محروم طبقات کی انتخابی عمل میں شمولیت کیلیے معاشرتی رویے بدلنا ہونگے ایکسپریس فورم
خواتین، خواجہ سراؤں، خصوصی افراد اور اقلیتوں کے لیے الیکٹورل گروپ کام کر رہا ہے، ڈپٹی ڈائریکٹر الیکشن کمیشن شبیر خان
الیکشن کمیشن جنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن کروانے کیلیے ہر طرح سے تیار ہے، محروم طبقات کی ووٹنگ میں شمولیت کیلیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، یہ ہماری ذمے داری ہے کہ الیکشن نہ صرف صاف، شفاف اور غیرجانبدار ہوں بلکہ تمام طبقات کی شمولیت کو بھی یقینی بنایاجائے، محروم طبقات کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کے لیے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار الیکشن کمیشن، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''محروم طبقات کی انتخابی عمل میں شمولیت'' کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر الیکشن کمیشن پنجاب شبیر خان نے کہا کہ صاف، شفاف، غیرجانبدار انتخابات کیلیے کام کر رہے ہیں، ہر صوبائی ہیڈ کوارٹر میں صنفی و سماجی شراکت داری کا ونگ خواتین اور محروم طبقات کی شمولیت یقینی بنا رہا ہے، جس حلقے میں 10 فیصد سے کم خواتین ووٹ کاسٹ کریں وہاں الیکشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ ووٹ کے عدم اندراج کی ایک بڑی وجہ شناختی کا رڈ کا نہ ہونا ہے۔
2017ء میں 116 اضلاع میں جینڈر گیپ 10 فیصد سے زائد تھا، وہاں خواتین کی ووٹ رجسٹریشن مہم شروع کی گئی، 2018ء میں 21 ملین نئے ووٹرز کو شامل کیا گیا جن میں سے 11 ملین خواتین تھی، پنجاب میں 13.84 ملین ووٹرز شامل ہوئے جن میں سے 7.55 ملین خواتین تھی، ہم پنجاب میں جینڈر گیپ 7 فیصد پر لے آئے ہیں۔
سربراہ سوشل ورک ڈپارٹمنٹ جامعہ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ عاشق نے کہا کہ خواتین میں ووٹ کی آگاہی کا مسئلہ ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے جڑے مالی فائدے کی وجہ سے بے شمار خواتین نے اپنے شناختی کارڈ بنوائے ، اگر خواتین کو ان کے ووٹ سے جڑے فوائد کے بارے میں درست آگاہی دی جائے تو ووٹر رجسٹریشن میں اضافہ ہوگا۔ گھروں میں خواتین فیصلہ سازی میں شامل نہیں، یہی رویہ معاشرے میں پھیلتا ہے۔
نمائندہ سول سوسائٹی آمنہ افضل نے کہا کہ ملک میں ایک کروڑ 20 لاکھ جبکہ پنجاب میں 65 لاکھ افراد کے ووٹ کا اندراج نہیں ہے، اس کی ایک بڑی وجہ شکاختی کارڈ کا نہ ہونا ہے، ہم نے ننکانہ صاحب میں 23 ہزار خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے ہیں، ان میں 99 برس کی خاتون بھی شامل ہے، شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین تعلیم، صحت، وراثت، بینک اکاؤنٹ، حکومتی سکیموں سمیت 23 مختلف سہولیات و حقوق سے محروم ہیں۔
2018 میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 50 فیصد رہا جبکہ فافن کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے 37 پولنگ سٹیشنز پر خواتین ووٹرز کی تعداد انتہائی کم رہی، ہم نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر ان علاقوں میں خواتین کی کپیسٹی بلڈنگ کی۔
ان خیالات کا اظہار الیکشن کمیشن، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''محروم طبقات کی انتخابی عمل میں شمولیت'' کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر الیکشن کمیشن پنجاب شبیر خان نے کہا کہ صاف، شفاف، غیرجانبدار انتخابات کیلیے کام کر رہے ہیں، ہر صوبائی ہیڈ کوارٹر میں صنفی و سماجی شراکت داری کا ونگ خواتین اور محروم طبقات کی شمولیت یقینی بنا رہا ہے، جس حلقے میں 10 فیصد سے کم خواتین ووٹ کاسٹ کریں وہاں الیکشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ ووٹ کے عدم اندراج کی ایک بڑی وجہ شناختی کا رڈ کا نہ ہونا ہے۔
2017ء میں 116 اضلاع میں جینڈر گیپ 10 فیصد سے زائد تھا، وہاں خواتین کی ووٹ رجسٹریشن مہم شروع کی گئی، 2018ء میں 21 ملین نئے ووٹرز کو شامل کیا گیا جن میں سے 11 ملین خواتین تھی، پنجاب میں 13.84 ملین ووٹرز شامل ہوئے جن میں سے 7.55 ملین خواتین تھی، ہم پنجاب میں جینڈر گیپ 7 فیصد پر لے آئے ہیں۔
سربراہ سوشل ورک ڈپارٹمنٹ جامعہ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ عاشق نے کہا کہ خواتین میں ووٹ کی آگاہی کا مسئلہ ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے جڑے مالی فائدے کی وجہ سے بے شمار خواتین نے اپنے شناختی کارڈ بنوائے ، اگر خواتین کو ان کے ووٹ سے جڑے فوائد کے بارے میں درست آگاہی دی جائے تو ووٹر رجسٹریشن میں اضافہ ہوگا۔ گھروں میں خواتین فیصلہ سازی میں شامل نہیں، یہی رویہ معاشرے میں پھیلتا ہے۔
نمائندہ سول سوسائٹی آمنہ افضل نے کہا کہ ملک میں ایک کروڑ 20 لاکھ جبکہ پنجاب میں 65 لاکھ افراد کے ووٹ کا اندراج نہیں ہے، اس کی ایک بڑی وجہ شکاختی کارڈ کا نہ ہونا ہے، ہم نے ننکانہ صاحب میں 23 ہزار خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے ہیں، ان میں 99 برس کی خاتون بھی شامل ہے، شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین تعلیم، صحت، وراثت، بینک اکاؤنٹ، حکومتی سکیموں سمیت 23 مختلف سہولیات و حقوق سے محروم ہیں۔
2018 میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 50 فیصد رہا جبکہ فافن کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے 37 پولنگ سٹیشنز پر خواتین ووٹرز کی تعداد انتہائی کم رہی، ہم نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر ان علاقوں میں خواتین کی کپیسٹی بلڈنگ کی۔