ضمیر یا ذاتی مفادات کے قیدی
مفرور رہنماؤں کا ضمیر بھی مہینوں بعد جاگنے لگا ہے
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے اپنے چیئرمین کو ضمیرکا قیدی قرار دے کر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اب سیاستدانوں کے بجائے پارٹی کے نئے حامی وکلا پر مشتمل ہے اور وکلا کا کام ہی اپنے موکل کو بے گناہ بتانا اور انھیں سزا سے بچانا ہوتا ہے۔
اس لیے صرف پی ٹی آئی کے وکلا ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر نیب کیسز دوبارہ کھل جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے وکلا بھی اپنے اپنے پارٹی رہنماؤں کو عدالتوں سے بری کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور عدالتوں میں اپنے رہنماؤں کی بے گناہی کے ثبوت پیش کر رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کے یہ حامی اپنے چیئرمین کی عدالتوں میں بے گناہی کا ثبوت پیش کرنے کے بجائے خود جج بن کر اپنے چیئرمین کی بے گناہی کے فیصلے سنا رہے ہیں۔
اس لیے وہ ٹاک شوز میں پی ٹی آئی مخالف رہنماؤں کو دباؤ میں لانے کے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے روپوش رہنما اپنی گرفتاری نہیں دے رہے مگر سوشل میڈیا کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے روپوشی میں بیانات ضرور دے رہے ہیں اور جن کو ملک سے فرار ہونے کا موقعہ مل گیا ہے۔
مفرور رہنماؤں کا ضمیر بھی مہینوں بعد جاگنے لگا ہے جن کا ابھی نہیں جاگا انھیں اپنے چیئرمین اور پارٹی سے زیادہ اپنے بچاؤ کی فکر ہے مگر سیاسی طور پر اپنی موجودگی دکھانے کے لیے وہ بیان ضرور داغ رہے ہیں مگر گرفتاری سے محفوظ رہنے کے لیے ان کے پاس پنجاب اور کے پی میں اپنے ہی لوگوں کے دو پلیٹ فارم بھی موجود ہیں جہاں آ کر وہ اپنی سیاست برقرار رکھ سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے اکثر سابق رہنماؤں نے سیاسی مصلحت کے تحت خاموشی مکمل طور پر اختیار کر رکھی ہے اور بعض اپنے نرم بیانات سے پارٹی میں بھی ہیں اور انھوں نے خود کو محفوظ بھی کر رکھا ہے اور بعض حالات کی بہتری کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ صورت حال دیکھ کر اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کریں یا پارٹی ہی میں رہ کر اپنی سیاست بچا سکیں۔
پی ٹی آئی کے جن رہنماؤں نے سیاست سے علیحدگی یا پارٹی اور سیاست دونوں سے دوری اختیار کر رکھی ہے وہ دہری پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کی پارٹی کو اس وقت ضرورت ہے مگر جیلوں میں رہ کر قیدیوں جیسی زندگی گزارنا ان کے لیے مشکل ہے۔
اس لیے وہ الیکشن تک خاموش، غائب اور مفرور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں ورنہ حکومت میں ہوتے ہوئے نہ زبانوں پر کنٹرول تھا نہ ہاتھ قابو میں تھے اور ایک وزیر نے تو وزارت کے نشے میں اپنی ہی پارٹی کے حامی دو اینکروں کی پٹائی کر دی تھی اور بعض ٹاک شوز میں لڑ پڑتے تھے۔
ملک کی تینوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مکمل طور پر حکومت میں رہی ہیں جب کہ جے یو آئی، اے این پی، ایم کیو ایم، (ق) لیگ اور دوسرے بھی شریک اقتدار رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کے وزیروں اور رہنماؤں نے پہلی بار اقتدار میں آ کر وہ کچھ کر دکھایا ہے جو تین بار حکومت کرنے والی (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما بھی نہ کر سکے تھے۔
تین بار حکومت کرنے والی پارٹیوں کے وزیر اور رہنما پھر بھی زبان کنٹرول میں رکھتے تھے مگر بعض نے کرپشن میں بھی ہاتھ رنگے مگر انھوں نے اپنی قیادت کی گرفتاری پر اشتعال دکھایا نہ بدزبانی کی نہ عسکری تنصیبات پر حملے کیے۔
