قاتل ریاست کی عالمی پشت پناہی

عالمی برادری اسرائیل سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم اور ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ ختم کروائے

عالمی برادری اسرائیل سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم اور ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ ختم کروائے۔ فوٹو: جنرل اسمبلی

اسرائیل نے غزہ میں القدس اسپتال کو خالی کرنے کی دھمکی دینے کے چند گھنٹوں بعد ہی اس کے آس پاس کے علاقے پر بمباری کر کے کئی عمارتوں کو کھنڈر بنا دیا جب کہ ایک مسافر بس کو بھی نشانہ بنایا۔ گزشتہ تیئس روز کے دوران اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد آٹھ ہزار ہوگئی ، جب کہ بیس ہزار کے قریب زخمی ہیں۔

غزہ پر اندھا دھند بمباری جاری ہے اور زمینی حملے کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا ہے، غزہ میں جنگی جرائم عروج پر ہیں اس کے باوجود امریکا و دیگر مغربی ممالک صیہونیوں کی مکمل حمایت کے ساتھ ساتھ دفاع کا حق دینے پر بضد ہیں، گویا حکومتوں کے سیاسی مفادات کی وجہ سے اخلاقیات کا معیار بدل جاتا ہے۔

انسانیت، انسانی حقوق، خواتین، بچوں اور خاندان کی قدر صرف وہاں تسلیم کی جاتی ہے جب سپر پاور طاقتوں کے مفادات اور خواہشات کو یقینی بنانا منظور ہوتا ہے۔ آج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسا باوقار ادارہ مغربی طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا ہے۔

جنگ بندی کے بارے میں پیش ہونے والی قراردادوں کو منٹوں میں ویٹو کیا جاتا ہے اور فلسطینیوں کے قتل عام کی کھلم کھلا حمایت کی جاتی ہے۔ بچوں کے قتل عام میں ملوث صہیونی حکومت کی حمایت کرنے سے شرم محسوس نہیں کی جاتی ہے۔

غزہ کی جنگ نے پہلے سے کہیں زیادہ ثابت کردیا ہے کہ آج کی دنیا قوانین، کنونشنز اور انسانی حقوق کی دنیا نہیں بلکہ تعصب اور تشدد کی دنیا ہے۔ آج، پہلے سے کہیں زیادہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مغرب اپنے دعوؤں پر عمل کرنے اور پابند ہونے میں نہایت کمزور ہے۔

انسانی حقوق، جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی جیسے سنہرے اصولوں کا سہارا لے کر رائے عامہ کو دھوکا دیا جاتا ہے۔

یہ ان کے لیے اپنے مقاصد کے حصول اور اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے اور شاید یہ مغرب کا دہرا معیار ہی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں عالمی عدم استحکام، تصادم اور جنگ کی فضا قائم ہے۔ علاوہ ازیں وہ نہ صرف اسرائیلی حکومت کو جنگ میں بین الاقوامی قوانین کے قواعد و ضوابط کی پابندی پر مجبور نہیں کرتے بلکہ وہ اس غاصب اور مجرمانہ حکومت کو سیاسی اور عسکری طور پر حمایت اور پشت پناہی دیتے ہیں۔

فلسطینی تنازعہ کو 75 سال مکمل ہو چکے ہیں اور اس عرصہ میں ہزاروں بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں، جو کبھی فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم پر نہیں بولے۔ اب جب فلسطینیوں نے اپنا بدلہ لیا تو ان سب کی بینائی لوٹ آئی ہے اور اسرائیل کو مظلوم اور حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس حملے کی مذمت کر رہے ہیں، جب کہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ صرف اور صرف ردعمل ہے۔

ان مظالم کا جو اسرائیل 75 برس سے فلسطینی مسلمانوں پر ڈھا رہا ہے اور پوری دنیا سب کچھ جانتے اور بوجھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے ہوئے نہ صرف تماشا دیکھ رہی ہے بلکہ انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیدار اسرائیل کی باقاعدہ پشت پناہی بھی کر رہے ہیں۔ نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کے لیے وہ اسرائیل کو اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بھی دے رہے ہیں۔

امریکا نے تونہ صرف حماس کی طرف سے ہونے والے حملوں کی مذمت کی ہے بلکہ اس نے اسرائیل کو مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اب اس نے اسرائیل کی مدد کے لیے بحری بیڑہ بھیجنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام میں تو امریکا کا براہ راست ہاتھ تھا، اس کے بعد بھی تمام انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود اسے بے تحاشا امداد دی اور اس قابل بنادیا کہ وہ خطرناک ہتھیار نہ صرف تیار کررہا ہے بلکہ دیگر ممالک کو فروخت بھی کررہا ہے۔

اب امریکا ایک بار پھر اسرائیل کی ناجائز پشت پناہی کرتے ہوئے اس کی جنگ میں کود رہا ہے اور نہتے فلسطینیوں کو شہید کرنے میں اس کا کھل کر ساتھ دے رہا ہے۔ جو ظلم کی ایک بدترین مثال ہے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس اب بھی اسرائیل کی مدد کرنے کا برملا اعلان کررہے ہیں، جس سے ان کا مسلمانوں کے خلاف بغض اور تعصب صاف ظاہر ہوتا ہے۔


جرمنی اور فرانس کے کئی کلب نے اپنے کھلاڑیوں کو فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی کے جرم میں پریکٹس میچ سے محروم کردیا ہے، اس کے علاوہ فرانسیسی پارلیمانی نمایندے ڈینیل اوبونو کے خلاف صرف ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران ان کے بیانات کی وجہ سے مقدمہ چلایا گیا ہے جس میں انھوں نے فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کی تھی۔

