ناانصافی
میں تجھے خوب جانتا ہوں آخر توکیا شے ہے تیرا آغاز پانی کا ایک بدبودار قطرہ ہے ۔۔۔
MANSEHRA:
چارلس ڈکنز اپنے ناول عظیم توقعات Great Expectations میں لکھتا ہے کہ کوئی بھی چیز اتنی باریکی سے نہیں دیکھی اور محسو س کی جاتی جتنی کہ ناانصافی۔ کھلی نا انصافی کے شدید شعور کا اطلاق تمام انسانوں پر یکساں ہوتا ہے جو چیز ہمیں خاصے معقول طور پر متاثر کرتی ہے وہ یہ احساس نہیں ہے کہ دنیا مکمل طور پر انصاف کی پابند نہیں ہے بلکہ یہ کہ ہمارے اردگرد واضح طور پر ایسی قابل اصلاح ناانصافیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ہم ختم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ فرض کرنا جائز ہے کہ ان واضح نا انصافیوں کے شعور کے بغیر جن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پیرس کے باسیوں نے باسٹیل جیل پر دھاوا نہ بولا ہوتا، گاندھی اور قائداعظم نے اس سلطنت کو نہ للکارا ہوتا جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ مارٹن لوتھر کنگ نے آزاد لوگوں کی سر زمین اور بہادر لوگوں کے دیس میں سفید فام غالب قو ت کے خلاف جنگ نہ کی ہوتی۔ سقراط نے زہر کا پیالہ نہ پیا ہوتا برونو اور سرویتس آگ میں نہ کودے ہوتے تو آج انصاف اور سچ دفن ہو چکے ہوتے۔ یہ سب مکمل طور پر منصفانہ دنیا کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے بلکہ واضح نا انصافیوں کو اس حد تک دور کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس حد تک وہ کر سکتے تھے۔
انسان پر سب سے شدید حملہ نا انصافی کا ہوتا ہے جس سے اس کے اندر اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصور بھی محال ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ براہ راست اس کی عزت نفس پر ہوتا ہے انسان ہر چیز برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنی عزت نفس کی بے حرمتی اسے برداشت نہیں ہے۔ ملک کے وسائل اور اختیارات کے اصل مالک ا س کے عوام ہوتے ہیں جب ان وسائل اور اختیارات پر جبراً کچھ افراد قابض ہو جاتے ہیں اور وسائل اور اختیارات کا رخ عوام کے بجائے اپنے اور اپنے پیاروں کی طرف موڑ دیتے ہیں تو ناانصافیوں کی ابتداء ہو جاتی ہے اور یہ وہ نقطہ ہے جہاں سے عام لوگوں کی بر بادیوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ان کے اندر وہ ٹو ٹ پھوٹ شروع ہوتی ہے کہ وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں اور ان کے اندر نفرت اپنی جڑیں چاروں طرف نکالنا شروع کر دیتی ہے۔
ناانصافی کی سب سے وحشت زدہ تصویر پاکستان ہے جسے دیکھ کر انسان دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔ ایک سوئس بینک کے ڈائریکٹر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے 97 ارب ڈالر کی رقم سوئس بینک میں پڑی ہے جو کہ 30 سال کے لیے ٹیکس فری بجٹ کے لیے کافی ہے۔ اس سے 6 کروڑ پاکستانیوں کو Jobs دی جا سکتی ہیں ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک 4 رویہ سٹرکیں بن سکتی ہیں۔ 500 سے زیادہ پاور پر اجیکٹس کے ذریعے ہمیشہ جی ہاں ہمیشہ کے لیے فری بجلی دی جا سکتی ہے ہر پاکستانی ماہانہ بیس ہزار روپے 60 سال تک لے سکتا ہے۔
یاد رہے اس دولت کے اصل مالک پاکستان کے عوام ہیں یہ پاکستان کے عوام کی دولت ہے جو لٹیروں نے ان سے لوٹ لی ہے ایک بات تو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لو لٹیرو جس طرح تم نے لوگوں کے چین کو لو ٹا ہے ان لٹنے والوں کی آہیں اور بددعائیں تمہارے چین کو بھی ایک دن لوٹ لیں گی تم بھی چین کے لیے تڑپتے پھرو گے لیکن کہیں بھی تمہیں چین نصیب نہیں ہو گا یہ خدا کا قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا۔