ان کے محتاط رویوں سے انھیں اس صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا نہ انھوں نے پی ٹی آئی والوں کی طرح سیاسی وفاداریاں بدلیں اور نہ وہ جیلوں اور قید سے گھبرائے بلکہ انھوں نے جنرل پرویز مشرف سے پی ٹی آئی حکومت تک قیدیں اور سیاسی تشدد اور حکومتی انتقام ضرور برداشت کیے اور سرخرو رہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین سابق اتحادی حکومت یا نگرانوں کے عتاب کا شکار نہیں بلکہ اتحادی حکومت تو عدالتوں کے باعث چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرنے کی جرأت بھی نہیں کرتی تھیں اور 9مئی کو گرفتار ہونے والے چیئرمین اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ذاتی مہمان بن کر نہ صرف رہا ہوئے بلکہ اتحادی حکومت کو انھیں چیف جسٹس کے حکم پر مکمل حفاظت اور پروٹوکول میں زمان پارک پہنچانا پڑا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی وکالت میں مصروف نئے اور پرانے وکلا کور کمیٹی میں بڑی دورکی کوڑی لائے اور انھیں ضمیر کا قیدی بنا دیا۔
ضمیر کے قیدی اسیروں نے ذاتی مفادات یا عہدوں کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت، آئین و قانون کی بالادستی، آمریت کی مخالفت یا حکومتی انتقام اور بعض نے مبینہ کرپشن کے الزامات کے تحت سالوں اور مہینوں قید میں صعوبتیں برداشت کی تھیں ان میں کسی پر توشہ خانے کے قیمتی تحفے فروخت کرنے کے الزامات تھے نہ القادر ٹرسٹ کے لیے زمینیں ہتھیانے کے۔ کسی سابق وزیر اعظم نے اپنے اقتدار میں بند لفافے کی منظوری نہیں لی تھی اور اقتدارکے نشے میں اپنے سیاسی مخالفین کو کھلے عام دھمکیاں دی تھیں اور نہ ہی کوئی جھوٹا ہوتے ہوئے عدالتی صادق و امین قرار پایا تھا اور نہ ہی کسی کو عدلیہ سے بے دریغ عنایات ملی تھیں۔
حالانکہ سابق وزرائے اعظم نے حکومتی کارکردگی سے عوام کو ریلیف بھی دیا تھا جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس کارکردگی دکھانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں نہ انھوں نے عوام سے کیے گئے وعدے پورے کیے تو وہ ضمیر کے قیدی کیسے قرار دیے جاسکتے ہیں اور ان کے کیسز کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اب سیاستدانوں کے بجائے پارٹی کے نئے حامی وکلا پر مشتمل ہے اور وکلا کا کام ہی اپنے موکل کو بے گناہ بتانا اور انھیں سزا سے بچانا ہوتا ہے۔
اس لیے صرف پی ٹی آئی کے وکلا ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر نیب کیسز دوبارہ کھل جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے وکلا بھی اپنے اپنے پارٹی رہنماؤں کو عدالتوں سے بری کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور عدالتوں میں اپنے رہنماؤں کی بے گناہی کے ثبوت پیش کر رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کے یہ حامی اپنے چیئرمین کی عدالتوں میں بے گناہی کا ثبوت پیش کرنے کے بجائے خود جج بن کر اپنے چیئرمین کی بے گناہی کے فیصلے سنا رہے ہیں۔
اس لیے وہ ٹاک شوز میں پی ٹی آئی مخالف رہنماؤں کو دباؤ میں لانے کے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے روپوش رہنما اپنی گرفتاری نہیں دے رہے مگر سوشل میڈیا کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے روپوشی میں بیانات ضرور دے رہے ہیں اور جن کو ملک سے فرار ہونے کا موقعہ مل گیا ہے۔
مفرور رہنماؤں کا ضمیر بھی مہینوں بعد جاگنے لگا ہے جن کا ابھی نہیں جاگا انھیں اپنے چیئرمین اور پارٹی سے زیادہ اپنے بچاؤ کی فکر ہے مگر سیاسی طور پر اپنی موجودگی دکھانے کے لیے وہ بیان ضرور داغ رہے ہیں مگر گرفتاری سے محفوظ رہنے کے لیے ان کے پاس پنجاب اور کے پی میں اپنے ہی لوگوں کے دو پلیٹ فارم بھی موجود ہیں جہاں آ کر وہ اپنی سیاست برقرار رکھ سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے اکثر سابق رہنماؤں نے سیاسی مصلحت کے تحت خاموشی مکمل طور پر اختیار کر رکھی ہے اور بعض اپنے نرم بیانات سے پارٹی میں بھی ہیں اور انھوں نے خود کو محفوظ بھی کر رکھا ہے اور بعض حالات کی بہتری کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ صورت حال دیکھ کر اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کریں یا پارٹی ہی میں رہ کر اپنی سیاست بچا سکیں۔
پی ٹی آئی کے جن رہنماؤں نے سیاست سے علیحدگی یا پارٹی اور سیاست دونوں سے دوری اختیار کر رکھی ہے وہ دہری پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کی پارٹی کو اس وقت ضرورت ہے مگر جیلوں میں رہ کر قیدیوں جیسی زندگی گزارنا ان کے لیے مشکل ہے۔
اس لیے وہ الیکشن تک خاموش، غائب اور مفرور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں ورنہ حکومت میں ہوتے ہوئے نہ زبانوں پر کنٹرول تھا نہ ہاتھ قابو میں تھے اور ایک وزیر نے تو وزارت کے نشے میں اپنی ہی پارٹی کے حامی دو اینکروں کی پٹائی کر دی تھی اور بعض ٹاک شوز میں لڑ پڑتے تھے۔
ملک کی تینوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مکمل طور پر حکومت میں رہی ہیں جب کہ جے یو آئی، اے این پی، ایم کیو ایم، (ق) لیگ اور دوسرے بھی شریک اقتدار رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کے وزیروں اور رہنماؤں نے پہلی بار اقتدار میں آ کر وہ کچھ کر دکھایا ہے جو تین بار حکومت کرنے والی (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما بھی نہ کر سکے تھے۔
تین بار حکومت کرنے والی پارٹیوں کے وزیر اور رہنما پھر بھی زبان کنٹرول میں رکھتے تھے مگر بعض نے کرپشن میں بھی ہاتھ رنگے مگر انھوں نے اپنی قیادت کی گرفتاری پر اشتعال دکھایا نہ بدزبانی کی نہ عسکری تنصیبات پر حملے کیے۔
ان کے محتاط رویوں سے انھیں اس صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا نہ انھوں نے پی ٹی آئی والوں کی طرح سیاسی وفاداریاں بدلیں اور نہ وہ جیلوں اور قید سے گھبرائے بلکہ انھوں نے جنرل پرویز مشرف سے پی ٹی آئی حکومت تک قیدیں اور سیاسی تشدد اور حکومتی انتقام ضرور برداشت کیے اور سرخرو رہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین سابق اتحادی حکومت یا نگرانوں کے عتاب کا شکار نہیں بلکہ اتحادی حکومت تو عدالتوں کے باعث چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرنے کی جرأت بھی نہیں کرتی تھیں اور 9مئی کو گرفتار ہونے والے چیئرمین اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ذاتی مہمان بن کر نہ صرف رہا ہوئے بلکہ اتحادی حکومت کو انھیں چیف جسٹس کے حکم پر مکمل حفاظت اور پروٹوکول میں زمان پارک پہنچانا پڑا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی وکالت میں مصروف نئے اور پرانے وکلا کور کمیٹی میں بڑی دورکی کوڑی لائے اور انھیں ضمیر کا قیدی بنا دیا۔
ضمیر کے قیدی اسیروں نے ذاتی مفادات یا عہدوں کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت، آئین و قانون کی بالادستی، آمریت کی مخالفت یا حکومتی انتقام اور بعض نے مبینہ کرپشن کے الزامات کے تحت سالوں اور مہینوں قید میں صعوبتیں برداشت کی تھیں ان میں کسی پر توشہ خانے کے قیمتی تحفے فروخت کرنے کے الزامات تھے نہ القادر ٹرسٹ کے لیے زمینیں ہتھیانے کے۔ کسی سابق وزیر اعظم نے اپنے اقتدار میں بند لفافے کی منظوری نہیں لی تھی اور اقتدارکے نشے میں اپنے سیاسی مخالفین کو کھلے عام دھمکیاں دی تھیں اور نہ ہی کوئی جھوٹا ہوتے ہوئے عدالتی صادق و امین قرار پایا تھا اور نہ ہی کسی کو عدلیہ سے بے دریغ عنایات ملی تھیں۔
حالانکہ سابق وزرائے اعظم نے حکومتی کارکردگی سے عوام کو ریلیف بھی دیا تھا جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس کارکردگی دکھانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں نہ انھوں نے عوام سے کیے گئے وعدے پورے کیے تو وہ ضمیر کے قیدی کیسے قرار دیے جاسکتے ہیں اور ان کے کیسز کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