فرانسیسی وزیر داخلہ کی جانب سے ان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا گیا تھا کیونکہ ان کا جرم فقط اتنا تھا کہ اس انٹرویو کے دوران حماس کو دہشت گرد گروپ نہیں کہا تھا۔ دوسری جانب اسرائیلی پارلیمنٹ کی اخلاقیات کمیٹی نے اپنے ایک رکن کو معطل کردیا جنھوں نے ایک انٹرویو میں غزہ میں نیتن یاہو حکومت کے اقدامات کا موازنہ یورپ میں یہودیوں کے خلاف نازیوں کے اقدامات سے کیا تھا اور تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس حوالے سے ایک اور مثال یہ ہے کہ بی بی سی نے اپنے نامہ نگار کو فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کے جرم میں معطل کردیا ہے۔ چینل کے سابق اہلکار نے انکشاف کیا ہے کہ اب تک بی بی سی نے عربی شعبے کے چھے ملازمین کو فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کے جرم میں معطل کردیا ہے۔

اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے اور پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ کہتا ہے وہ اب جلاوطن پناہ گزینوں کو واپسی کی اجازت نہیں دے رہا بلکہ مزید فلسطینیوں کو ان کی زمین ہتھیانے اور یہودیوں کی آبادکاری کے لیے جبری طور پر بے دخل کر رہا ہے۔

فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تین معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ غرب اْردن اور غزہ کی پٹی کا کتنا حصہ فلسطین کو دیا جائے؟ بیت القدس کیسے تقسیم کیا جائے؟ بے دخل فلسطینیوں کی آبادکاری کہاں اور کیسے کی جائے؟ بہترین، منصفانہ اور حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ غرب اردن اور غزہ کی پٹی مکمل فلسطین کے حوالے کیے جائیں، بہتر تو یہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت دی جائے تاہم ان کے سابقہ گھر اسرائیل میں آگئے ہیں اور اسرائیل یہ ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔

بدقسمتی سے ماضی میں عالمی طاقتیں فلسطینیوں پر اسرائیلی قبضے اور ظلم و ستم کو دوام اور حمایت مہیا کرتی رہی ہیں۔ سابقہ ٹرمپ انتظامیہ نے تو حد کردی۔

اس نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا، فلسطینی رقبے پر یہودیوں کی مزید بستیاں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکا سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا استعمال کرکے اسرائیل کو کئی بار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی، فلسطینیوں کے خلاف تشدد، ان کی زمینیں ہتھیانے، ان کے مکانات منہدم کرنے، انھیں بے دخل کرنے اور یہودیوں کی غیرقانونی آبادکاری پر مذمتی قراردادوں، پابندیوں اور سزا سے بھی بچاتا آیا ہے۔

جنگِ عظیم سے قبل یہود بڑی تعداد میں جرمنی میں آباد تھے، ہٹلر نے ان کا قتلِ عام کر کے باقی ماندہ کو وہاں سے نکالا تو دنیا کا کوئی ملک انھیں پناہ دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس کی وجہ ان کی چالاکی ومکاری، دھوکا دہی و غداری، بے وفائی و ناشکری وغیرہ تھی، حتیٰ کہ جب برطانیہ کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ یہ برطانیہ آکر نہ بس جائیں تو اس نے ان سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں کی وحدت کو توڑنے کے لیے '' ایک پنتھ دو کاج'' کے مصداق ارضِ فلسطین میں انھیں بسانے کا فیصلہ کیا، لیکن اپنی فطرت کے بموجب انھوں نے فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ جمانا شروع کردیا، نوبت بایں جا رسید کہ 1948 میں اقوامِ متحدہ نے عرب کے سینے میں اسرائیلی خنجر گھونپ کر فلسطین کے دو ٹکڑے کر دیے اور ''اسرائیل'' نامی ناگ قبلہ اول کے خزانے پر اپنا پھن پھیلا کر قابض ہوگیا۔

ارضِ فلسطین پر قابض ہونے کے بعد ''اسرائیل'' نے آگ و خون کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ تاحال جاری ہے۔ اسرائیل 1956میں مصر کی نہر سوئز کا مدعی بنا، 1967میں اس نے عربوں سے خوفناک جنگ لڑی اور القدس کو محاورتاً نہیں، بلکہ حقیقتاً اپنے ظلم و جبر کی آگ میں جھونک دیا۔

اہلِ فلسطین یہود کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے مادی وسائل کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود آج تک نبرد آزما ہیں، لیکن مسلم حکمران جو ایٹمی طاقت، تیل کی دولت اور بے شمار وسائل و اسلحہ سے مالا مال اور لیس ہیں، اسرائیل سے قبلہ اول نہیں چھڑا سکے ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ عالمی برادری اسرائیل سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم اور ان کی زمینیں ہتھیانے کا سلسلہ ختم کروائے، تمام مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کروائے اور ریاست فلسطین کو تسلیم کروائے۔ دو ریاستی حل، انصاف اور پرامن بقائے باہمی ہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔

اس موقعے پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے فریقین میں جنگ بندی کروائیں تاکہ معصوم جانیں اور املاک نقصان سے بچ جائیں۔ اس کے بعد فلسطین اسرائیل تنازعہ کے اس دیرینہ مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story