بھارتی انتخابات سے سبق

بھارتی انتخابات میں دائیں بازو کے ہندو انتہاپسندوں کو تاریخی اکثریت حاصل ہوئی۔


Dr Tauseef Ahmed Khan May 21, 2014
[email protected]

بھارتی انتخابات میں دائیں بازو کے ہندو انتہاپسندوں کو تاریخی اکثریت حاصل ہوئی۔ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی وزیراعظم بن گئے ۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی نے اپنی پارٹی کی شکست تسلیم کرلی۔ منتخب اسمبلی میں پہلی دفعہ مسلمانوں کی نمایندگی انتہائی کم ہوگئی۔ بھارت کی تیسری وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کو بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد انتخابات میں جو قطعی اکثریت حاصل ہوئی تھی ویسی کامیابی نریندر مودی کو حاصل ہوئی، یوں چائے کے کھوکھے سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنے والا نوجوان 28 سال کی جدوجہد کے بعد وزیراعظم بن گیا۔

سیکولر ریاست کے قیام کے داعی جماعتوں کی شکست اور ہندوتوا کا نعرہ لگانے والوں کی کامیابی کے بعد ہندوستا ن کی سیکولر ریاست کی بنیاد اہم سوال بن گئی۔ بھارت کی آزادی کانگریس کے رہنمائوں پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، سردار پٹیل اور کانگریس کے سرپرست مہاتما گاندھی کی طویل جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ کانگریس 1885 میں ایک انگریز نے قائم کی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ہند حکومتوں کے تعلیم عام کرنے جدید انتظامی عدالتی نظام قائم کرنے، ریل کے ذریعے بھارت کے شہروں اور دیہاتوں سے منسلک کرنے، بجلی آنے کے بعد صنعتی اداروں کے قیام جیسے بنیادی اقدامات سے ہندوستان میں متوسط طبقہ وجود میں آیا۔

متوسط طبقے کی اکثریت ہندوئوں پر مشتمل تھی، مسلمانوں کے متوسط طبقے میں تبدیل ہونے کی شرح کم تھی۔ 20 ویں صدی میں کانگریس متوسط طبقے کا ترجمان بن گئی۔ تلک جیسے قوم پرستوں نے کانگریس کو ہندوستان کی مکمل آزادی کا پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کی۔ حسرت موہانی تلک کے پیروکاروں میں تھے، پھر موہن داس گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو نے کانگریس کی قیادت سنبھال لی۔

گاندھی اپنی ذاتی زندگی میں مذہبی عقیدہ رکھنے والے رہنما تھے، انھوں نے ہندوستان کی سیاست میں مذہبی رجحانات کو روشناس کرایا، گاندھی کی خلافت تحریک کی حمایت ایک مذہبی تحریک کی حمایت تھی مگر پنڈت نہرو سیکولر رہنما کے طور پر ابھرے۔ متوسط طبقے نے کانگریس کی قیادت میں تاریخ ساز جدوجہد کی۔ کانگریس کے رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کا کہنا ہے کہ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کے جون پلان تسلیم کرنے سے ہندوستان کی تقسیم ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کی ریاستیں قائم ہوئیں۔ سردار پٹیل انتہاپسند ہندو رہنما کے طورپر جانے جاتے تھے مگر ہندو انتہاپسند کانگریس کی پالیسی سے متفق نہیں تھے، اس بنا پر راشٹریہ سیوک سنگھ قائم ہوئی۔

15اگست کو بھارت کے وجود میں آنے کے بعد کانگریس نے نچلی ذات کے رہنما بابا صاحب ڈاکٹر امبیدکر کو وزیر قانون بنایا، ان کی قیادت میں ایک آئین ساز کمیٹی قائم کی، اس کمیٹی کی سفارشات پر بھارت کے آئین کا ڈھانچہ تیار ہوا۔ اس آئین کے تحت بھارت کو ایک سیکولر ریاست قراردیا گیا، اس ریاست میں مذہب کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جب مہاتما گاندھی نے پاکستان کو اثاثے دینے کے لیے بھوک ہڑتال کی تو ایک ہندو انتہاپسند نے مہاتما گاندھی کو قتل کردیا تھا۔ مہاتما گاندھی کو قتل کرنے کا واضح مطلب کانگریس کی سیکولر رجحانات کی نفی کرنا تھا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے سوشلسٹ نظریے کی پیروی کرتے ہوئے قومی معیشت رائج کی۔ پنڈت نہرو نے اپنی ذات اور وزراء کوشفافیت کے اصولوں پر برقرار رکھنے کے لیے اعلیٰ روایات قائم کی۔

کانگریس نے زرعی اصلاحات کرکے لاکھوں ایکڑ زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کی، مفت تعلیم اور غربت مٹائو پالیسی سے بہت سے غریبوں کے دل جیت لیے، لعل بہادر شاستری اور مسز اندرا گاندھی نے نہرو کی پالیسی کو برقرار رکھا، مسز اندرا گاندھی کے بینکوں اور بھاری صنعتوں کو قومیانے کا کروڑوں غریبوں کو فائدہ ہوا، اچھی طرز حکومت کے ذریعے کمیونل فسادات کو روکا۔ اندرا گاندھی حکومت کو جب بھی کمیونسٹ پارٹی اور سوشلسٹ فرنٹ کے چیلنج کا سامنا ہوا تو کانگریس نے ہندو انتہاپسندوں کی حمایت حاصل کی۔ ہندو انتہاپسندوں کو سیاسی زندگی میں قدم جمانے کے مواقع ملنا شروع ہوئے، پنجاب میں بھنڈرا والا جیسے سکھ انتہا پسند کی حوصلہ افزائی کا منطقی نتیجہ گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی اور اندراگاندھی کی قتل کی صورت میں برآمد ہوا۔

راجیو گاندھی نے سوشلسٹ نظریہ سے انحراف کرتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی ، راجیو گاندھی کے دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی رائج ہونا شروع ہوئی۔ راجیو گاندھی پر بوفورز توپوں کی خریداری میں کمیشن کھانے کا الزام لگا۔ نہرو خاندان پر کرپشن کا یہ پہلا الزام تھا۔ راجیو گاندھی کا خاندان اس الزام سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکا تھا ۔ انتہاپسند رہنما ایڈوانی نے ملک میں رتھ یاترا کی مہم شروع کی۔ اس مہم نے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھادیا۔

نرسہمارائو کے وزیراعظم بننے اور ان کی حکومت کی نااہلی کی بنا پر بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ نرسہما رائو حکومت کے دور میں کرپشن بڑھ گئی، عوام کی بہبود کے لیے پالیسیوں کا نفاذ کم ہوگیا۔ نرسہما رائو پہلے وزیراعظم تھے جنھیں کرپشن کے الزام میں سزا ہوئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں برسر اقتدار آئی تو مذہبی انتہاپسندی کے رجحانات کو تقویت ملی۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی انتہاپسندی کو روکنے میں ناکام رہی، کانگریس میں بھی انتہا پسندانہ خیالات جڑ پکڑنے لگے۔ وزیراعظم من موہن سنگھ نے بھارت کی معیشت کی ساخت کو تبدیل کردیا۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھارتی معیشت پر چھا گئیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی نے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کو امریکا اور یورپ کی کمپنیوں سے جوڑ دیا۔

امریکا سے سول ایٹمی ٹیکنالوجی کا معاہدہ کرکے کمیونسٹ پارٹی کو سیاسی دھارے سے دور کردیا۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ حکومت کی پالیسیوں کا مقصد امراء اور متوسط طبقے کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینا تھا۔ نچلے متوسط طبقے اور نچلے طبقے کو بی جے پی کے حوالے کردیا گیا۔ کرپشن کو بڑھتے ہوئے رجحان نے بی جے پی کو ایک شفاف نظام کے نعرے کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کرنے کا موقع دیا، اگر چہ مودی پر گجرات میںمسلمانوں کے قتل عام کا الزام لگا مگر مودی سرکار نے گجرات میں اچھی طر ز حکومت اور کرپشن سے پاک نظام کے ذریعے ووٹروں کو متوجہ کرنے کا موقع ملا، ایک ہندو انتہاپسند کو بھارت پر حکومت کرنے کا موقع ملا۔

بھارتی امور کے ماہر سینئر صحافی سعید حسن خان کا کہنا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر نے مودی کے ذریعے مکمل فری مارکیٹ اکانومی کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پالیسی کا آغاز راجیو گاندھی کے دور میں ہوا تھا۔ مودی کی کامیابی سے پاکستان کی لبرل سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے واضح سبق ہے۔ پاکستان میں کرپشن اور طرز حکومت اہم سوالات ہیں۔ اگر ان جماعتوں نے کرپشن کے خاتمے اور اچھی طرز حکومت کے قیام پر توجہ نہ دی تو اس کا فائدہ مذہبی انتہاپسندوں کو ہوگا۔

نرسمہارائو اور ڈاکٹر من موہن سنگھ حکومتوں کی پالیسیوں سے بی جے پی کو مقبولیت کا موقع دیا، مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کے سیکولر نظام کو چیلنج کا سامنا ہے، یہ سیکولر نظام ہی بھارت کے متحد ہونے کا ضامن ہے۔ پاکستان کو انتہاپسندی کا سامنا ہے، انتہاپسندی پر اچھی طر ز حکومت اور شفاف نظام سے قابو پایا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں