تو عوام کو سہولیات دینا ہونگی، ان کی زندگی کو بہتر بنانا ہوگا۔
ڈاکٹر محمد ارشد
(سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
ڈالر کے ریٹ میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے اس وقت مارکیٹ میں بے یقینی کی صورتحال ہے لہٰذا جب تک ڈالر کا ریٹ ایک جگہ نہیں رکتا، اس میں تسلسل برقرار نہیں رہتا اور مارکیٹ میں اعتماد پیدا نہیں ہوتا تب تک ریٹیل پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔ غیر یقینی کی صورتحال میں نہ تو قیمتوں میں کمی آئے گی اور نہ برآمدات یا درآمدات میں اضافہ ہوگا۔
ڈالر کی قیمت میں کمی سے سویابین کی قیمت میں 235 روپے فی لیٹر کمی آئی مگر یہ فیکٹریوں سے صارف تک نہیں پہنچی۔ ڈالر کی قدر میں حالیہ کمی کا جائزہ لیں تو اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملتی۔ ڈالر کا 276 تک آنا پریکٹیکل نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ کمی نیچے تک منتقل نہیں ہوئی اور اب ڈالر پھر سے مہنگا ہونا شروع ہوگیا۔
ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ ڈالر خریدتے ہیں انہوں نے اپنے لیے خریدنے کی گنجائش بنائی، یہ سستا ہوا تو انہوں نے پھر سے خرید لیا اور ڈالر 281 پہ چلا گیا۔
6 دن پہلے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ بینک سے بھی کم تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حکومت اپنی رٹ قائم کرے تو چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں لیکن اب جیسے ہی ڈالر بڑھنا شروع ہوا ہے تو اوپن مارکیٹ میں اس کی قیمت زیادہ ہوجائے گی۔ میرے نزدیک ڈالر کو فری مارکیٹ نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ اسے کنٹرول کرنا چاہیے۔ اگر ڈالر کو 300 پر بھی روک لیا جائے تو معاملات میں بہتری آسکتی ہے۔
ہمارا بارڈر بہت بڑا ہے، اس میں سمگلنگ و دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنا بہت مشکل ہے لہٰذا اسے بہتر پالیسی بنا کر کم کیا جاسکتا ہے۔ ایران کا کوکنگ آئل لاہور میں بک رہا ہے حالانکہ یہ غیر قانونی ہے، یہ سمگل ہو کر آیا ہے، اس کی روک تھام کیلئے امپورٹ ڈیوٹی کو کم کر دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ٹیکس ریٹ میں بھی کمی لانی چاہیے۔
حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا ہے جبکہ بعض اشیاء کی تجارت روک دی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں ہمارے ہاں شرح سود زیادہ ہے، اسے کم کیا جائے، میرے نزدیک یہ 8 فیصد ہونی چاہیے تاکہ ہم بھارت و دیگر ممالک کا مقابلہ کر سکیں۔ ہمارے ہاں چاول بہت اچھا ہے لیکن بھارت نے عالمی مارکیٹ میں جگہ بنا رکھی ہے۔
بھارت نے چاول کی نئی قسم نکالی، 10 برس میں اس میں خوشبو نہیں آئی مگر ہمارے ہاں 3 برس میں چاول کی اس قسم میں خوشبو آگئی، یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ یہ زمین اچھی ہے۔ اسی طرح ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری بہترین ہے، اس کے پاس جدید مشینری اور سکلڈ ورکرز ہیں، روبوٹک مشینری تک لگ چکی ہے لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ وزیراعظم اور حکومت بہتر پالیسی بنا کر ملکی معیشت اور صنعت و تجارت کی ترقی کیلئے کام کریں گے۔
حافظ عارف
(صدر کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن پنجاب)
صارف کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہم مہنگی اشیاء فروخت کر رہے ہیں کیونکہ اس کا براہ راست تعلق ہمارے ساتھ ہے لیکن اس مہنگائی میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے، ہر چیز کی قیمت مقرر ہے، پرنٹ بھی ہوتی ہے، ہم اسی کے مطابق فروخت کرتے ہیں۔
میرے نزدیک مہنگائی کی وجہ بیڈ گورننس اور استحصالی نظام ہے، لوگوں کی قوت خرید ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔
ہمیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کم پیسے ہونے کی وجہ سے صارف بار بار بل کرواتا ہے اور اپنی ضرورت کی اشیاء بھی نکلوا دیتا ہے یا کم کر دیتا ہے تاکہ اس کے پاس موجود رقم کے حساب سے بل بن سکے۔
بدقسمتی سے غریب کیلئے بدترین مہنگائی ہے، حکومت نے تو آٹا، گھی، چینی کو بھی لگژری آئٹم سمجھ لیا ہے، لوگوں کیلئے ایک وقت کی روٹی کھانا مشکل ہوگیا ہے، بے روزگاری اور غربت نے گھروں میں ڈیرے ڈال لیے ہیں اور لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ڈالر کے حوالے سے بہت باتیں کی جاتی ہیں۔
میرے نزدیک ڈالر کے مہنگا ہونے سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک آسان بہانہ ہے جسے لگا کر اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ڈالر سستا ہونے کے بعد چائے، ڈبل روٹی و دیگر اشیاء کے ریٹس میں اضافہ کر دیا گیا، اگر ڈالر سے تعلق ہوتا تو پھر یہ قیمتیں کم ہونی چاہیے تھی۔ گھی کی قیمت کے حوالے سے ایک مسئلہ ہے۔
اس کے نرخ پیکٹ پر پرنٹ نہیں ہوتے۔ ویسے تو یہ قانون موجود ہے کہ ہر چیز کی قیمت پرنٹ کی جائے مگر گھی ملز مالکان نے عدالت سے حکم امتناع لے رکھا ہے۔ اب گھی کا ریٹ معیار کے مطابق نہیں بلکہ اب بہترین کوالٹی اور عام کوالٹی والے گھی کی قیمت میں معمولی سا فرق ہے۔
مہنگائی کے حوالے سے جب عوامی ردعمل آتا ہے تو حکومت ریٹیلرز پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیتی ہے، جگہ جگہ چھاپے مارے جاتے ہیں، جرمانے کیلئے جاتے ہیں لیکن اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ہول سیل مارکیٹ سے ہی مہنگے داموں اشیاء ملتی ہیں لہٰذا اگر حکومت صحیح معنوں میں مہنگائی کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو اسے ریٹیلرز سے زیادہ، ہول سیلر اور ملز مالکان کو کنٹرول کرنا ہوگا۔
میں نے وزیراعلیٰ کی زیر قیادت اعلیٰ سطحی میٹنگ میں بھی بتایا کہ سسٹم کے نقائص کیا ہیں، ڈالر کے سستا ہونے کے بعد بھی مہنگائی کم کیوں نہیں ہورہی اور حکومت کو کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات توجہ طلب ہے کہ پنجاب حکومت آٹے پر سبسڈی دینے جا رہی ہے، میرے نزدیک اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ 60 ارب روپے کی سبسڈی سے صرف 60 روپے کا فرق پڑے گا۔ مہنگائی کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر ڈپٹی کمشنر کے مقرر کردہ ریٹ الگ الگ ہیں۔
اضلاع کے درمیان 20 سے 50 روپے تک قیمتوں کا فرق ہے، اسے بھی دیکھنا ہوگا۔ میں پرائس کنٹرول کمیٹی کا رکن ہوں لیکن یہ فعال نہیں ہے، حالت یہ ہے کہ 33 رکنی کمیٹی کی نہ کوئی میٹنگ ہوئی اور نہ ہی کسی کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں مہنگائی پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے، اسی طرف توجہ دینا ہوگی۔
مہنگائی کی وجوہات کیا ہیں، معیشت کیسے مستحکم ہوسکتی ہے، روپے کی قدر میں اضافے سے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''مہنگائی کا خاتمہ کیسے ممکن؟'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات ، بزنس و تاجر کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات)
کیپٹل ازم میں فری مارکیٹ اور مقابلے کی فضاء کے ذریعے قیمتوں میں استحکام لایا جاتا ہے اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو فراڈ سے بچائے اور مقابلے کی فضاء قائم رکھے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا۔ یہاں تو کسی کو عام آدمی کی حالت زار بہتر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
یہ استحصالی نظام ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بکریوں کی رکھوالی کی ذمہ داری بھڑیے کو دے رکھی ہے۔ افسوس ہے کہ ہم بے سمت جا رہے ہیں، کسی حوالے سے کوئی پلاننگ ہے اور نہ ہی کام۔ ہم دنیا میں کسی بھی ملک کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ شرح سود کی بات کریں تو خطے سمیت دنیا کے بڑے ممالک میں ہمارے ہاں سب سے زیادہ ہے۔
یورپ میں 3فیصد، امریکا 5 فیصد ، بھارت 6 فیصد، برازیل 8 فیصد، جاپان میں منفی 1 فیصد جبکہ پاکستان میں 22 فیصد ہے، ایسے میں معیشت کیسے چل سکتی ہے؟ ہم کس طرح ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ میرے نزدیک ہونا تو یہ چاہیے کہ امپورٹ، ایکسپورٹ ڈیوٹی ختم کرکے صرف سیلز ٹیکس لگا دیا جائے۔ اس طرح یہاں دنیا بھر سے اشیاء آئیں گے۔
یہاں مقابلے کی فضا پیدا کی جائے، سیلز ٹیکس لے کر معیشت کو مستحکم کیا جائے اور پرائس کنٹرول کرکے عام آدمی تک سستے داموں اشیاء کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ٹیکس ، ریونیو اور کسٹم کے ادارے اچھا پرفارم نہیں کر رہے۔
اسی طرح قانون و انصاف کے اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ہمارے ملک کا مجموعی سسٹم ہی ناقص ہے جو عام آدمی کو ریلیف نہیں دے پا رہا، ڈیلور نہیں کر رہا یہی وجہ ہے کہ ملک کے معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل حل نہیں ہورہے، ہمیں سسٹم کے نقائص دور کرنا ہونگے۔
اگر حکومت کی مداخلت بہت زیادہ رہی، بجلی، تیل، گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا تو کسی کیلئے بھی کاروبار کرنا ممکن نہیں ہوگا، خصوصاََ چھوٹا کاروبار کرنے والے کاروبار نہیں کر سکیں گے لہٰذا اگر ملک میں سرمایہ کاری چاہیے تو کاروباری طبقے کو ریلیف دینا ہوگا، معاشی استحکام لانا ہوگا اور حکومت کو اپنا کردار محدود کرنا ہوگا۔ڈالر 300 روپے پر آیا تو خیال تھا کہ بیرونی سرمایہ کاری آئے گی مگر نہیں آئی۔
ڈالر کے نیچے آنے سے امپورٹ، ایکسپورٹ پر بھی فرق نہیں پڑا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ڈنڈے کے زور سے معیشت نہیں چلائی جاسکتی، بہتر پالیسی بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ 'یو این ڈی پی ' کی رپورٹ کے مطابق 4 ملین افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں، 1.4 ملین افراد چوری، ڈکیتی میں ملوث ہوگئے، یہ الارمنگ ہے۔
ہم ابھی تک سیلاب کے نقصان سے باہر نہیں نکل سکے، مسائل کے حل کیلئے بڑے اقدامات ضروری ہیں۔ معیشت کی بہتری کیلئے شرح سود 8 سے 9 فیصد کی جائے، بجلی کے ریٹ نیچے لائے جائیں، ٹیکس کم کیا جائے، لوگوں کو ریلیف دیا جائے، مقامی حکومتیں قائم کی جائیں اور سرمایہ داروں کو سہولیات دی جائیں۔ آئی ایم ایف غریب کو تحفظ دینے کی بات کرتا ہے،ہم غریب کو لوٹ کر امیر کو مستحکم کر رہے ہیں، متعدد ٹیکس لگائے جا رہے ہیں جو غریب پر بوجھ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غریب کا گھر کوئی بہتر نہیں کرنا چاہتا۔
آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ایک بینک اکاؤنٹ سے سب لنک کریں، سرکلر ڈیٹ کم کریں، اشرافیہ کی مراعات ختم کریں، حکومت کے اخراجات کم کریں، وہ ادارے جو معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں ان کی نجکاری کریں، امیر پر ٹیکس لگائیں اور غریب کو ریلیف دیں،اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط مان لے تو معیشت میں بہتری آسکتی ہے۔
اس وقت گورننس کا بحران ہے۔ نگران حکومت موجود ہے جس نے الیکشن نہیں لڑنا، شاید اسی لیے سخت فیصلے لیے جا رہے ہیں، اگر ملک کو آگے لے جانا ہے تو عوام کو سہولیات دینا ہونگی، ان کی زندگی کو بہتر بنانا ہوگا۔
ڈاکٹر محمد ارشد
(سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
ڈالر کے ریٹ میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے اس وقت مارکیٹ میں بے یقینی کی صورتحال ہے لہٰذا جب تک ڈالر کا ریٹ ایک جگہ نہیں رکتا، اس میں تسلسل برقرار نہیں رہتا اور مارکیٹ میں اعتماد پیدا نہیں ہوتا تب تک ریٹیل پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔ غیر یقینی کی صورتحال میں نہ تو قیمتوں میں کمی آئے گی اور نہ برآمدات یا درآمدات میں اضافہ ہوگا۔
ڈالر کی قیمت میں کمی سے سویابین کی قیمت میں 235 روپے فی لیٹر کمی آئی مگر یہ فیکٹریوں سے صارف تک نہیں پہنچی۔ ڈالر کی قدر میں حالیہ کمی کا جائزہ لیں تو اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملتی۔ ڈالر کا 276 تک آنا پریکٹیکل نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ کمی نیچے تک منتقل نہیں ہوئی اور اب ڈالر پھر سے مہنگا ہونا شروع ہوگیا۔
ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ ڈالر خریدتے ہیں انہوں نے اپنے لیے خریدنے کی گنجائش بنائی، یہ سستا ہوا تو انہوں نے پھر سے خرید لیا اور ڈالر 281 پہ چلا گیا۔
6 دن پہلے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ بینک سے بھی کم تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حکومت اپنی رٹ قائم کرے تو چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں لیکن اب جیسے ہی ڈالر بڑھنا شروع ہوا ہے تو اوپن مارکیٹ میں اس کی قیمت زیادہ ہوجائے گی۔ میرے نزدیک ڈالر کو فری مارکیٹ نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ اسے کنٹرول کرنا چاہیے۔ اگر ڈالر کو 300 پر بھی روک لیا جائے تو معاملات میں بہتری آسکتی ہے۔
ہمارا بارڈر بہت بڑا ہے، اس میں سمگلنگ و دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنا بہت مشکل ہے لہٰذا اسے بہتر پالیسی بنا کر کم کیا جاسکتا ہے۔ ایران کا کوکنگ آئل لاہور میں بک رہا ہے حالانکہ یہ غیر قانونی ہے، یہ سمگل ہو کر آیا ہے، اس کی روک تھام کیلئے امپورٹ ڈیوٹی کو کم کر دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ٹیکس ریٹ میں بھی کمی لانی چاہیے۔
حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا ہے جبکہ بعض اشیاء کی تجارت روک دی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں ہمارے ہاں شرح سود زیادہ ہے، اسے کم کیا جائے، میرے نزدیک یہ 8 فیصد ہونی چاہیے تاکہ ہم بھارت و دیگر ممالک کا مقابلہ کر سکیں۔ ہمارے ہاں چاول بہت اچھا ہے لیکن بھارت نے عالمی مارکیٹ میں جگہ بنا رکھی ہے۔
بھارت نے چاول کی نئی قسم نکالی، 10 برس میں اس میں خوشبو نہیں آئی مگر ہمارے ہاں 3 برس میں چاول کی اس قسم میں خوشبو آگئی، یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ یہ زمین اچھی ہے۔ اسی طرح ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری بہترین ہے، اس کے پاس جدید مشینری اور سکلڈ ورکرز ہیں، روبوٹک مشینری تک لگ چکی ہے لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ وزیراعظم اور حکومت بہتر پالیسی بنا کر ملکی معیشت اور صنعت و تجارت کی ترقی کیلئے کام کریں گے۔
حافظ عارف
(صدر کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن پنجاب)
صارف کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہم مہنگی اشیاء فروخت کر رہے ہیں کیونکہ اس کا براہ راست تعلق ہمارے ساتھ ہے لیکن اس مہنگائی میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے، ہر چیز کی قیمت مقرر ہے، پرنٹ بھی ہوتی ہے، ہم اسی کے مطابق فروخت کرتے ہیں۔
میرے نزدیک مہنگائی کی وجہ بیڈ گورننس اور استحصالی نظام ہے، لوگوں کی قوت خرید ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔
ہمیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کم پیسے ہونے کی وجہ سے صارف بار بار بل کرواتا ہے اور اپنی ضرورت کی اشیاء بھی نکلوا دیتا ہے یا کم کر دیتا ہے تاکہ اس کے پاس موجود رقم کے حساب سے بل بن سکے۔
بدقسمتی سے غریب کیلئے بدترین مہنگائی ہے، حکومت نے تو آٹا، گھی، چینی کو بھی لگژری آئٹم سمجھ لیا ہے، لوگوں کیلئے ایک وقت کی روٹی کھانا مشکل ہوگیا ہے، بے روزگاری اور غربت نے گھروں میں ڈیرے ڈال لیے ہیں اور لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ڈالر کے حوالے سے بہت باتیں کی جاتی ہیں۔
میرے نزدیک ڈالر کے مہنگا ہونے سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک آسان بہانہ ہے جسے لگا کر اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ڈالر سستا ہونے کے بعد چائے، ڈبل روٹی و دیگر اشیاء کے ریٹس میں اضافہ کر دیا گیا، اگر ڈالر سے تعلق ہوتا تو پھر یہ قیمتیں کم ہونی چاہیے تھی۔ گھی کی قیمت کے حوالے سے ایک مسئلہ ہے۔
اس کے نرخ پیکٹ پر پرنٹ نہیں ہوتے۔ ویسے تو یہ قانون موجود ہے کہ ہر چیز کی قیمت پرنٹ کی جائے مگر گھی ملز مالکان نے عدالت سے حکم امتناع لے رکھا ہے۔ اب گھی کا ریٹ معیار کے مطابق نہیں بلکہ اب بہترین کوالٹی اور عام کوالٹی والے گھی کی قیمت میں معمولی سا فرق ہے۔
مہنگائی کے حوالے سے جب عوامی ردعمل آتا ہے تو حکومت ریٹیلرز پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیتی ہے، جگہ جگہ چھاپے مارے جاتے ہیں، جرمانے کیلئے جاتے ہیں لیکن اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ہول سیل مارکیٹ سے ہی مہنگے داموں اشیاء ملتی ہیں لہٰذا اگر حکومت صحیح معنوں میں مہنگائی کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو اسے ریٹیلرز سے زیادہ، ہول سیلر اور ملز مالکان کو کنٹرول کرنا ہوگا۔
میں نے وزیراعلیٰ کی زیر قیادت اعلیٰ سطحی میٹنگ میں بھی بتایا کہ سسٹم کے نقائص کیا ہیں، ڈالر کے سستا ہونے کے بعد بھی مہنگائی کم کیوں نہیں ہورہی اور حکومت کو کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات توجہ طلب ہے کہ پنجاب حکومت آٹے پر سبسڈی دینے جا رہی ہے، میرے نزدیک اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ 60 ارب روپے کی سبسڈی سے صرف 60 روپے کا فرق پڑے گا۔ مہنگائی کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر ڈپٹی کمشنر کے مقرر کردہ ریٹ الگ الگ ہیں۔
اضلاع کے درمیان 20 سے 50 روپے تک قیمتوں کا فرق ہے، اسے بھی دیکھنا ہوگا۔ میں پرائس کنٹرول کمیٹی کا رکن ہوں لیکن یہ فعال نہیں ہے، حالت یہ ہے کہ 33 رکنی کمیٹی کی نہ کوئی میٹنگ ہوئی اور نہ ہی کسی کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں مہنگائی پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے، اسی طرف توجہ دینا ہوگی۔