فیض آباد دھرنا کیس وزارت دفاع آئی بی پی ٹی آئی کی نظر ثانی درخواستیں خارج

ہم جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا، دوران سماعت چیف جسٹس کے ریمارکس

(فوٹو : فائل)

سپریم کورٹ نے وزارت دفاع اور انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) کی دھرنا نظر ثانی کیس کی درخواستیں خارج کر دیں، درخواستیں واپس لینے کی بنیاد خارج کی گئیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا جس کے مطابق وزارت دفاع اور آئی بی کی نظر ثانی درخواستیں واپس لینے کی بیناد پر خارج کی جاتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی نظر ثانی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔ پیمرا نے بھی نظر ثانی کی درخواست واپس لینے کی استدعا کی، پیمرا کے وکیل حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ انہیں سابق چیئرمین پیمرا کا جواب ابھی ملا ہے اور چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ ہم نے عمل درآمد رپورٹ جمع کرا دی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے بیان حلفی جمع کرایا جس میں ایک انفرادی شخص اور انکے نامعلوم ماتحت اہکاروں پر سنگین الزامات عائد کیے۔ ابصار عالم نے جس انفرادی شخص پر الزام لگایا وہ ہمارے سامنے پیش نہیں ہے۔

حکمنامے کے مطابق اگر وفاقی حکومت کمیشن تشکیل دیتا ہے تو ابصار عالم نے کہا کہ وہ پیش ہوکر بیان دیں گے، ابصار عالم نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگایا اگر وہ جرح کرے تو بھی کارروائی کا حصہ بنوں گا۔ حکومتی تین رکنی کمیٹی مؤثر نہیں ہے، عدالت نے پوچھا کیا حکومتی تین رکنی کمیٹی کسی کو طلب کر سکتی ہے لیکن ہمیں اسکا تسلی بخش جواب نہیں ملا۔

عدالتی حکمنامے میں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل نے کہا وہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دیں گے، اٹارنی جنرل کو کمیشن کے قیام کیلئے وفاقی حکومت کو تجویز دینے کیلئے وقت فراہم کرتے ہیں، حکومت اگر رضامند ہوئی تو کمیشن بنا کر نوٹیفکیشن پیش کرے، کمیشن کے ٹی او آرز بلکل واضح ہونے چاہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا وہ حکومت سے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی سفارش کریں گے اور انہوں نے انکوائری کمیشن کے قیام کا نوٹیفیکیشن پیش کرنے کی مہلت مانگی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت فیصلہ تسلیم کرتی ہے اور عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔ حافظ ایس اے رحمان وکیل پیمرا سے پوچھا کہ کسی عدالتی فیصلے کے حصے پر عمل ہوا، حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ وہ دلائل نہیں دینا چاہتے۔

حکم نامے کے مطابق ہم نے چیئرمین پیمرا سے پوچھا نظر ثانی دائر کرنے کا فیصلہ کس کا تھا، چیئرمین پیمرا نے متضاد جوابات دیے، پہلے کہا اتھارٹی نے نظر ثانی دائر کی پھر کہا زبانی اتھارٹی نے کہا تھا۔

کیس کی سماعت


سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ دیکھ لیں۔ اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابصار عالم یہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں بتایا گیا وہ راستے میں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ابصار عالم نے وزرات دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزام لگائے ہیں اور کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جا چُکی ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ وزرات دفاع سے متعلق ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ رپورٹ کس کو دے گی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی وزارت دفاع کو رپورٹ جمع کرائے گی، پہلا اجلاس 26 اکتوبر کو ہوچکا، کمیٹی رپورٹ عدالت میں بھی پیش کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں : سپریم کورٹ : ٹی ایل پی کی فارن فنڈنگ پر الیکشن کمیشن کی رپورٹ مسترد

