ضمیر کی خلش

ضمیر کی خلش کو بُھلا کر مگر بہت سارے مقامی اور عالمی واقعات پر پیشہ وارانہ نگاہ تو پھر بھی رکھنا پڑتی ہے


Nusrat Javeed May 21, 2014
[email protected]

ایک چیز کہلاتی ہے ''ضمیر کی خلش'' اب سے چند ہی برس پہلے تک یہ مجھے اکثر بہت تنگ کیا کرتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مگر دریافت یہ ہوا کہ ''ضمیر کی خلش'' سے مجبور ہو کر میں نے جو بھی فیصلے کیے ان کا حتمی نقصان میری اپنی ذات ہی کو ہوا۔ جن افراد یا واقعات نے یہ خلش پیدا کی تھی ان کا کچھ بھی نہ بگڑا۔ غالبؔ نے کسی خط میں اپنے ایک دوست کو لکھا تھا کہ وہ مرنے سے نہیں ڈرتے البتہ فقدانِ راحت سے گھبرا گئے ہیں۔ لہٰذا بات یہ طے ہوئی کہ ضمیر کی خلش سے راحت کا فقدان زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔

میری راحت کے سامان تو ویسے ہی بہت محدود ہیں۔ جب سے شادی ہوئی بھٹہ مزدوروں جیسی مشقت کے ذریعے گھر ہمیشہ میری بیوی نے چلایا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا سارا ذمے بھی اسی نے اٹھا رکھا ہے۔ مجھے تو بس لکھنا اور بولنا ہے اور اس حوالے سے معاوضے کی باقاعدگی سے ادائیگی۔ ذاتی گلشن کا کاروبار چلانے کے علاوہ میرا لکھنا اور بولنا ایک معقول رقم کے علاوہ تھوڑی بہت شہرت بھی فراہم کر دیتا ہے۔ ضمیر کی خلش کے لیے میرا پیغام لہذا یہ ہے کہ پپو یار تنگ نہ کر۔ ہارن دے کر پاس کر۔ ویسے بھی میں بطور ایک فرد اس بہت بڑی کائنات میں محض ایک نقطے کی طرح موجود ہوں اور زندگی کیا ہے بس پانی کا بلبلہ۔

ضمیر کی خلش کو بُھلا کر مگر بہت سارے مقامی اور عالمی واقعات پر پیشہ وارانہ نگاہ تو پھر بھی رکھنا پڑتی ہے۔ عمر کے اس حصے میں پہنچ گیا ہوں جہاں فیس بک اور ٹویٹر جیسے خلقِ خدا کی ایک موثر تعداد تک اپنے خیالات پہنچانے والی ایجادات کو میرے جیسے ''قلم گھسیٹ'' کوئی خاص سمجھ نہیں پاتے۔ اپنی اس ضمن میں گھبراہٹ اور ہچکچاہٹ پر سختی سے قابو پاتے ہوئے میں پھر بھی ان ایجادات کا متحرک استعمال کرنے پر اس لیے مجبور ہوا کہ بڑی علمی اور گہری تحقیق کے بعد دُنیا بھر کے میڈیا گروئوں نے ثابت کیا ہے کہ انٹرنیٹ کی بدولت فراہم کردہ میڈیا کی Reach مین اسٹریم یا روایتی میڈیا سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

پوری عرب دُنیا میں کئی برسوں سے میڈیا پر ریاست کا جابرانہ کنٹرول ہوا کرتا تھا۔ تیونس میں لیکن ایک نوجوان نے پولیس تشدد کے خلاف احتجاج کے طور پر خود کو جلا لیا تو اسی Alternate میڈیا کے ذریعے نام نہاد ''عرب بہار'' رچا دی گئی۔ چلتے چلتے یہ بہار قاہرہ کے التحریر اسکوائر کا باعث بھی بنی۔ حتمی فائدہ اس بہار کا مگر اخوان المسلمون نے اُٹھایا۔ برسوں سے قابلِ گردن زنی ٹھہرائی اس جماعت کے مرسی صاف شفاف انتخابات کے ذریعے مصر کے صدر بنے۔ مگر انجام؟ السیسی۔

یوکرین میں بھی وہاں کی منتخب حکومت کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے التحریر اسکوائر کی روایت کو کئی جانوں کا نذرانہ دے کر دہرایا گیا۔ وہاں کا صدر عوامی بغاوت سے گھبرا کر فرار ہو گیا۔ اس کے فرار کے بعد مگر کریمیا ہو گیا۔ امریکی صدر اور یورپی ممالک صرف بڑھکیں لگاتے رہ گئے۔ اب کریمیا روسی صدر پیوٹن کی مکمل گرفت میں ہے۔ جسے مغربی دُنیا ایک نئے ''زارِ روس'' کی طرح پیش کر رہی ہے۔ پیوٹن مگر ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ بس لکیر پٹی جا رہی ہے۔

