سلامتی کی دیواریں
حکومتی ارباب اختیار ہوں یا پیمرا کا کردار اب سب کچھ پاکستان کے عوام کے سامنے آ چکے بس کہ معاملہ کس نہج پر ہے ۔۔۔
MANSEHRA:
پروین شاکر نے کتنا سچ کہا تھا جس کا مفہوم تھا کہ وہ جھوٹ بھی بولے گا اور جیت جائے گا آج کل ہمارے اردگرد یہی کچھ ہو رہا ہے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلا دو کہ وہ سچ لگنے لگے ۔ حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کا ہر درد مند انسان کو شدید دکھ ہے مگر اس حملے کو جس طرح پس پشت ڈال کر مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ بذات خود ایک قومی جرم ہے۔ چینل کا معاملہ تو ایک الگ چیز ہے جو اس ادارے کی پالیسی تھی تو ان کا ردعمل عین اس کے مطابق تھا جو کسی کا کھاتے ہیں وہ راگ بھی اسی کا الاپتے ہیں مگر افسوس ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایسے گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور فخر سے اعلان بھی کرتے ہیں ۔
یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ جیو چینل ہمیشہ سے فوج مخالف رہا ہے اور اپنی سیکریٹ ایجنسیوں کو بدنام کرنے میں اس چینل نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آزادی صحافت کے نام پر درپردہ ملک دشمن عناصر کے جذبات کی پیروی کرتا نظر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک عام آدمی بھی کہنے پر مجبور ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے اور سونے پر سہاگہ ہمارے حکومتی ارکان کا رویہ عجیب ہے ، ان کا مکمل جھکاؤ ایسے چینل کی طرف ہے اور اس دست شفقت کی وجہ سے اس چینل کو اپنی غلطیوں پر نہ تو کوئی پشیمانی ہے اور نہ ہی کوئی احساس ندامت بلکہ جواز در جواز تلاش کیے جا رہے ہیں اور کیوں نہ ہوں آخر حکومتی جھکاؤ جو نظر آ رہا ہے حکومتی وزیر کی بات کو شہ سرخیوں میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ تمام لوگ جیو کے خلاف کیوں ہو رہے ہیں باقی سارے چینلز بھی تو یہ کام کر رہے ہیں
۔ طلال صاحب آپ حکومت کا حصہ ہیں جیو ٹی وی کے تنخواہ دار نہیں کہ آپ اپنی نوکری بچانے کے لیے اس طرح کے بے تکے بیانات دیں اور حکومتی عہدیدار ہونے کی حیثیت سے آپ کا تو فرض بنتا تھا کہ ملک و قوم کے دفاعی اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں آپ کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ وہ ملک و قوم کے دفاعی اداروں کو بدنام کرنے میں ایسے لوگوں کا ساتھ دیں جن کے مذموم مقاصد اب ہر ذی شعور پاکستانیوں کے سامنے آ چکے ہیں خدارا اداروں کو شفاف تحقیق کرنے دیں اپنے ہی سیکیورٹی اداروں پر اگر الزام لگائیں گے تو ملک کی سلامتی کی دیواریں شکستہ ہو کر گر جائیں گی اور خدانخواستہ پھر وہ ہی ہو گا جو کہ پاکستان کو کمزور کرنیوالے ممالک کی خواہش ہے۔
مسلم لیگ (ن) وفاق کی نمایندہ ہے مگر اس نے معلوم نہیں کون سے ملک دشمن عناصر کی مشاورت سے یہ طے کیا ہے کہ ملک کی سلامتی کے اداروں کا وقار پس پشت ڈال کر ایسے میڈیا گروپ کا ساتھ دیا جائے جس کی سرگرمیاں سب کے سامنے ہیں۔ بھارت نواز پالیسیوں کا علمبردار آئی ایس آئی اور ملک کے دوسرے دفاعی اداروں کے جس طرح پیچھے پڑا ہے اور جس تواتر سے مختلف واقعات کی آڑ لے کر فوج کی کردار کشی کی جا رہی تھی اس سے کیا یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ کن لوگوں کے خیالات کا پرچار کیا جا رہا ہے۔
حکومتی ارباب اختیار ہوں یا پیمرا کا کردار اب سب کچھ پاکستان کے عوام کے سامنے آ چکے بس کہ معاملہ کس نہج پر ہے جب ملک کا وزیراعظم اپنی فوج سے اظہار یکجہتی کی بجائے میڈیا گروپ سے اظہار یکجہتی کرتا ہے اور ان کے ایک وزیر آن دی ریکارڈ برملا فوج کو برا بھلا کہتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں دلیل والوں کے ساتھ ہیں تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ حکمراں پاکستان کے ساتھ پاکستانی عوام کے ساتھ کتنے مخلص ہیں ۔
کسی بھی ملک کی فوج کی مضبوطی کا تعلق اس ملک کی سلامتی سے مربوط ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے تو کبھی اپنے ملک کی بقا کے لیے سوچا ہی نہیں نہ ہی لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آواز کو مدنظر رکھا بلکہ ہمارے کچھ سیاستدانوں کا مطمع نظر صرف دشمن کے مذموم مقاصد کی پشت پناہی کرنا ہے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری فوج ہی ہے جو ہمیشہ را، موساد اور سی آئی اے کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے ہمارا ایٹمی پروگرام اور ہماری فوج کی کارکردگی کی وجہ سے ہی آج پاکستان سلامت ہے اور اسی لیے بھارت کھل کر سامنے آنے کی بجائے دوسرے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
پانی کا معاملہ ہو یا دوسرے ایشو بھارت مسلسل ایک جونک کی طرح ہمارا لہو پی رہا ہے مگر ہم اب بھی امن کی آشا کے گیت الاپے جا رہے ہیں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی سے کسی کو انکار نہیں مگر یہ تعلقات برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں مگر صورتحال یہ ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں اتنا آگے نکل گیا ہے کہ وہ ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ حامد میر کے واقعے پر جس طرح بھارتی چینلز نے اظہار ہمدردی کی آڑ میں اپنے عزائم کا اظہار کیا اور جس طرح وزیراعظم کو خط لکھ کر دھمکی دی گئی کیا یہ کافی نہیں ہے کہ کون کس کے ساتھ ہے اسی لیے آج حکومتی وزرا ڈنکے کی چوٹ پر چینل کا ساتھ دیکر اپنے ہی اداروں کی شکستگی کا باعث بن رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارت کارگل کے مقام پر اپنی اندرونی شکست کو نہیں بھولا ہے کارگل پر جو جنگ چھیڑی گئی تھی۔
درحقیقت اس نے بھارت سمیت دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو نچا کر رکھ دیا تھا کہ ان کی ناک کے نیچے کیسے پاکستانی فوجیوں نے اتنے بلند ترین مقام پر اپنا سامان رسد منتقل کیا۔ بھارت کے آرمی چیف کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے ۔کارگل پر قائم کی گئی ریویو کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ معرکہ کارگل میں پاکستان نے بھارت کی را سمیت تمام ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دی تھی اس لیے آرمی چیف اپنی کتاب Kargil From Surprise میں لکھتے ہیں کہ بھارتی افواج کے پاس پاکستانی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہلکے ہتھیار ہی نہیں تھے پاکستانی فوج نے جس طرح بلند ترین مقام پر اپنے آپ کو مستحکم کیا کہ کسی کو بھی اس کی خبر نہ ہو سکی یہ الگ کارنامہ تھا بھارت اور دوسرے ادارے اس لیے پریشان ہیں کہ پاکستانی فوج کا آمنے سامنے مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
اس لیے وہ فوج کے خلاف اپنے دوستوں کے ذریعے کارروائیاں ڈالتے رہتے ہیں تا کہ پاکستانی فوج میں دراڑ پڑے کس طرح فوج کمزور ہو اور پھر خدانخواستہ پاکستان پر قبضہ کر کے اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے مجھ جیسے کم علم انسان کو جب یہ بات سمجھ آ سکتی ہے تو کیا ہمارے 3 مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم اور ان کے سیانے وزیروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ آج وہ ملکی سلامتی کے ذمے داروں کے ساتھ نہیں کھڑے ہونگے تو کیسے دعوے کرینگے ملک کے عوام کی حالت بدلنے کے۔ ارباب بست وکشاد یاد رکھیں کہ ملک و قوم کی سلامتی کے لیے کی جانیوالی کوششیں ہی آپ کو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں۔
پروین شاکر نے کتنا سچ کہا تھا جس کا مفہوم تھا کہ وہ جھوٹ بھی بولے گا اور جیت جائے گا آج کل ہمارے اردگرد یہی کچھ ہو رہا ہے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلا دو کہ وہ سچ لگنے لگے ۔ حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کا ہر درد مند انسان کو شدید دکھ ہے مگر اس حملے کو جس طرح پس پشت ڈال کر مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ بذات خود ایک قومی جرم ہے۔ چینل کا معاملہ تو ایک الگ چیز ہے جو اس ادارے کی پالیسی تھی تو ان کا ردعمل عین اس کے مطابق تھا جو کسی کا کھاتے ہیں وہ راگ بھی اسی کا الاپتے ہیں مگر افسوس ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایسے گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور فخر سے اعلان بھی کرتے ہیں ۔
یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ جیو چینل ہمیشہ سے فوج مخالف رہا ہے اور اپنی سیکریٹ ایجنسیوں کو بدنام کرنے میں اس چینل نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آزادی صحافت کے نام پر درپردہ ملک دشمن عناصر کے جذبات کی پیروی کرتا نظر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک عام آدمی بھی کہنے پر مجبور ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے اور سونے پر سہاگہ ہمارے حکومتی ارکان کا رویہ عجیب ہے ، ان کا مکمل جھکاؤ ایسے چینل کی طرف ہے اور اس دست شفقت کی وجہ سے اس چینل کو اپنی غلطیوں پر نہ تو کوئی پشیمانی ہے اور نہ ہی کوئی احساس ندامت بلکہ جواز در جواز تلاش کیے جا رہے ہیں اور کیوں نہ ہوں آخر حکومتی جھکاؤ جو نظر آ رہا ہے حکومتی وزیر کی بات کو شہ سرخیوں میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ تمام لوگ جیو کے خلاف کیوں ہو رہے ہیں باقی سارے چینلز بھی تو یہ کام کر رہے ہیں
۔ طلال صاحب آپ حکومت کا حصہ ہیں جیو ٹی وی کے تنخواہ دار نہیں کہ آپ اپنی نوکری بچانے کے لیے اس طرح کے بے تکے بیانات دیں اور حکومتی عہدیدار ہونے کی حیثیت سے آپ کا تو فرض بنتا تھا کہ ملک و قوم کے دفاعی اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں آپ کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ وہ ملک و قوم کے دفاعی اداروں کو بدنام کرنے میں ایسے لوگوں کا ساتھ دیں جن کے مذموم مقاصد اب ہر ذی شعور پاکستانیوں کے سامنے آ چکے ہیں خدارا اداروں کو شفاف تحقیق کرنے دیں اپنے ہی سیکیورٹی اداروں پر اگر الزام لگائیں گے تو ملک کی سلامتی کی دیواریں شکستہ ہو کر گر جائیں گی اور خدانخواستہ پھر وہ ہی ہو گا جو کہ پاکستان کو کمزور کرنیوالے ممالک کی خواہش ہے۔
مسلم لیگ (ن) وفاق کی نمایندہ ہے مگر اس نے معلوم نہیں کون سے ملک دشمن عناصر کی مشاورت سے یہ طے کیا ہے کہ ملک کی سلامتی کے اداروں کا وقار پس پشت ڈال کر ایسے میڈیا گروپ کا ساتھ دیا جائے جس کی سرگرمیاں سب کے سامنے ہیں۔ بھارت نواز پالیسیوں کا علمبردار آئی ایس آئی اور ملک کے دوسرے دفاعی اداروں کے جس طرح پیچھے پڑا ہے اور جس تواتر سے مختلف واقعات کی آڑ لے کر فوج کی کردار کشی کی جا رہی تھی اس سے کیا یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ کن لوگوں کے خیالات کا پرچار کیا جا رہا ہے۔
حکومتی ارباب اختیار ہوں یا پیمرا کا کردار اب سب کچھ پاکستان کے عوام کے سامنے آ چکے بس کہ معاملہ کس نہج پر ہے جب ملک کا وزیراعظم اپنی فوج سے اظہار یکجہتی کی بجائے میڈیا گروپ سے اظہار یکجہتی کرتا ہے اور ان کے ایک وزیر آن دی ریکارڈ برملا فوج کو برا بھلا کہتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں دلیل والوں کے ساتھ ہیں تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ حکمراں پاکستان کے ساتھ پاکستانی عوام کے ساتھ کتنے مخلص ہیں ۔
کسی بھی ملک کی فوج کی مضبوطی کا تعلق اس ملک کی سلامتی سے مربوط ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے تو کبھی اپنے ملک کی بقا کے لیے سوچا ہی نہیں نہ ہی لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آواز کو مدنظر رکھا بلکہ ہمارے کچھ سیاستدانوں کا مطمع نظر صرف دشمن کے مذموم مقاصد کی پشت پناہی کرنا ہے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری فوج ہی ہے جو ہمیشہ را، موساد اور سی آئی اے کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے ہمارا ایٹمی پروگرام اور ہماری فوج کی کارکردگی کی وجہ سے ہی آج پاکستان سلامت ہے اور اسی لیے بھارت کھل کر سامنے آنے کی بجائے دوسرے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
پانی کا معاملہ ہو یا دوسرے ایشو بھارت مسلسل ایک جونک کی طرح ہمارا لہو پی رہا ہے مگر ہم اب بھی امن کی آشا کے گیت الاپے جا رہے ہیں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی سے کسی کو انکار نہیں مگر یہ تعلقات برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں مگر صورتحال یہ ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں اتنا آگے نکل گیا ہے کہ وہ ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ حامد میر کے واقعے پر جس طرح بھارتی چینلز نے اظہار ہمدردی کی آڑ میں اپنے عزائم کا اظہار کیا اور جس طرح وزیراعظم کو خط لکھ کر دھمکی دی گئی کیا یہ کافی نہیں ہے کہ کون کس کے ساتھ ہے اسی لیے آج حکومتی وزرا ڈنکے کی چوٹ پر چینل کا ساتھ دیکر اپنے ہی اداروں کی شکستگی کا باعث بن رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارت کارگل کے مقام پر اپنی اندرونی شکست کو نہیں بھولا ہے کارگل پر جو جنگ چھیڑی گئی تھی۔
درحقیقت اس نے بھارت سمیت دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو نچا کر رکھ دیا تھا کہ ان کی ناک کے نیچے کیسے پاکستانی فوجیوں نے اتنے بلند ترین مقام پر اپنا سامان رسد منتقل کیا۔ بھارت کے آرمی چیف کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے ۔کارگل پر قائم کی گئی ریویو کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ معرکہ کارگل میں پاکستان نے بھارت کی را سمیت تمام ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دی تھی اس لیے آرمی چیف اپنی کتاب Kargil From Surprise میں لکھتے ہیں کہ بھارتی افواج کے پاس پاکستانی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہلکے ہتھیار ہی نہیں تھے پاکستانی فوج نے جس طرح بلند ترین مقام پر اپنے آپ کو مستحکم کیا کہ کسی کو بھی اس کی خبر نہ ہو سکی یہ الگ کارنامہ تھا بھارت اور دوسرے ادارے اس لیے پریشان ہیں کہ پاکستانی فوج کا آمنے سامنے مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
اس لیے وہ فوج کے خلاف اپنے دوستوں کے ذریعے کارروائیاں ڈالتے رہتے ہیں تا کہ پاکستانی فوج میں دراڑ پڑے کس طرح فوج کمزور ہو اور پھر خدانخواستہ پاکستان پر قبضہ کر کے اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے مجھ جیسے کم علم انسان کو جب یہ بات سمجھ آ سکتی ہے تو کیا ہمارے 3 مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم اور ان کے سیانے وزیروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ آج وہ ملکی سلامتی کے ذمے داروں کے ساتھ نہیں کھڑے ہونگے تو کیسے دعوے کرینگے ملک کے عوام کی حالت بدلنے کے۔ ارباب بست وکشاد یاد رکھیں کہ ملک و قوم کی سلامتی کے لیے کی جانیوالی کوششیں ہی آپ کو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں۔