انسان کے دل سے نکلی بدد عا اور آہیں عرش کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہیں جس طرح آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ اندر ایک خو فناک لا وا پک رہا ہے اسی طرح آج تمہیں یہ احساس تک نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام کس طرح اندر سے لاوے کی طرح پک رہے ہیں۔ یہ تمہارا غرور اور تکبر تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا ایک دفعہ بصرہ کا حاکم بڑے غرور اور تمکنت کے ساتھ اکڑتا ہوا حضرت مالک ؒبن دینا کے سامنے سے گزرا آپ نے فرمایا ''یہ غرور کی چال بدل ڈالو'' حاکم بصرہ کے خدام حضرت مالک ؒ بن دینا کی طرف دوڑے کہ ان کو اس گستاخی کی سزا دیں لیکن حاکم نے ان کو روک دیا اور خود حضرت مالک ؒ سے مخاطب ہو کرکہنے لگا معلوم ہوتا ہے کہ آپ مجھے پہچانتے نہیں ہیں۔ آپ نے جواب دیا۔
میں تجھے خوب جانتا ہوں آخر توکیا شے ہے تیرا آغاز پانی کا ایک بدبودار قطرہ ہے اور تیرا انجام بدبودار مردہ جسم ہے اور آغاز و انجام کا درمیانی وقفہ تیرے کام کرنے کا وقت ہے۔ اس دوران میں جیسا بوئے گا ویسے کاٹے گا۔ حاکم بصرہ نے یہ سن کر گردن جھکا لی اور چپکے سے چلا گیا۔ جب سکندر اعظم 325 ق م میں شمال مغربی ہندوستان میں گھو ما تو وہ پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی بادشاہوں کے ساتھ لڑائیوں کے ایک سلسلے میں الجھا اور ساری کی ساری جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہو سکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جوش و خروش پیدا کر سکتے کہ وہ طاقتور شاہی نندا خاندان پر حملہ کر سکیں جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا (جواب پٹنہ کہلاتا ہے) ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا۔ تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیار نہ تھا اور ارسطو کے اچھے شاگر د کے طور پر اس نے خاصا وقت ہندوستانی فلسفیوں اور نظریہ سازوں (مذہبی اور سماجی) کے ساتھ پر سکون گفتگو منعقد کرنے میں گزارا۔
ایک زیادہ پر جو ش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پو چھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس سوال کا اس نے درج ذیل جواب پایا ''بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے حصے کا مالک ہو سکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہیں آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح کے ایک انسان ہو سوائے اس کے کہ آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں اپنے گھر سے اتنے میل ہا میل دور سفر کر رہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پر یشانی کا باعث ہو۔ آپ جلد ہی مر جائو گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہو گے جو آپ کو اپنے اندر چھپا نے کے لیے کا فی ہو گی۔'' سکندر اعظم کے مزار پر جو لوح نصب ہے اس پر یہ تحریر درج ہے جس شخص کے لیے کبھی دنیا کی سلطنت بھی کافی نہ تھی اب اس کے لیے یہ ایک قبر کافی ہے ۔
روپے پیسے کی خا طر اپنے ہی ہم زبان، ہم مذہب، ہم نسل کو روندنے اور کچلنے والوں انھیں اپنی بھوک اور ہوس کی خاطر ذلیل و خوار کر نے والوں یہ یاد رکھو تمہیں اپنے تمام اعمال کا حساب اسی دنیا اور اسی ہی زندگی میں دینا ہے اور جلد ہی دینا ہے۔ یہ عہدے، رتبے، روپے پیسے، یہ محلات، یہ زمینیں تمہارے کچھ بھی کام نہ آئیں گی ۔