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی ٹی او آرز کے ذریعے ہی تمام لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دے دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی فیصلے کے بعد ملک آئین پر چل رہا ہے؟ کیا آپ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ آج ملک آئین کے مطابق چل رہا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے پر آج تک عمل کیوں نہیں کیا گیا، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوئے اور واپس چلے گئے، دھرنا اچانک نہیں ہوا، مینج کون کر رہا تھا اور ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ کمیٹی رپورٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ٹی او آرز اتنے وسیع کر دیے کہ ہر کوئی بری ہو جائے گا، اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر سرکار کو کوئی پرواہ نہیں، ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ کون سے مخصوص واقعے کی انکوائری کرنی ہے، ہمارا کام حکم کرنا ہے آپ کا کام اس پر عمل کرانا ہے، کمیٹی ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ تحقیقات کس چیز کی کرنی ہیں؟ کیا تحقیقات سیلاب کی کرنی ہے یا کسی اور چیز کی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کمیٹی کی منظوری کابینہ نے دی ہے؟ کمیٹی کا قیام کس قانون کے تحت ہوا ہے؟

سپریم کورٹ نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا


چیف جسٹس نے کہا کہ واضح کریں کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے، کمیٹی کے قیام کی دستاویز صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے اور کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا، اگر ابصار عالم یا کوئی کمیٹی میں پیش ہونے سے انکار کرے تو کیا ہوگا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی اگر انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت بنتی تو شاید کچھ کر بھی سکتی، حکومت نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کچھ نہیں کیا، انکوائری کمیشن قانون کے تحت بنی کمیٹی کو تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں، حکومت پھر صاف کہہ دے کہ اس نے کچھ نہیں کرنا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انکوائری ایکٹ کے تحت نیا کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کمیشن کے لیئے وفاقی حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ حکومت فیصلے پر عمل درآمد چاہتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی بالادستی ہر قیمت پر قائم کرنی ہوتی ہے، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ تاریخی ہے۔

سپریم کورٹ نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے کیخلاف پہلے نو نظرثانی درخواستیں آئیں پھر سب نے اچانک واپس لے لیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والے شخص کو بھی کمیشن کا سربراہ بنا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نظرثانی دائر کرکے واپس لینا مذاق ہے؟ کون سا قانون کہتا ہے نظرثانی دائر ہوجائے تو فیصلے پر عمل نہیں کرنا؟ کیا ہماری حکومت نے کینیڈا کی حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ ایک شخص کینیڈا سے آتا ہے اور پورا ملک اوپر نیچے کرکے چلا جاتا ہے، کینیڈا نے سکھ رہنما کے قتل پر کتنا ردعمل دیا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم کینیڈا میں جا کر انکے پورے ملک کو ڈسٹرب کرسکتے ہیں؟ کیا کینیڈا سے آنے والے نے ٹکٹ خود خریدی تھی؟ پاکستان کا اتنا ہی درد ہے تو یہاں آ کر کیوں نہیں رہتے؟ کینیڈا کی سرزمین پر قتل ہوا انھوں نے کہا ہماری سرزمین پر قتل ہوا، تحقیقات کریں گے، اس واقعے میں دونوں ممالک کے تعلقات ختم ہونے کا اندیشہ ہے، یہاں ملک اور دین اسلام کو بدنام کریں کوئی پوچھنے والا نہیں، یہاں کسی کو کوئی پرواہ نہیں، کیا فیض آباد دھرنے کا مقصد حکومت کے خلاف سازش تھی، اصلی مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب تک ملک آئین کے تحت نہیں چلے گا لوگوں کی مشکلات حل نہیں ہوں گی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنے کے وقت حکومت اچھی تھی یا بری تھی جیسی بھی تھی عوام کے ووٹ سے آئی تھی، قانون میں تبدیلی کو ختم کرنے کے باوجود فیض آباد دھرنا جاری رکھنا عیاں کرتا ہے مقاصد کچھ اور تھے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ریفرنس ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، ایک وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم پاکستان انکوائری آف کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایسے بات نہ کریں، حکومت سے ہدایات لیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آئندہ کے لیے مثال ہونی چاہیے کہ اگر ایسا ہوا تو سنگین نتائج ہوں گے، ابصار عالم کے بیان حلفی کے تناظر میں تو پھر الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے آزاد نہیں تھے، کیا کوئی پاکستانی کینیڈا جاکر احتجاج کر سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لیکن کینیڈا سے تو کوئی یہاں آکر نظام مفلوج کر سکتا ہے، کینیڈا والے کو پاکستان کون لیکر آیا تھا۔

چیئرمین پیمرا عدالت طلب


سپریم کورٹ نے چیئرمین پیمرا کو فوری طلب کرلیا۔ چیئرمین پیمرا کو ابصار عالم کے بیان حلفی کے حوالے سے طلب کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہماری حکومت نے کینیڈا کی حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ ایک شخص کینیڈا سے آتا ہے اور پورا ملک اوپر نیچے کرکے چلا جاتا ہے، کینیڈا نے سکھ رہنما کے قتل پر کتنا ردعمل دیا ہے، کیا ہم کینیڈا میں جا کر انکے پورے ملک کو ڈسٹرب کرسکتے ہیں؟ کیا کینیڈا سے آنے والے نے ٹکٹ خود خریدی تھی؟ پاکستان کا اتنا ہی درد ہے تو یہاں آ کر کیوں نہیں رہتے؟

عدالت نے پیمرا کے وکیل سے استفسار کیا کہ پیمرا کے سابق چیئرمین کا بیان حلفی پڑھا ہے؟ حافظ ایس اے رحمان نے بتایا کہ ابصار عالم کا بیان حلفی مجھے ابھی ملا ہے، جس پر عدالت نے سینیئر وکیل حافظ ایس اے رحمان پر اظہار برہمی کیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کو بیان حلفی گھر جا کر دیتے؟

عدالت نے ڈی جی آپریشنز پیمرا کو روسٹم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے کالا کوٹ کیوں پہنا ہوا ہے؟ کیا آپ وکیل ہیں؟ ڈی جی آپریشنز نے جواب دیا کہ کالا رنگ روٹین میں پہنا ہے۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع


کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو چیئرمین پیمرا سلیم بیگ عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکیل نے سابق چیئرمین پیمرا کا بیان نہ پڑھنے کا بیان دیا، آپ کے وکیل کے بیان پر ہمیں تعجب ہوا۔ چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ کیا ابصار عالم کا بیان آپ نے پڑھا؟ چیئرمین پیمرا نے جواب میں کہا کہ ابصار عالم کے ذاتی بیان حلفی کے حقائق بارے میں لاعلم ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا آپ ہے ساتھ ایسا کبھی ہوا؟ چیئرمین پیمرا نے کہا کہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو ذاتی طور پر کچھ علم ہے یا نہیں، جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ دفتری امور کی تصدیق کرسکتا ہوں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کب سے چیئرمین پیمرا ہیں، سلیم بیگ نے بتایا کہ میں 28 جون 2018 سے چیئرمین پیمرا ہوں، چیئرمین پیمرا بننے سے پہلے انفارمیشن میں بطور پی آئی او فرائض سر انجام دے رہا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کوئی سول کورٹ نہیں جو دستاویز پڑھنے کیلئے مہلت دے دیں۔ چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابصار عالم صاحب نے کچھ کاغذات جمع کرائے ہیں۔ چیئرمین پیمرا نے کہا کہ میں نے رپورٹ پڑھی ہے، ابصار عالم کے ساتھ جو کچھ ہوا انہوں نے بیان کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اخباروں میں ابصار عالم کا بیان حلفی چھپ چکا ہے، عدالتی کاروائی کو سنجیدگی سے لیں۔3

چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ابصار عالم نے جو کہا مجھے اسکا نہیں پتہ، ابصار عالم کے بعد پیمرا میں چھ ماہ کا خلا رہا پھر میں تعینات ہوا اور چیئرمین پیمرا بننے سے پہلے پرنسپل آفیسر گریڈ 20 میں تھا، ابصار عالم نے جو الزامات لگائے مجھے نہیں پتہ، میں حقائق کی تصدیق کرسکتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپنی قانونی ٹیم کو کہیں مقدمے کو سنجیدہ لیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتےہوئے کہا کہ پیمرا سے متعلق فیض آباد دھرنا فیصلہ پڑھیں، کسی کو مارنا اور جلاؤ گھیراؤ کرنا اظہار رائے کی آزادی نہیں۔ کیا دو نجی ٹی وی چینلز کی اب بھی کینٹ ایریا میں پابندی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نظر ثانی واپس لے رہے ہیں تو کیا فیصلہ پر عمل در آمد ہوا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پیمرا کو جو ہدایات کی تھیں کیا ان پر عمل کیا گیا، کیا پیمرا اوپر سے کسی حکم کے آنے کا انتظار کر رہا ہے۔ پیمرا نے 110 صفحات میں سے کسی ایک پیراگراف پر عمل کیا تو وہ بتا دیں۔

چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ ایک ڈمی ادارے کے سربراہ ہیں، ملک کا ہر ادارہ مذاق بن چکا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ کتنے کیبل آپریٹر کے خلاف کارروائی کی، آپ نے خود بتایا آپ پر کوئی دباؤ نہیں تھا، یہاں جو بھی کرسی سے اترتا ہے کہتا ہے مجھ پر دباؤ تھا، یہ کلچر عام ہے۔

چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ آپ کی کتنی تنخواہ ہے، جس پر چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ ساڑھے چار لاکھ روپے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب فیض آباد دھرنا چل رہا تھا اس وقت آپ چیئرمین پیمرا تھے۔


جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اتفاق سے پانچ سال سے آپ چیئرمین پیمرا ہیں، دباؤ کا لفظ ہی غیر قانونی اقدام کو جواز دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کی کیا عمر ہے، جس پر چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ 63 سال عمر ہے اور میری دوبارہ تعیناتی ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دوبارہ تعیناتی کیسے ہوئی۔

دوران سماعت، وکیل حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ آپ مجھے کیس واپس لینے دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ جائیں۔ حافظ ایس اے رحمان نے کہا کہ یہ آپکا رویہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابصار صاحب نے جرات کرکے لوگوں کے نام لیے ہیں، ذرا سا ہم نے آپ کو دبایا آپ نے کہا ہم عمل درآمد کریں گے، نظرثانی درخواست کس کے کہنے پر دائر کی یا سب نے دائر کی تو آپ نے سوچا ہم بھی کر دیتے ہیں۔

پیمرا کے وکیل حافظ ایس اے رحمان عدالت چھوڑ کر روانہ ہوگئے


چیئرمین پیمرا نے کہا کہ پیمرا نے بطور ریگولیٹری ادارہ نظرثانی دائر کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ آپ کو لمبی عمر دے سچ بولیں، ہم آپ کو مضبوط کر رہے ہیں، ہم کہہ رہے ہیں بتائیں آپ کے امور میں کون مداخلت کر رہا ہے۔ چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ہماری غلطی تھی نظرثانی درخواست دائر کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سلیم بیگ آپ کا نام فیض آباد دھرنا کیس میں شامل ہے، آپ نے غلط بیانی کیوں کی کہ آپ کی تعیناتی بعد میں ہوئی، کیا آپ کو فیصلہ پسند نہیں تھا، آپ فیصلے پر عمل نہیں کرتے تو توہین عدالت بھی ہو سکتی ہے، چیئرمین پیمرا کی مدت ملازمت کتنی ہے۔

چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے بتایا کہ 4 سال کی مدت ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ کیسے اب تک بیٹھے ہیں۔ چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ دوبارہ تعیناتی کی گئی تھی۔

چیف جسٹس دوبارہ پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے،؟ چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے بتایا کہ اس وقت عمر 63 سال ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت کا کیا مطلب ہے، آج کی عمر ہی پوچھی ہے کل کی نہیں، اسکول میں کوئی ایسا جواب دے تو استاد کونے میں کھڑا کر دے گا۔

وکیل پیمرا کے درمیان میں بولنے پر چیف جسٹس وکیل پر برہم ہوگئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو درمیان میں زیادہ بولنا ہے تو اپنا کنڈکٹ دیکھ لیں، آپ کا کام ہے اپنے موکل کو بتانا کہ فیصلے پر عمل کریں، آپ نے یہ نہیں کرنا تو الگ ہو جائیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ایس اے رحمان کو دوبارہ مخاطب کرنے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلکل جانے دیں انہیں، یہ ان کا کنڈکٹ ہے، ابصار عالم نے لوگوں کا نام لیا آپ میں تو جرات نہیں، آپ کو کس نے نظرثانی درخواست دینے کا کہا تھا، آپ نے اللہ کو جواب نہیں دینا کیا؟ ایمانداری سے جواب دیں۔

چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے بتایا کہ پیمرا میں فیصلہ ہوا تھا نظرثانی میں جائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ جواب نہیں دے رہے تو ہم آڈر کریں گے، سلیم بیگ اللہ آپ کو لمبی زندگی دے مگر جانا ہم نے وہیں ہے، آپ ہمت پکڑیں اور بتا دیں نظرثانی میں جانے کا کس نے کہا تھا، پیمرا میں منظوری ہوئی تو وہ کہاں ہے، منظوری تحریری نہیں زبانی تھی۔

چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ زبانی فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے، جس پر چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ ہم سے غلطی ہوئی نظرثانی درخواست دائر کی۔

ڈائریکٹر لاء پیمرا طلب


چیف جسٹس نے ڈائریکٹر لاء پیمرا کو بلا لیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ تو سچ نہیں بول رہے آپ ہی بتا دیں، نظرثانی کا کس نے کہا تھا۔ ڈائریکٹر لاء پیمرا نے بتایا کہ مجھے اس کا علم نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون پڑھیں کیا پیمرا میں زبانی فیصلہ ہو سکتا، ہم آپ کو آج آپ کا قانون پڑھائیں گے۔

چیف جسٹس نے ڈائریکٹر لاء پیمرا سے سیکشن فائیو پڑھوا دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہ پڑھی ہوتی تو یہ نہ کہتے کہ تحریری فیصلہ کا کہیں نہیں لکھا، اٹارنی جنرل صاحب چیئرمین پیمرا کہہ رہے ہیں نظر ثانی کا پتہ ہی نہیں، کیسے دائر ہوئی، کوئی پراسرار قووتیں تھیں جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کروائی، پہلے آپ نے کہا نظر ثانی دائر کرنے کے لیے زبانی ممبران سے کہا، ریکارڈ بتا رہا ہے آپ کا اپنا فیصلہ تھا نظر ثانی دائر کرنے کے لیے، بتا دیں کس سے ڈرتے ہیں۔

چیئرمین پیمرا نے کہا کہ صرف اللہ سے ڈرتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر بتا دیں کس کے کہنے پر نظر ثانی دائر کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیر اعظم، سابق آرمی چیف اور سابق چیف جسٹس کو تحریری طور پر ابصار عالم نے آگاہ کیا، اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے جو بھی کرسی سے اترتا ہے کہتا ہے میں مجبور تھا، ہر کرسی سے اترنے والا وزیر اعظم کہتا ہے میں مجبور تھا اور اس وقت وزیر اعظم تو نواز شریف تھے، شاید اس وقت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تھے۔

عدالت نے ابصارعالم کو روسٹرم پر بلا لیا


چیف جسٹس نے ابصار عالم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے کچھ سوالات ہیں آپ سے، آپ کچھ خطوط کی بات کر رہے ہیں، آپ نے لکھا کہ میڈیا میں کچھ سرکش عناصر تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر نظرثانی کا تحریری فیصلہ نہیں ہوا تو آپ کی نظرثانی درخواست وجود ہی نہیں رکھتی، آپ تو پھر صرف ہمارا وقت ضائع کرنے آئے تھے، تین حکومتوں میں آپ چیئرمین پیمرا رہ چکے اور تینوں حکومتیں آپ سے خوش نہیں، نظرثانی درخواست پر دیکھیں کس کے دستخط ہیں، سلیم بیگ صاحب درخواست پر یہ آپ کے دستخط ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لکھا ہوا ہے آپ اپنے اختیارات کا استعمال کر کے اس کی منظوری دی، آپ دوسروں کے کندھوں پر بندوق نہ چلائیں، ذمہ داری لیں یہ نظرثانی آپ نے دائر کی، اللہ آپ کو لمبی عمر دے آپ کس سے ڈرتے ہیں۔

چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے جواب دیا کہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ سے ڈرتے ہیں تو ہماری عمروں میں کوئی بھی دن آخری ہو سکتا ہے۔

ابصار عالم نے بتایا کہ کیپل آپریٹر کے پاس انٹیلیجنس ادارے کے لوگ جاتے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں اگر اس وقت وزیر اعظم ہوتا تو انکوائری کرواتا، یا وزیر اعظم کو کہتا کہ پیمرا خود ایکشن لے۔ ابصار عالم نے بتایا کہ ایک کال آئی ہمارے پیمرا کے ممبر کو جو ریکارڈ ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فون کرنے والے کا نام بتائیں، جس پر ابصار عالم نے کہا کہ میں کنفرم نہیں کر سکتا کیونکہ بعض اوقات نام بدل کر فون کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری جواب پڑھیں۔ ابصار عالم نے کہا کہ میرے خلاف تین ہائی کورٹس میں درخواستیں آئیں، مجھے لاہور ہائی کورٹ نے 18 دسمبر کو بطور چیئرمین پیمرا ہٹا دیا، آپ نے کہا سچ سامنے لے کر آئیں اس لیے میں لے آیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہیں تو بطور شہری گھر میں بیٹھ سکتے ہیں، آپ نے خود کہا مجھے بلایا جاتا تو میں یہ بات کرتا، ہم نے تمام شہروں کو کہا کہ کوئی بھی آ کر تفصیل بتا سکتا ہے۔

ابصار عالم نے کہا کہ نجم سیٹھی نے پروگرام میں کہا ادارہ جاتی کرپشن ہوتی ہے، مجھے زبانی احکامات دیے جاتے تھے کہ نجم سیٹھی کو ہٹا دیں اور مجھے اسی وجہ سے ہٹایا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ موجودہ چیئرمین پیمرا کہہ رہے ہیں کوئی دباؤ نہیں آیا، جس پر ابصار عالم نے کہا کہ یہ تو خوش قسمت انسان ہیں پھر۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اگر کل سرکار کوئی کمیشن بنائے تو کیا آپ اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے، پھر کمیشن ان کو بھی بلائے جن پر آپ الزام لگائیں گے، جن پر الزام لگایا گیا ان کو بھی جرح کرنے کا حق ہے۔

ابصار عالم نے کہا کہ میں کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں کہ انکے نام کمیشن میں لوں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن صاحب کا نام آیا ہو ان کو بلایا گیا تو آپ کو بھی ان پر جرح کرنے کا حق ہوگا۔ ابصار عالم نے بتایا کہ صحافیوں میں یہ مشہور تھا کہ جس نے میرے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی وہ ایجنسیوں کا بندہ ہے۔

ابصار عالم سے چیف جسٹس کے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے خیال میں پیمرا نے نظر ثانی کیوں دائر کی، جب پیمرا نے نظر ثانی دائر کی اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید تھے، یا وزرات نے کہا ہوگا نظر ثانی دائر کرنے کے لیے یا خفیہ ادارے نے کہا ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سلیم بیگ صاحب وہ کون تھا جس نے کہا نظر ثانی دائر کریں۔ چیئرمین پیمرا سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوں، سچ سے ہی جان چھوٹ سکتی ہے۔

جنرل فیض حمید نے مجھے کال کی کہ چینل کو دوبارہ کھولو، ابصار عالم


ابصار عالم نے کہا کہ 2 ٹی وی چینلز کو نمبرز سے تبدیل کرنے کے خلاف میں نے ایکشن لیا، میرے ساتھ اصل جھگڑا ہی یہی تھا۔ میں نے ایک ٹی وی چینل کو بند کیا جنرل فیض حمید نے مجھے کال کی کہ چینل کو دوبارہ کھولو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ فوج کا ایک افسر ملک میں پرتشدد کارروائی چاہتا تھا، جس پر ابصار عالم نے کہا کہ میں دکھی دل سے کہہ رہا ہوں بلکل ایسے ہی ہے۔

چیف جسٹس نے چئیرمین پیمرا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پرانے بیوروکریٹ ہیں کھبی آپ کے خلاف کوئی درخواست ہوئی۔ سلیم بیگ نے جواب دیا کہ پانچ رکنی کمیٹی نے مجھے بطور چیئرمین پیمرا تعینات کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ابصار عالم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے نظام کو بے نقاب کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک فاشسٹ نے جرمنی کے ذریعے دوسری جنگ عظیم شروع کروا دی، پاکستان میں اکثریت مسلمان رہتے ہیں لیکن سچ کوئی نہیں بولتا، سلیم بیگ صاحب آپ کے دل میں کھٹک رہا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے سوچا ہوگا میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جاؤں اس لیے نظر ثانی دائر کر دی، یہاں کوئی سچی گواہی نہیں دیتا اور پبلک آفس ہولڈر اس وقت سچ بولتا ہے جب کرسی سے اتر جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست سپریم کورٹ میں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی گئی، مقدمہ بحالی کی درخواست کیوں نہیں دی گئی، انسان کو آخری دم تک جدوجہد کرتے رہنا چاہیے۔

ابصار عالم نے بتایا کہ جب ایک کال آئی تو میں نے آرمی چیف کو خط لکھا تھا اور پھر جنرل بلال نے مجھ سے خط کے حوالے سے رابطہ کیا۔

نظرثانی درخواست واپس لینے کے معاملے پر شیخ رشید کو نوٹس


ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے بتایا کہ شیخ رشید صاحب سے رابطہ نہیں ہو رہا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوامی طور پر پتا چلا ہے شیخ رشید چلے سے واپس آگئے ہیں۔ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے کہا کہ آپ شیخ رشید کو ذاتی حیثیت میں طلب کر کے پوچھ لیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا شیخ رشید جیل میں ہیں، شیخ رشید کمرہ عدالت میں کیوں موجود نہیں، شیخ رشید کو نوٹس کر دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواست واپس لینے کے معاملے پر شیخ رشید کو نوٹس جاری کر دیا۔

وکیل اعجاز الحق عدالت میں پیش

اعجاز الحق نے عدالتی فیصلے میں حساس ادارے کی رپورٹ کی تردید کر دی۔

وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ بیان حلفی کے مطابق مظاہرین کی کوئی حمایت نہیں کی تھی، اعجاز الحق اور مظاہرین کے درمیان گٹھ جوڑ کی کوشش جھوٹ پر مبنی ہے، اعجاز الحق نظرثانی کے بجائے اپنی ساکھ خراب کرنے پر دادرسی چاہتے ہیں، آئی ایس آئی نے اعجاز الحق کا نام غلط طور پر شامل کیا۔

ضیاء الحق کو سابق صدر نہیں مانتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ


چیف جسٹس نے کہا کہ اعجاز الحق کے والد سابق آرمی چیف تھے۔ وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ اعجاز الحق کے والد صدر پاکستان بھی تھے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ضیاء الحق کو سابق صدر نہیں مانتا، عدالت میں ایسی غلط بیانی دوبارہ نہیں کرنا۔

وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ ضیاء الحق کا نام آئین میں لکھا ہوا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ضیاء الحق کا نام آئین سے نکال دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت صدر پانچ سال کے لیے ہی ہو سکتا ہے، بندوق کی زور پر کوئی صدر نہیں بن سکتا، سابق آرمی چیف کے بیٹے کا نام آئی ایس آئی نے غلط طور پر رپورٹ میں شامل کیا؟ وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ اپنی پوزیشن واضح کر رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل قمر افضل پیش


چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو تو کسی نے ہدایت نہیں دی تھی نا ریویو فائل کرنے کی۔ وکیل نے کہا کہ جی کسی نے نہیں کہا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ تو خود مختار ادارہ ہیں اس وقت چیف الیکشن کمیشن کون تھا، جس پر وکیل نے بتایا کہ اس وقت سردار رضا چیف الیکشن کمشنر تھے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل روسڑم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو ایک آزاد ادارہ ہیں، کیا الیکشن کمیشن نے ایک فضول نظرثانی دائر کی جو اب واپس لینی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اس وقت الیکشن کمیشن کا سربراہ کون تھا، وکیل نے بتایا کہ سردار رضا اس وقت چیف الیکشن کمشنر تھے۔

سپریم کورٹ نے سماعت 15نومبر تک ملتوی کر دی۔
Load Next Story