مہنگائی بے روزگاری ذہنی مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ
لوگ ڈپریشن، مایوسی، پریشانی، شدید غصہ اور چڑ چڑے پن کا شکارہونے لگے ، ذہنی مریضوں میں ہرسال 55 فیصد تک اضافہ
ملک میں جاری مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی انتشار کے باعث ذہنی مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا جب کہ ہرسال 40 فیصد سے55 فیصد تک اضافہ سامنے آ رہا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون اور روزنامہ ایکسپریس کو حاصل دستاویزات کے مطابق اس ذہنی بیماری میں ڈپریشن، اداسی، مایوسی، پریشانی، شدید غصہ، چڑ چرا پن، طبیعت میں تیزی، نیند اڑ جانا، الٹے سیدھے خیالات آنا شامل ہیں۔ اس سارے عمل میں مریض ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔
ریکارڈ کے مطابق لاہور میں اس کی شرح ایک فیصد سے زائد ہے جبکہ ڈپریشن کی بیماری اور دیگر کی شرح 10 سے15 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پٹرول کی قیمت میں کمی کے باوجود مہنگائی کا جن بے قابو
دوسری جانب ذہنی تناؤ۔ دباؤ اور نفسیاتی الجھنوں کے باعث پنجاب کے واحد ادارے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے 1200 کے قریب مریض آتے ہیں جن میں سے 40 سے 50 کو روزانہ اسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے جبکہ اتنی کثیر تعداد میں مریضوں اسپتال میں سہولیات کا فقدان ہیں ڈاکٹر سے لے کر پیرا میڈیکل اسٹاف اور بینڈز کی کمی ہے۔
گزشتہ تین سالوں میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ 2020 میں یہ تعداد 1 لاکھ 70 ہزار تھی جو 2021 میں بڑھ کر 2 لاکھ تک چلی گئی جبکہ 2022 میں یہ تعداد مزید بڑھ کر 2 لاکھ 50 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ ڈاکٹر شکیل احمد مونگا کا کہنا ہے کہ صوبے کے واحد ادارے میں سہولیات کا فقدان ہے۔ اسپتال میں ٹوٹل بیڈز 1530 ہیں جن میں سے 1100 پر مریض داخل رہتے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون اور روزنامہ ایکسپریس کو حاصل دستاویزات کے مطابق اس ذہنی بیماری میں ڈپریشن، اداسی، مایوسی، پریشانی، شدید غصہ، چڑ چرا پن، طبیعت میں تیزی، نیند اڑ جانا، الٹے سیدھے خیالات آنا شامل ہیں۔ اس سارے عمل میں مریض ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔
ریکارڈ کے مطابق لاہور میں اس کی شرح ایک فیصد سے زائد ہے جبکہ ڈپریشن کی بیماری اور دیگر کی شرح 10 سے15 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پٹرول کی قیمت میں کمی کے باوجود مہنگائی کا جن بے قابو
دوسری جانب ذہنی تناؤ۔ دباؤ اور نفسیاتی الجھنوں کے باعث پنجاب کے واحد ادارے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے 1200 کے قریب مریض آتے ہیں جن میں سے 40 سے 50 کو روزانہ اسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے جبکہ اتنی کثیر تعداد میں مریضوں اسپتال میں سہولیات کا فقدان ہیں ڈاکٹر سے لے کر پیرا میڈیکل اسٹاف اور بینڈز کی کمی ہے۔
گزشتہ تین سالوں میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ 2020 میں یہ تعداد 1 لاکھ 70 ہزار تھی جو 2021 میں بڑھ کر 2 لاکھ تک چلی گئی جبکہ 2022 میں یہ تعداد مزید بڑھ کر 2 لاکھ 50 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ ڈاکٹر شکیل احمد مونگا کا کہنا ہے کہ صوبے کے واحد ادارے میں سہولیات کا فقدان ہے۔ اسپتال میں ٹوٹل بیڈز 1530 ہیں جن میں سے 1100 پر مریض داخل رہتے ہیں۔