کرکٹ ورلڈکپ 2023
پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی کی انتہا یہ ہے کہ وہ افغانستان کی ٹیم سے بھی بُری طرح ہارگئی
اپنا لڑکپن یاد آرہا ہے جب سارا زور پڑھائی لکھائی پر ہوا کرتا تھا اور کھیل کود کو وقت کا ضیاع سمجھا جاتا تھا۔ بزرگوں کا کہنا تھا '' پڑھو گے، لکھو گے، بنو گے نواب، کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب۔
اُس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب معاملہ اِس کے بالکل الٹ ہو جائے گا۔ اُس زمانہ میں نوکریاں اور ملازمتیں اچھی تعلیم کی بنیاد پر ملا کرتی تھیں۔ پڑھے لکھے خوشحال زندگی گزارتے تھے اور کھلاڑی جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے پھر یوں ہوا کہ صورتحال اِس کے برعکس ہوگئی۔
سرکاری اور نجی اداروں میں کھلاڑیوں کو ترجیح دی جانے لگی اور اِس طرح کھیلوں کے فروغ کا آغاز ہوا۔کرکٹ اور ہاکی تمام کھیلوں میں سرِفہرست ہوگئے۔ اِس کے بعد دیگر کھیلوں کا مقام تھا۔ یہ گویا پروفیشنل ازم کی ابتدا تھی جس کے نتیجہ میں کرکٹ، ہاکی اور فٹبال جیسے مقبول کھیلوں کی پذیرائی ہوئی۔ دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر کھیلوں نے وہ مقام حاصل کیا جس کا پہلے تصور بھی محال تھا۔
کرکٹ کو کمرشلائز کرنے کا سہرا کیری پیکر کے سَر ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کھلاڑی نواب بن رہے ہیں۔ کرکٹ سے ہونے والی آمدنی اتنی زیادہ ہے جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا اور الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے اشتہارات آمدنی کا ایک اور بڑا ذریعہ ہیں، عزت اور شہرت اِس کے علاوہ ہیں۔ مختصر یہ کہ وارے نیارے ہیں۔
اِس پر بھی اگر کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی نہ دکھا سکے تو اُس کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔اب آتے ہیں ہم اپنے اصل موضوع یعنی ورلڈ کپ 2023 کی جانب جس میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو شکستِ فاش ہوئی ہے۔ اِس کالم کے سپردِ قلم کرنے کے وقت تک ہماری ٹیم اپنی ہار کی ہیٹ ٹرِک مکمل کرچکی ہے۔
اِس سے انکار ممکن نہیں کہ ہار جیت ہر مقابلہ کا حصہ ہے لیکن اگر شکست کی وجہ مطلق لاپرواہی، کوتاہی، سستی، کاہلی اور غیر ذمے داری ہو تو اِس کا کیا جواز ہے۔ 1992 کی یاد تازہ ہو رہی ہے جب ہماری فاتح ٹیم وکٹری اسٹینڈ پر سَر اُٹھائے ہوئے کھڑی تھی اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہماری شکست خوردہ ٹیم سَر جھکائے ہوئے عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑی ہوئی ہے۔
پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی کی انتہا یہ ہے کہ وہ افغانستان کی ٹیم سے بھی بُری طرح ہارگئی جسے ہماری ٹیم نے کرکٹ کھیلنا سکھایا تھا۔ اپنی ٹیم کی اِس درجہ ناقص کارکردگی پر پوری قوم افسردہ اور دِل برداشتہ ہے۔
اُس کی اِس شکست سے پاکستانیوں کے دل ٹوٹ گئے ہیں اور اُن کے چہروں سے افسردگی اور پژمردگی صاف عیاں ہے۔ غورکرنے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کی شرکت سے پہلے اُسے سری لنکا کے طویل دورے پر روانہ کردیا گیا جہاں غیر موافق آب وہوا اور موسم کے لحاظ سے اُس کی ہمت پست ہوگئی اور قویٰ بوجھل ہوگئے۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ نے بھارتی بورڈ کے منتظمین سے درخواست کی تھی کہ پاکستانی کرکٹ شائقین کے لیے میچ کو دیکھنے کی غرض سے بھارت کے ویزے جاری کیے جائیں جس پر بھارت کی جانب سے جواب دیا گیا تھا کہ وقت آنے پر جتنے ویزے درکار ہوں گے وہ جاری کردیے جائیں گے۔
چناچہ اِس وعدے کی بنا پر پی سی بی مطمئن ہو کر بیٹھ گیا لیکن ہوا یہ کہ وقت آنے پر جب بھارتی کرکٹ بورڈ کے اربابِ اختیار سے پاکستانیوں کو ویزے جاری کیے جانے کو کہا گیا تو بھارتی منتظمین نے انتہائی وعدہ خلافی کرتے ہوئے ٹکا سا جواب دے دیا اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہوئی کہ آئی سی سی نے بھی اِس معاملہ میں کوئی مداخلت کرنے کے بجائے چُپ سادھ لی پھر جب میچ شروع ہوا تو احمد آباد کرکٹ اسٹیڈیم جو ایک لاکھ کے قریب بھارتی تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
جے ہند اور جے شری رام کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جواب میں جب '' پاکستان زندہ باد '' کے نعرے کی گونج سنائی دی تو گنتی کے چند پاکستانی شائقین پر بھارتی پولیس مین بھوکے کتوں کی طرح چڑھ دوڑے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کا ہی دل گردہ تھا کہ انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا ورنہ اگر اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میدان چھوڑ دیتا۔
اِس پر اقبال کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اُس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب معاملہ اِس کے بالکل الٹ ہو جائے گا۔ اُس زمانہ میں نوکریاں اور ملازمتیں اچھی تعلیم کی بنیاد پر ملا کرتی تھیں۔ پڑھے لکھے خوشحال زندگی گزارتے تھے اور کھلاڑی جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے پھر یوں ہوا کہ صورتحال اِس کے برعکس ہوگئی۔
سرکاری اور نجی اداروں میں کھلاڑیوں کو ترجیح دی جانے لگی اور اِس طرح کھیلوں کے فروغ کا آغاز ہوا۔کرکٹ اور ہاکی تمام کھیلوں میں سرِفہرست ہوگئے۔ اِس کے بعد دیگر کھیلوں کا مقام تھا۔ یہ گویا پروفیشنل ازم کی ابتدا تھی جس کے نتیجہ میں کرکٹ، ہاکی اور فٹبال جیسے مقبول کھیلوں کی پذیرائی ہوئی۔ دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر کھیلوں نے وہ مقام حاصل کیا جس کا پہلے تصور بھی محال تھا۔
کرکٹ کو کمرشلائز کرنے کا سہرا کیری پیکر کے سَر ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کھلاڑی نواب بن رہے ہیں۔ کرکٹ سے ہونے والی آمدنی اتنی زیادہ ہے جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا اور الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے اشتہارات آمدنی کا ایک اور بڑا ذریعہ ہیں، عزت اور شہرت اِس کے علاوہ ہیں۔ مختصر یہ کہ وارے نیارے ہیں۔
اِس پر بھی اگر کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی نہ دکھا سکے تو اُس کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔اب آتے ہیں ہم اپنے اصل موضوع یعنی ورلڈ کپ 2023 کی جانب جس میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو شکستِ فاش ہوئی ہے۔ اِس کالم کے سپردِ قلم کرنے کے وقت تک ہماری ٹیم اپنی ہار کی ہیٹ ٹرِک مکمل کرچکی ہے۔
اِس سے انکار ممکن نہیں کہ ہار جیت ہر مقابلہ کا حصہ ہے لیکن اگر شکست کی وجہ مطلق لاپرواہی، کوتاہی، سستی، کاہلی اور غیر ذمے داری ہو تو اِس کا کیا جواز ہے۔ 1992 کی یاد تازہ ہو رہی ہے جب ہماری فاتح ٹیم وکٹری اسٹینڈ پر سَر اُٹھائے ہوئے کھڑی تھی اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہماری شکست خوردہ ٹیم سَر جھکائے ہوئے عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑی ہوئی ہے۔
پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی کی انتہا یہ ہے کہ وہ افغانستان کی ٹیم سے بھی بُری طرح ہارگئی جسے ہماری ٹیم نے کرکٹ کھیلنا سکھایا تھا۔ اپنی ٹیم کی اِس درجہ ناقص کارکردگی پر پوری قوم افسردہ اور دِل برداشتہ ہے۔
اُس کی اِس شکست سے پاکستانیوں کے دل ٹوٹ گئے ہیں اور اُن کے چہروں سے افسردگی اور پژمردگی صاف عیاں ہے۔ غورکرنے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کی شرکت سے پہلے اُسے سری لنکا کے طویل دورے پر روانہ کردیا گیا جہاں غیر موافق آب وہوا اور موسم کے لحاظ سے اُس کی ہمت پست ہوگئی اور قویٰ بوجھل ہوگئے۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ نے بھارتی بورڈ کے منتظمین سے درخواست کی تھی کہ پاکستانی کرکٹ شائقین کے لیے میچ کو دیکھنے کی غرض سے بھارت کے ویزے جاری کیے جائیں جس پر بھارت کی جانب سے جواب دیا گیا تھا کہ وقت آنے پر جتنے ویزے درکار ہوں گے وہ جاری کردیے جائیں گے۔
چناچہ اِس وعدے کی بنا پر پی سی بی مطمئن ہو کر بیٹھ گیا لیکن ہوا یہ کہ وقت آنے پر جب بھارتی کرکٹ بورڈ کے اربابِ اختیار سے پاکستانیوں کو ویزے جاری کیے جانے کو کہا گیا تو بھارتی منتظمین نے انتہائی وعدہ خلافی کرتے ہوئے ٹکا سا جواب دے دیا اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہوئی کہ آئی سی سی نے بھی اِس معاملہ میں کوئی مداخلت کرنے کے بجائے چُپ سادھ لی پھر جب میچ شروع ہوا تو احمد آباد کرکٹ اسٹیڈیم جو ایک لاکھ کے قریب بھارتی تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
جے ہند اور جے شری رام کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جواب میں جب '' پاکستان زندہ باد '' کے نعرے کی گونج سنائی دی تو گنتی کے چند پاکستانی شائقین پر بھارتی پولیس مین بھوکے کتوں کی طرح چڑھ دوڑے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کا ہی دل گردہ تھا کہ انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا ورنہ اگر اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میدان چھوڑ دیتا۔
اِس پر اقبال کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی