آمریتوں سے جمہوریت تک کا ناکام سفر
پاکستان میں عدلیہ نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی، نہ اس کے قانون سازی کے حق کا احترام کیا
ملک میں پہلی بار چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دس ججزکے اکثریتی فیصلے میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور قانون سازی کی برتری تسلیم کی گئی اور جن ججز نے اس کی مخالفت کی، وہ وہی ہیں جنھیں ہم خیال کا نام دیا جاتا ہے ۔
پاکستان میں عدلیہ نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی، نہ اس کے قانون سازی کے حق کا احترام کیا، بلکہ گزرے چھ سات برسوں میں تو پارلیمنٹ کی چلنے دی گئی اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو قانون بننے سے پہلے ہی کالعدم قرار دیا جاتا رہا ہے۔
1956 کے آئین کے خاتمے اور 1973 کے آئین کی متعدد بار معطلی کے اور بحالی کے چکر میں آئین کے 50 سال تو مکمل ہو گئے مگر آئین میں بعض خامیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور رہی۔ جنرل پرویز کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار دیا جو صرف پارلیمنٹ کا آئینی اختیار تھا مگر اس وقت کی سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کو قانونی کور فراہم کردیا۔
یہ الگ بات ہے کہ جنرل پرویز نے ہی ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا جب کہ 1985 کے بعد سے 1999 تک کوئی پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر سکی اور نہ ہی کسی وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری کرنے دی گئی۔
وزیر اعظم کو فوجی صدور، سویلین صدور کے بعد 2008 میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سپریم کورٹ نے دو منتخب وزرائے اعظم کو عہدے سے ہٹایا جب کہ اس سے قبل فوجی صدور اور سویلین صدور ہی وزیر اعظم کو برطرف کیا کرتے تھے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے آئین مارشل لا کو روکنے کی کوشش کی تھی جو 1977 میں ناکام رہی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور میں سویلین صدور کے 58-2/B کے اس اختیار کو ختم کیا جو فوجی صدر کے بعد دو سویلین صدور کو حاصل ہوگیا جس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کرکے پارلیمنٹ بھی ختم کی تھی مگر سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں تین سال میں الیکشن کرانا پڑے تھے جس پارلیمنٹ سے انھوں نے وردی میں خود کو صدر منتخب کرا لیا تھا۔
جنرل پرویز کے اقتدار میں پارلیمنٹ اتنی مضبوط تھی کہ پارلیمنٹ سے خطاب جنرل پرویز صرف ایک بار کر سکے تھے اور اپنے خلاف پارلیمنٹ کے رویے پر انھوں نے آئین کے مطابق کیا جانے والا یہ صدارتی خطاب بھی ترک کردیا تھا اور پارلیمنٹ میں نعرے بازی پر سخت برہمی کا اظہارکیا تھا۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ آئین کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں جو بھی خطاب کریں، اس پر گرفت نہیں ہوتی اور پہلی بار اتحادی حکومت میں پارلیمنٹ میں بعض عدالتی فیصلوں پر کڑی تنقید ہوئی ۔
پہلے پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کیے گئے وزیر اعظم کو دور آمریت میں نقصان پہنچا اور فوجی جنرلوں نے اقتدار سنبھال کر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ برطرف کی مگر جنرل پرویز مشرف دور میں 2007 تک قومی اسمبلی نے پہلی بار اپنی مدت پوری کی مگر اس پارلیمنٹ نے جنرل پرویز کی مرضی کے تین وزرائے اعظم منتخب کیے تھے۔
2008 کی پارلیمنٹ کے بعد ملک میں آمریت کی جگہ جمہوریت تو آگئی مگر عدلیہ بحالی کے بعد مضبوط عدلیہ نے دو بار ملک کے منتخب وزرائے اعظم کو برطرف کیا ۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے عمر عطا بندیال تک عدلیہ نے پارلیمنٹ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں اور اسے مضبوط نہیں ہونے دیا۔ پارلیمنٹ کے منظور کیے کیے قوانین اور ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جاتا رہاجس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور ہوئی اور آمریت کے بعد جمہوریت کا سفر کمزور ہوا۔ دنیا میں پارلیمنٹ مضبوط اور بااختیار ہوتی ہے۔
1973 کا آئین پارلیمنٹ نے بنایا تھا ، ہر ادارے کے لیے قانون سازی کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے مگر پارلیمنٹ اپنے اس حق اور اختیار پر سمجھوتے بازی کرتی رہی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی مگر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے جانے کے بعد پارلیمنٹ کو اپنے حق اور اختیار کے لیے مزاحمت کرنا پڑی، جس کے جمہوریت اور سسٹم پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان میں عدلیہ نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی، نہ اس کے قانون سازی کے حق کا احترام کیا، بلکہ گزرے چھ سات برسوں میں تو پارلیمنٹ کی چلنے دی گئی اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو قانون بننے سے پہلے ہی کالعدم قرار دیا جاتا رہا ہے۔
1956 کے آئین کے خاتمے اور 1973 کے آئین کی متعدد بار معطلی کے اور بحالی کے چکر میں آئین کے 50 سال تو مکمل ہو گئے مگر آئین میں بعض خامیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور رہی۔ جنرل پرویز کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار دیا جو صرف پارلیمنٹ کا آئینی اختیار تھا مگر اس وقت کی سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کو قانونی کور فراہم کردیا۔
یہ الگ بات ہے کہ جنرل پرویز نے ہی ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا جب کہ 1985 کے بعد سے 1999 تک کوئی پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر سکی اور نہ ہی کسی وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری کرنے دی گئی۔
وزیر اعظم کو فوجی صدور، سویلین صدور کے بعد 2008 میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سپریم کورٹ نے دو منتخب وزرائے اعظم کو عہدے سے ہٹایا جب کہ اس سے قبل فوجی صدور اور سویلین صدور ہی وزیر اعظم کو برطرف کیا کرتے تھے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے آئین مارشل لا کو روکنے کی کوشش کی تھی جو 1977 میں ناکام رہی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور میں سویلین صدور کے 58-2/B کے اس اختیار کو ختم کیا جو فوجی صدر کے بعد دو سویلین صدور کو حاصل ہوگیا جس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کرکے پارلیمنٹ بھی ختم کی تھی مگر سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں تین سال میں الیکشن کرانا پڑے تھے جس پارلیمنٹ سے انھوں نے وردی میں خود کو صدر منتخب کرا لیا تھا۔
جنرل پرویز کے اقتدار میں پارلیمنٹ اتنی مضبوط تھی کہ پارلیمنٹ سے خطاب جنرل پرویز صرف ایک بار کر سکے تھے اور اپنے خلاف پارلیمنٹ کے رویے پر انھوں نے آئین کے مطابق کیا جانے والا یہ صدارتی خطاب بھی ترک کردیا تھا اور پارلیمنٹ میں نعرے بازی پر سخت برہمی کا اظہارکیا تھا۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ آئین کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں جو بھی خطاب کریں، اس پر گرفت نہیں ہوتی اور پہلی بار اتحادی حکومت میں پارلیمنٹ میں بعض عدالتی فیصلوں پر کڑی تنقید ہوئی ۔
پہلے پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کیے گئے وزیر اعظم کو دور آمریت میں نقصان پہنچا اور فوجی جنرلوں نے اقتدار سنبھال کر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ برطرف کی مگر جنرل پرویز مشرف دور میں 2007 تک قومی اسمبلی نے پہلی بار اپنی مدت پوری کی مگر اس پارلیمنٹ نے جنرل پرویز کی مرضی کے تین وزرائے اعظم منتخب کیے تھے۔
2008 کی پارلیمنٹ کے بعد ملک میں آمریت کی جگہ جمہوریت تو آگئی مگر عدلیہ بحالی کے بعد مضبوط عدلیہ نے دو بار ملک کے منتخب وزرائے اعظم کو برطرف کیا ۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے عمر عطا بندیال تک عدلیہ نے پارلیمنٹ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں اور اسے مضبوط نہیں ہونے دیا۔ پارلیمنٹ کے منظور کیے کیے قوانین اور ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جاتا رہاجس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور ہوئی اور آمریت کے بعد جمہوریت کا سفر کمزور ہوا۔ دنیا میں پارلیمنٹ مضبوط اور بااختیار ہوتی ہے۔
1973 کا آئین پارلیمنٹ نے بنایا تھا ، ہر ادارے کے لیے قانون سازی کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے مگر پارلیمنٹ اپنے اس حق اور اختیار پر سمجھوتے بازی کرتی رہی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی مگر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے جانے کے بعد پارلیمنٹ کو اپنے حق اور اختیار کے لیے مزاحمت کرنا پڑی، جس کے جمہوریت اور سسٹم پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