آسام کے مقتول مسلمان اور مودی
آسام کی کل آبادی سوا تین کروڑ ہے اورمسلمان اس آبادی کا تقریباً 31 فیصد بنتے ہیں اوران کی آبادی کی شرح روز افزوں ہے
بھارت کے قومی انتخابات کے نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ اب بنیاد پرست اور مسلمانوں کے خون کا پیاسا بھارتی سیاستدان نریندر مودی 21مئی کو ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' کا وزیر اعظم بن جائے گا۔ بھارت کے وزیر قانون کپیل سبل کا بیان ہے یہ بات بھارت کی تقدیر میں لکھی جا چکی ہے کہ یہ ملک اپنے ہی بوجھ اور ناانصافیوں کی وجہ سے ٹوٹ کر بکھر جائے گا، جیسا کہ سوویت یونین مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بدولت ٹوٹ گیا تھا۔
بھارتی الیکشن تو گزر گئے لیکن اپنے پیچھے ایک خونی لکیر چھوڑ گئے۔ یہ خونی لکیر بھارت کی ایک دور دراز ریاست (آسام) کے غریب اور تہی دست مسلمانوں کے خون سے کھینچی گئی ہے۔ آسامی مسلمانوں کا یہ خون بھی نریندر مودی کی ایک آتشناک تقریر کی وجہ سے بکھیرا گیا ہے۔ آسام دراصل بھوٹان اور بنگلہ دیش سے متصل ریاست ہے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کے مسلمان گزشتہ کئی برسوں سے چوری چھپے ہجرت کر کے آسام میں بستے آ رہے ہیں۔ اس وجہ سے مقامی آسامی قبائل (خصوصاً بوڈو قبیلہ) اور مسلمانوں کے درمیان تصادم اور چپقلش ہوتی رہتی ہے۔
بنگلہ دیش بننے سے قبل مشرقی پاکستان کے دنوں میں بھی یہ مسئلہ اپنی جگہ موجود تھا۔ اگر ہم معروف بھارتی صحافی کلدیپ نیئر کی سوانح حیات Beyond The Lines کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 65ء کی جنگ کے بعد جب تاشقند میں مسائل سلجھانے کے لیے بھارت اور پاکستان کے حکمران (جنرل ایوب خان اور لال بہادر شاستری) آمنے سامنے بیٹھے تو مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کے ساتھ ساتھ آسام کے مبینہ مشرقی پاکستانی مہاجر مسلمانوں کا مسئلہ حل کرنے کا معاملہ بھی اٹھا تھا۔ آسام کے ان مہاجر بنگلہ دیشی مسلمانوں کے المیے کے پس منظر میں بھارت کے نامور افسانہ نگار جناب صدیق عالم (جو کلکتہ میں محکمہ انکم ٹیکس کے ملازم بھی ہیں) نے ایک افسانہ ''رَودِ خنزیر'' بھی لکھا ہے جو اداس کر دینے والا بھی ہے اور نہایت اشکبار بھی۔
آسام میں بھارت کے لیے ''مہاجر مسلمان'' ہی دردِ سر نہیں ہیں بلکہ بھارتی حکمران اس لیے بھی پریشان ہیں کہ آسام بھارت سے الگ ہو کر ایک آزاد ملک بننے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے بھارتی فوجوں اور آسامی قبائل کے درمیان آئے روز خونی تصادم ہوتا رہتا ہے جس میں طرفین کے لوگ موت کے گھاٹ اترتے رہتے ہیں۔ آسام کی ہمسایہ بھارتی ریاستوں (ناگا لینڈ، میزورام، منی پور) میں بھی علیحدگی کے لیے زبردست تحریکیں چل رہی ہیں لیکن بھارت کے متعصب سیاستدانوں اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا نزلہ آسام کے بے گناہ اور نہتے مسلمانوں پر گرتا ہے۔ بھارتی فوج اور بھارتی سیاستدان آسام کی دونوں بڑی علیحدگی پسند تحریکوں (ULFA یعنی یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام اور NDFB یعنی نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ) کے مقابل پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔
الیکشن آئے تو نریندر مودی آسام بھی جا پہنچے۔ انھوں نے وہاں کے تین بڑے شہروں میں حسبِ معمول اور حسب عادت ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے آسامی مسلمانوں کے خلاف غضبناک تقریریں کیں۔ ان تقریروں کا ایک ایک لفظ آسامی مسلمانوں کے خلاف زہر میں بجھا ہوا تھا۔ مودی نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا: ''بنگلہ دیش سے آ کر آسام میں بس جانے والے اپنا بوریا بستر باندھ لیں۔ انھیں ہر حالت میں واپس جانا ہو گا۔'' اشارہ ہی کافی تھا۔ اس پر کلکتہ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے استاد پروفیسر ایس بی رائے چوہدری نے کہا: ''مودی کے یہ الفاظ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔'' چنانچہ ہوا بھی ایسا ہی۔ آسام کے تمام (27) اضلاع میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و غضب کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا مرکز گوہاٹی شہر اور اس کے مضافات بنے۔
نریندر مودی آسام سے نکلا ہی تھا کہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے امیدوار اور ان کے پشتی بان مسلمانوں کے خلاف بندوقوں، خنجروں، کلہاڑیوں کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ رات کے اندھیرے میں جتھوں کی شکل میں آسامی مسلمانوں کے گھروں پر حملے کیے گئے۔ آسامی مسلمانوں کو ایک عجب قیامت کا سامنا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھیں یہ عبرتناک سزا اس لیے دی گئی ہے کیونکہ انھوں نے مجموعی طور پر نریندر مودی کے پسندیدہ اور بی جے پی کے ٹکٹ ہولڈر انتخابی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ آسامی مسلمان بی جے پی اور نریندر مودی کے سیاسی غنڈوں کے خوف سے اپنے گھروں سے بھاگ کر جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
بھارتی وزیر داخلہ مسٹر شندے نے خود اعتراف کیا ہے کہ قتل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد 50 ہے لیکن واقفانِ حال کی طرف سے یہ تعداد پانچ درجن کے قریب بتائی جا رہی ہے۔ تقریباً دو سال قبل بھی آسامی مسلمانوں پر یہ قیامت ٹوٹی تھی۔ ان پر متواتر حملے کیے گئے اور تقریباً ڈیڑھ سو مسلمان شہید کر دیے گئے۔ جو اپنے گھروں سے مارے ڈر کے بھاگ نکلے، ان کی تعداد چار لاکھ بتائی جاتی ہے۔ تازہ قتل و غارت گری کے پس منظر میں مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی حکمران وزیر اعلیٰ عمر فاروق عبداللہ نے بھی لب کشائی کی ہے۔ انھوں نے کہا: ''اپریل کے پہلے ہفتے قتل ہونے والے آسامی مسلمانوں کا اصل قاتل مودی ہے۔'' تقریباً 80 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے آسام (جو دریاؤں، بارشوں، جنگلوں اور چائے کا صوبہ بھی کہلاتا ہے) میں مسلمان معمولی تعداد میں نہیں ہیں۔
آسام کی کل آبادی سوا تین کروڑ ہے اور مسلمان اس آبادی کا تقریباً 31 فیصد بنتے ہیں اور ان کی آبادی کی شرح روز افزوں ہے۔ اسی لیے یہاں کے بوڈو اور دوسرے ہندو قبائل شور مچا رہے ہیں کہ کوئی دن گزرتا ہے یہ آسامی مسلمان تعداد میں مقامی ہندوئوں سے بڑھ جائیں گے۔ اس خوف کی وجہ سے بھی وہ آسامی مسلمانوں کی جان کے دشمن بن گئے ہیں۔ اوپر سے مبینہ طور پر بنگلہ دیش سے یہاں آنے والے مہاجر مسلمان بھی ان کی نظر میں بری طرح کھٹک رہے ہیں۔ برسہا برس قبل آسام کی مقامی آبادی مسلمان صوفیائے کرام کے کردار اور ان کے طرزِ تبلیغ اسلام سے بے پناہ متاثر ہوئی اور یہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔
یہ سب لوگ کسی نہ کسی شکل میں صوفی بزرگ حضرت غیاث الدین فقیر علیہ رحمہ کے ارادت مند ہیں۔ پروین سلطانہ آسام کی مشہور مسلمان گلوکارہ ہیں۔ بھارت کی طرف سے انھیں دو عظیم ایوارڈز (پدم شری اور پدم بھوشن) سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کے شوہر دلشاد خان، جن کی وہ شاگرد بھی رہیں، کلاسیکی موسیقی کے معروف استاد اور ان کی بیٹی شاداب سلطانہ بھی بہت اچھا گاتی ہیں۔ آسام کے اکثریتی متعصب ہندو جب مقامی مسلمانوں کو تہ تیغ کرتے ہیں تو انھیں مسلمانوں کی خوبیوں اور ان کی قومی خدمات یاد نہیں رہتیں۔ شاید اسی وجہ سے پروین سلطانہ صاحبہ بھی گوہاٹی سے دلّی منتقل ہو چکی ہیں۔
آسام کے ہر مسلمان گھر میں صف ماتم بچھی ہے کہ ابھی ان کے خلاف مودی کے غنڈوں اور ہتھیاروں کی غارتگری کا طوفان تھما نہیں۔ بھارتی حکومت نے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے اور ناراض عالمی برادری کا منہ بند کرنے کے لیے آسام میں پانچ ہزار فوجیوں اور پیرا ملٹری فورس کی خصوصی ڈیوٹیاں تو لگا دی ہیں لیکن آسامی مسلمان پھر بھی سہمے ہوئے ہیں۔ پاکستان مقدور بھر بھارت کے ان تازہ مظالم کی مذمت تو کر رہا ہے لیکن افسوس عالم اسلام کے باقی حکمرانوں پر ہے جو آسام کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ان تازہ خونریز مظالم پر خاموش بیٹھے ہیں۔
بھارتی الیکشن تو گزر گئے لیکن اپنے پیچھے ایک خونی لکیر چھوڑ گئے۔ یہ خونی لکیر بھارت کی ایک دور دراز ریاست (آسام) کے غریب اور تہی دست مسلمانوں کے خون سے کھینچی گئی ہے۔ آسامی مسلمانوں کا یہ خون بھی نریندر مودی کی ایک آتشناک تقریر کی وجہ سے بکھیرا گیا ہے۔ آسام دراصل بھوٹان اور بنگلہ دیش سے متصل ریاست ہے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کے مسلمان گزشتہ کئی برسوں سے چوری چھپے ہجرت کر کے آسام میں بستے آ رہے ہیں۔ اس وجہ سے مقامی آسامی قبائل (خصوصاً بوڈو قبیلہ) اور مسلمانوں کے درمیان تصادم اور چپقلش ہوتی رہتی ہے۔
بنگلہ دیش بننے سے قبل مشرقی پاکستان کے دنوں میں بھی یہ مسئلہ اپنی جگہ موجود تھا۔ اگر ہم معروف بھارتی صحافی کلدیپ نیئر کی سوانح حیات Beyond The Lines کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 65ء کی جنگ کے بعد جب تاشقند میں مسائل سلجھانے کے لیے بھارت اور پاکستان کے حکمران (جنرل ایوب خان اور لال بہادر شاستری) آمنے سامنے بیٹھے تو مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کے ساتھ ساتھ آسام کے مبینہ مشرقی پاکستانی مہاجر مسلمانوں کا مسئلہ حل کرنے کا معاملہ بھی اٹھا تھا۔ آسام کے ان مہاجر بنگلہ دیشی مسلمانوں کے المیے کے پس منظر میں بھارت کے نامور افسانہ نگار جناب صدیق عالم (جو کلکتہ میں محکمہ انکم ٹیکس کے ملازم بھی ہیں) نے ایک افسانہ ''رَودِ خنزیر'' بھی لکھا ہے جو اداس کر دینے والا بھی ہے اور نہایت اشکبار بھی۔
آسام میں بھارت کے لیے ''مہاجر مسلمان'' ہی دردِ سر نہیں ہیں بلکہ بھارتی حکمران اس لیے بھی پریشان ہیں کہ آسام بھارت سے الگ ہو کر ایک آزاد ملک بننے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے بھارتی فوجوں اور آسامی قبائل کے درمیان آئے روز خونی تصادم ہوتا رہتا ہے جس میں طرفین کے لوگ موت کے گھاٹ اترتے رہتے ہیں۔ آسام کی ہمسایہ بھارتی ریاستوں (ناگا لینڈ، میزورام، منی پور) میں بھی علیحدگی کے لیے زبردست تحریکیں چل رہی ہیں لیکن بھارت کے متعصب سیاستدانوں اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا نزلہ آسام کے بے گناہ اور نہتے مسلمانوں پر گرتا ہے۔ بھارتی فوج اور بھارتی سیاستدان آسام کی دونوں بڑی علیحدگی پسند تحریکوں (ULFA یعنی یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام اور NDFB یعنی نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ) کے مقابل پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔
الیکشن آئے تو نریندر مودی آسام بھی جا پہنچے۔ انھوں نے وہاں کے تین بڑے شہروں میں حسبِ معمول اور حسب عادت ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے آسامی مسلمانوں کے خلاف غضبناک تقریریں کیں۔ ان تقریروں کا ایک ایک لفظ آسامی مسلمانوں کے خلاف زہر میں بجھا ہوا تھا۔ مودی نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا: ''بنگلہ دیش سے آ کر آسام میں بس جانے والے اپنا بوریا بستر باندھ لیں۔ انھیں ہر حالت میں واپس جانا ہو گا۔'' اشارہ ہی کافی تھا۔ اس پر کلکتہ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے استاد پروفیسر ایس بی رائے چوہدری نے کہا: ''مودی کے یہ الفاظ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔'' چنانچہ ہوا بھی ایسا ہی۔ آسام کے تمام (27) اضلاع میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و غضب کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا مرکز گوہاٹی شہر اور اس کے مضافات بنے۔
نریندر مودی آسام سے نکلا ہی تھا کہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے امیدوار اور ان کے پشتی بان مسلمانوں کے خلاف بندوقوں، خنجروں، کلہاڑیوں کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ رات کے اندھیرے میں جتھوں کی شکل میں آسامی مسلمانوں کے گھروں پر حملے کیے گئے۔ آسامی مسلمانوں کو ایک عجب قیامت کا سامنا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھیں یہ عبرتناک سزا اس لیے دی گئی ہے کیونکہ انھوں نے مجموعی طور پر نریندر مودی کے پسندیدہ اور بی جے پی کے ٹکٹ ہولڈر انتخابی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ آسامی مسلمان بی جے پی اور نریندر مودی کے سیاسی غنڈوں کے خوف سے اپنے گھروں سے بھاگ کر جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
بھارتی وزیر داخلہ مسٹر شندے نے خود اعتراف کیا ہے کہ قتل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد 50 ہے لیکن واقفانِ حال کی طرف سے یہ تعداد پانچ درجن کے قریب بتائی جا رہی ہے۔ تقریباً دو سال قبل بھی آسامی مسلمانوں پر یہ قیامت ٹوٹی تھی۔ ان پر متواتر حملے کیے گئے اور تقریباً ڈیڑھ سو مسلمان شہید کر دیے گئے۔ جو اپنے گھروں سے مارے ڈر کے بھاگ نکلے، ان کی تعداد چار لاکھ بتائی جاتی ہے۔ تازہ قتل و غارت گری کے پس منظر میں مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی حکمران وزیر اعلیٰ عمر فاروق عبداللہ نے بھی لب کشائی کی ہے۔ انھوں نے کہا: ''اپریل کے پہلے ہفتے قتل ہونے والے آسامی مسلمانوں کا اصل قاتل مودی ہے۔'' تقریباً 80 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے آسام (جو دریاؤں، بارشوں، جنگلوں اور چائے کا صوبہ بھی کہلاتا ہے) میں مسلمان معمولی تعداد میں نہیں ہیں۔
آسام کی کل آبادی سوا تین کروڑ ہے اور مسلمان اس آبادی کا تقریباً 31 فیصد بنتے ہیں اور ان کی آبادی کی شرح روز افزوں ہے۔ اسی لیے یہاں کے بوڈو اور دوسرے ہندو قبائل شور مچا رہے ہیں کہ کوئی دن گزرتا ہے یہ آسامی مسلمان تعداد میں مقامی ہندوئوں سے بڑھ جائیں گے۔ اس خوف کی وجہ سے بھی وہ آسامی مسلمانوں کی جان کے دشمن بن گئے ہیں۔ اوپر سے مبینہ طور پر بنگلہ دیش سے یہاں آنے والے مہاجر مسلمان بھی ان کی نظر میں بری طرح کھٹک رہے ہیں۔ برسہا برس قبل آسام کی مقامی آبادی مسلمان صوفیائے کرام کے کردار اور ان کے طرزِ تبلیغ اسلام سے بے پناہ متاثر ہوئی اور یہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔
یہ سب لوگ کسی نہ کسی شکل میں صوفی بزرگ حضرت غیاث الدین فقیر علیہ رحمہ کے ارادت مند ہیں۔ پروین سلطانہ آسام کی مشہور مسلمان گلوکارہ ہیں۔ بھارت کی طرف سے انھیں دو عظیم ایوارڈز (پدم شری اور پدم بھوشن) سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کے شوہر دلشاد خان، جن کی وہ شاگرد بھی رہیں، کلاسیکی موسیقی کے معروف استاد اور ان کی بیٹی شاداب سلطانہ بھی بہت اچھا گاتی ہیں۔ آسام کے اکثریتی متعصب ہندو جب مقامی مسلمانوں کو تہ تیغ کرتے ہیں تو انھیں مسلمانوں کی خوبیوں اور ان کی قومی خدمات یاد نہیں رہتیں۔ شاید اسی وجہ سے پروین سلطانہ صاحبہ بھی گوہاٹی سے دلّی منتقل ہو چکی ہیں۔
آسام کے ہر مسلمان گھر میں صف ماتم بچھی ہے کہ ابھی ان کے خلاف مودی کے غنڈوں اور ہتھیاروں کی غارتگری کا طوفان تھما نہیں۔ بھارتی حکومت نے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے اور ناراض عالمی برادری کا منہ بند کرنے کے لیے آسام میں پانچ ہزار فوجیوں اور پیرا ملٹری فورس کی خصوصی ڈیوٹیاں تو لگا دی ہیں لیکن آسامی مسلمان پھر بھی سہمے ہوئے ہیں۔ پاکستان مقدور بھر بھارت کے ان تازہ مظالم کی مذمت تو کر رہا ہے لیکن افسوس عالم اسلام کے باقی حکمرانوں پر ہے جو آسام کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ان تازہ خونریز مظالم پر خاموش بیٹھے ہیں۔