چند ہی ماہ قبل ہمارے برادر ملک ترکی کے مسحور کن شہر استنبول میں بھی کئی ہفتوں تک ایک التحریر اسکوائر نے کافی رش لیا۔ وہاں کے وزیر اعظم کے بارے میں ''صبح گیا یا شام گیا'' والا قصہ ہوتا نظر آنا شروع ہوا۔ اردگان مگر اب بھی اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ حال ہی میں بلکہ وہاں کے جو بلدیاتی انتخاب ہوئے ہیں ان میں اس وزیر اعظم کی جماعت کے امیدواروں نے بڑی واضح اکثریت حاصل کی ہے۔

میری بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح ترکی جا کر یہ بات سمجھنے کی کوشش کروں کہ استنبول کے متوسط طبقے کی بے پناہ تعداد کی انٹرنیٹ کے ذریعے سلگائی آتشِ گفتار وہاں کے عوام کے دلوں کو کیوں نہ گرما پائی۔ پلّے سے ہم پاکستانی صحافیوں کو پیسے خرچ کر کے مگر اپنے ذہنوں میں اُٹھتے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی عادت نہیں۔ منتظر رہتے ہیں کہ جس ملک جانے کی خواہش ہے وہاں کی حکومت یا پھر کوئی غیر سرکاری ادارہ سیمینار وغیرہ میں شرکت کی دعوت دے۔ ٹکٹ بھیجے، وہاں رہنے کے لیے ہوٹل کا بندوبست کرے اور لوگوں سے بات چیت کے لیے کسی مترجم کی فراہمی۔ ایسے غیر ملکی دورے کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے اگر مترجم کوئی خوب صورت دوشیزہ ہو۔ جن اداروں کے لیے ہم لکھتے اور بولتے ہیں انھیں وہ سوالات تنگ نہیں کرتے جن کا جواب ہم انفرادی حیثیت میں ڈھونڈنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔

حال ہی میں بھارت کی تاریخ کے سب سے اہم انتخابات مکمل ہوئے ہیں۔ 30سال کے طویل وقفے کے بعد کسی ایک جماعت کو وہاں کی لوک سبھا میں قطعی اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ یہ اکثریت نریندر مودی کو اپنی پسند کے فیصلے کرنے میں بڑی سہولت فراہم کرے گی۔ ہمارے ہاں سے دو یا تین صحافی ہی ان انتخابات کو دیکھنے ایک ہمسایہ مگر ازلی دشمن سمجھے جانے والے ملک گئے۔ وسعت اللہ خان نے اپنے ایک کالم میں اس لاتعلقی پر بہت افسوس کا ا ظہار کیا ہے۔ مگر موصوف جب خود جامعہ کراچی میں ہونے والی ایک ایسی کلاس میں گئے جہاں طلباء مستقبل کے صحافی بننا چاہ رہے تھے تو غالباََ 19 میں سے صرف ایک طالب علم نے ہاتھ اُٹھا کر اظہار کیا کہ وہ بھارتی انتخابات میں کچھ دلچسپی رکھتا ہے۔

بہرحال میں نیویارک ٹائمز کے تھامس فریڈمین کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے استنبول کے التحریر اسکوائر کے پروان نہ چڑھنے کی وجوہات سمجھا دیں۔ وجہ اگرچہ اس نے خود دریافت نہیں کی ایک مشہور رسالے کے ایک لکھاری نے کچھ تحقیق کے بعد ڈھونڈی ہے۔ وجہ یہ دریافت ہوئی ہے کہ ترکی جیسے نسبتاََ ہم سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے اور خوش حال ملک میں خلقِ خدا کی اکثریت اب بھی Technical Illiterate ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ وہ اپنی رائے فیس بک اور ٹویٹر کے طفیل نہیں بناتی۔ اپنے سیاسی حالات کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر ٹی وی چینلوں پر انحصار کرتی ہے۔

ترکی کے موجودہ وزیر اعظم نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنے چند سیٹھ دوستوں کے ذریعے تمام ٹی وی چینلوں کو اپنے قابو میں کر رکھا ہے۔ ان تمام چینلوں نے یکجا ہو کر ترکی کے عوام کو یقین دلا دیا کہ استنبول میں بیٹھے چند پیٹ بھرے نوجوانوں کا ایک گروہ غیر ملکی ایماء پر ان کے ملک میں انتشار پیدا کرنا چاہ رہا ہے اور اس سوچ کے پروان نے بالآخر اردگان کی جماعت کو بلدیاتی انتخابات میں اکثریت فراہم کر دی۔ اللہ اللہ خیرسلا۔ میں فریڈمین کا یہ کالم پڑھنے کے بعد بڑی سنجیدگی سے کم از کم اپنے فیس بک اکائونٹ کو بند کرنا چاہ رہا ہوں۔ جو ویسے بھی Hack ہو چکا ہے اور اس کے ذریعے میرے دوستوں کو میرے نام سے ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھیجی جا رہی ہیں جنھیں دیکھ کر میرے جیسے ضمیر کی خلش سے آزاد ہوئے ڈھیٹ شخص کے بھی کان سرخ ہو جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں