پنجاب میں متعدد دریائی مچھلیاں اور آبی حیات معدومی کے خطرات سے دوچار
پاکستان کی قومی مچھلی مہاشیر، بلائنڈ ڈولفن، کلباس، سول اور لاہور کا کھگا اہم ہیں
آبی آلودگی، پانی کی کمی اور غیر مقامی انواع کے باعث پنجاب میں متعدد دریائی مچھلیاں اور آبی حیات ناپیدی کے خطرات سے دوچار ہیں جن میں پاکستان کی قومی مچھلی مہاشیر، بلائنڈ ڈولفن، کلباس، سول اور لاہور کا کھگا اہم ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر ملکی مچھلیوں کی درآمد اور ان کی افزائش کے رحجان سے بھی مقامی مچھلیوں کی نسل متاثر ہو رہی ہے، غیرملکی مچھلیوں کی درآمد کے حوالے سے کوئی واضع پالیسی بھی نہیں بن سکی ہے۔
لاہور کے علاقے مناواں میں پنجاب فشریز کمپلیکس میں آبی حیات کا میوزم ہے جہاں دریاؤں، جھیلوں اور آب گاہوں میں پائی جانے والی مختلف انواع کی آبی حیات کے نمونے رکھے گئے ہیں۔ ان میں لاہوری کھگا بھی شامل ہے جو لاہور کی سوغات سمجھا جاتا ہے۔
فشریز میوزیم کے پرنسپل ڈاکٹر بلال احمد کہتے ہیں کہ ''میوزیم میں پنجاب کے مختلف دریاؤں سے حاصل کیے گئے مچھلیوں کے 169 نمونہ جات ہیں جن میں سے 85 نمونہ جات دریائے چناب، 18 دریائے راوی، 52 دریائے ستلج اور 14 دریائے جہلم سے حاصل کیے گئے ہیں۔ پنجاب میں مجموعی طور پر دریائی مچھلیوں کی 205 اقسام ہیں، تاہم میوزیم میں 46 اقسام کی مچھلیوں کے نمونہ جات محفوظ ہیں۔ اس میوزیم میں مچھلیوں کے دشمن پرندے اورجانوربھی محفوظ ہیں جن کی تعداد 270 ہے۔''
فشریز میوزیم میں بعض ایسی مچھلیوں کے نمونے بھی محفوظ ہیں جو پنجاب کے دریاؤں میں ناپید ہوچکی ہیں یا پھر ناپیدی کے خطرات سے دوچار ہیں۔ ان میں مہاشیر، کلباش، سول، ملہی، پری، لاہوری کھگا اور سنگھاڑہ قابل ذکر ہیں جن کی تعداد انتہائی کم ہوچکی ہے، بلائنڈ ڈولفن کی نسل بھی خطرے سے دوچار ہے۔
ایکواکلچر ماہرین کے مطابق مچھلیوں کی ناپیدی کی بڑی وجوہات آبی آلودگی، دریاؤں میں پانی کی کمی، موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فشریز اور ایکواکلچر کے پروفیسر نورخان نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ راوی میں پایا جانے والا لاہوری کھگا کافی مشہور ہے لیکن اب وہ ناپیدی سے دوچار ہے۔ لاہور میں رہنے والوں کے گھر جب مہمان آتا تو سردیوں میں اس کو لاہور کھگا ضرور کھلایا جاتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ دریاؤں کے وہ مقامات جہاں سے شہری آبادی اور فیکٹریوں کے سیوریج کا پانی شامل ہوتا ہے ان ایریاز میں مچھلیاں مرجاتی ہیں، اس کے علاوہ پانی کی کمی بھی ایک بڑا فیکٹر ہے۔ پروفیسرنورخان نے بتایا کہ غیرملکی مچھلیوں کی وجہ سے بھی مقامی مچھلیوں کی افزائش پر اثر پڑا ہے تاہم یہ بہت معمولی ہے۔ غیرمقامی مچھلیوں میں تلاپیہ، گلفام، چینل کیٹ فش، پلہ مچھلی، سلورکراپ، گراس کراپ اور دیگر رنگین مچھلیاں شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق مچھلیوں کی غیرمقامی انواع کی درآمد کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ لوگ ایکوریم کلچر کے نام پر مچھلیاں لے آتے ہیں جبکہ حکومتی ادارے بھی اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ اگر یہ مچھلیاں مقامی ماحول میں پرورش پاتی اور بریڈ کرتی ہیں تو اس سے گوشت کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ بظاہر یہ مچھلیاں فارمنگ کے لیے منگوائی جاتی ہیں لیکن یہ دریاؤں اور جھیلوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ تلاپیہ مچھلی ایک وقت میں 20 ہزار انڈے دیتی ہے اسی طرح دیگر مچھلیوں کی بریڈنگ کی شرح میں زیادہ ہے۔ ان مچھلیوں کی بہتات کے باعث مقامی مچھلیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔
مناواں فشریز و ایکواکلچر کمپلیکس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر زاہد شریف کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر دریاؤں، ڈیموں اور بیراجوں میں قدرتی مچھلیوں کی تعداد کم ہوئی ہیں لیکن پنجاب فشریز اس کمی کو پورا کرنے اور ناپیدی کا شکار مچھلیوں کی افزائش نسل کے لیے ہر سال مختلف اقسام کی مچھلیوں کے لاکھوں سیڈ تیار کرکے دریاؤں، بیراجوں میں چھوڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی ترجیح زیادہ تر کمرشل مچھلیوں کی افزائش پر ہیں جن میں رہو، بام، تلاپیہ، سنگھاڑی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق پنجاب کے دریاؤں، ڈیموں اور بیراجوں میں مچھلیوں کے علاوہ دیگر آبی حیات جن میں کچھوے، مینڈک، جھینگے، سیپ اور کیکڑے شامل ہیں ان کی افزائش پر کیا اثرات پڑے ہیں اور یہ کس قدر ناپید ہوچکے ہیں اس حوالے سے کوئی سروے نہیں کیا گیا ہے۔ پنجاب وائلڈلائف بھی زیادہ تر آبی پرندوں اور مگھر مچھوں کا سروے کرتا ہے۔