احتجاجی سیاست میں تیزی

پی پی پی کے منتخب نمائندوں کی عوامی مسائل کے حل میں عدم دل چسپی

پارٹیز الائنس کے تحت نساسک انتظامیہ کے خلاف احتجاج کا ایک منظر۔ فوٹو : فائل

گذشتہ ایک ماہ سے مختلف سیاسی ایشوز پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں، مذہبی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور وفاقی حکومت سمیت پی پی پی پر بھی سندھ میں اس کے مخالفین کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔

پچھلے ہفتے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے خلاف سکھر سمیت بالائی سندھ میں مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی اور تجارتی تنظیمیں سراپا احتجاج نظر آئیں۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں اہلِ بیت کی شان میں گستاخی کی گئی ہے، جو ناقابلِ برداشت ہے۔ اس میڈیا گروپ اور پروگرام کی میزبان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی مذہب اور برگزیدہ ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جرات نہ کرسکے۔

سکھر، روہڑی، پنو عاقل، صالح پٹ، شکار پور، لاڑکانہ، جیکب آباد، سمیت بالائی سندھ کے چھوٹے، بڑے شہروں میں ہزاروں افراد نے احتجاج کے دوران کہا کہ نجی ٹی وی چینل نے قومی سلامتی کے اداروں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ شعائر اسلام پر حملے شروع کردیے ہیں، جو اسلام اور ملک دشمنوں کا ایجنڈا ہے۔ توہین آمیز اور گستاخانہ طرز عمل ناقابل برداشت ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وفاقی حکومت اور پیمرا اس چینل کے خلاف بھرپور کارروائی کرے اور ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔

قومی و صوبائی اسمبلی میں عوامی نمائندگی، سینیٹرز اور معاون خصوصی سمیت متعدد اہم عہدوں پر فائز بااختیار افسران کا تعلق سکھر سے ہونے کے باوجود ضلع کے عوام کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شہر میں گذشتہ ایک ماہ سے صفائی، ستھرائی کی ناقص صورت حال کا متعلقہ ادارے کی جانب سے نوٹس نہ لیے جانے پر 'سکھر پارٹیز الائنس' عوامی مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر نکل آیا ہے۔ یہ اتحاد مختلف سیاسی، سماجی اور قوم پرست جماعتوں کے اراکین پر مشتمل ہے۔

مشرف محمود قادری، دوا خان، ڈاکٹر سعید اعوان، غلام مصطفیٰ پھلپوٹو کی قیادت میں الائنس کا وفد مختلف اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کرنے کے ساتھ ساتھ منتخب نمائندوں سے مل کر عوامی مسائل حل کرنے پر زور دے رہا ہے۔ لیکن منتخب نمائندوں سمیت اعلیٰ حکام کی بیرون شہر مصروفیات اور مسائل کے حل میں عدم دل چسپی محسوس کرتے ہوئے اتحاد نے 25 مئی کو احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا ہے۔


سکھر شہر سے منتخب نمائندوں کی عوامی مسائل کے حل میں عدم دل چسپی پر ان کے ووٹروں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے اپنے آبائی علاقوں میں ہفتہ وار آمد اور ذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت سے سکھر میں پیپلز پارٹی کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ پچھلے دنوں سید خورشید احمد شاہ کا میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جمہوریت قربان کرنے کے لیے کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے، حکومت تمام معاملات میں اپوزیشن کو اعتماد میں لے، پیپلزپارٹی جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے کسی اتحاد کا حصّہ نہیں بنے گی۔ اس موقع پر بھارت میں انتخابات میں نریندر مودی کی کام یابی پر انہیں مبارک باد دیتے ہوئے خورشید شاہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ نریندر مودی پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے کوشش کریں گے۔

سندھ میں حکم راں جماعت، پاکستان پیپلزپارٹی کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ عوام میں پی پی پی کے خلاف جذبات کا فائدہ اٹھانے کے لیے سرگرم جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام بھی شامل ہے۔ گذشتہ ہفتے جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی راہ نما حافظ حسین احمد نے سکھر میں مختلف تقریبات میں شرکت کی۔ ذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے امریکا کے اشارے پر دینی مدارس پر سرکاری کنٹرول چاہتی ہے۔

مصر، ترکی اور سعودی عرب کی طرح پاکستان میں بھی یہ منصوبہ ناکام ہوگا، حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کام یاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، حکومتی کمیٹی اور طالبان کمیٹی کے پاس کوئی اختیار نہیں، لگتا ہے کہ امریکا کے اشارے پر مذاکرات کو ناکام بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی فرقے اور مسلک سے بالاتر ہوکر ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کررہی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو شناختی کارڈ، پاسپورٹ جاری نہ کیے جانے کے خلاف ملک کے دیگر شہروں کی طرح سکھر میں بھی نادرا آفس کے سامنے ایم کیو ایم نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں شریک رکن صوبائی اسمبلی دیوان چند چاؤلہ، شہزادہ گلفام و دیگر کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے تمام ضروری قانونی تقاضے پورے کر دیے ہیں، اس کے باوجود قومی شناختی کارڈ جاری نہ کرنا ظلم اور ناانصافی ہے۔ سکھر سمیت ملک بھر میں قائد تحریک کے کروڑوں چاہنے والوں میں اس حوالے سے شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اتنی بڑی پارٹی کے قائد کو شناختی کارڈ جاری کرنے میں ٹال مٹول اور تاخیر سے واضح ہوتا ہے کہ نادرا کے اہل کار عام افراد کے ساتھ کس طرح کا رویہ اور ناروا سلوک کرتے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض سیاست داں نادرا کو ذاتی ادارہ سمجھ کر ایسے اقدامات کر رہے ہیں، جس سے ایم کیو ایم کے کارکنوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ حکومت آواز خلق کو نقارۂ خدا سمجھے اور شناختی کارڈ کے اجرا میں رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے فوری طور پر کارڈ جاری کرے۔ حکومت مخالف اور مختلف دوسری جماعتوں کے اتحاد کے بعد یہاں آئے روز ہونے والے احتجاج اور مظاہروں سے مقامی سطح پر منتخب نمائندوں کی ساکھ بُری طرح متاثر ہورہی ہے اور عوام میں ان کے خلاف جذبات جنم لے رہے ہیں۔ تبصرہ نگاروں کے مطابق اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی کو شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Load Next Story