اسرائیلی مظالم پر عالمی طاقتوں کی منافقت

کھوکھلے بیانات سے فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کم نہیں ہوگا بلکہ اِس کے لیے حقیقی حمایت کی ضرورت ہے

فوٹو انٹرنیٹ

اسرائیل کے طیاروں نے غزہ کے جبالیا پناہ گزین کیمپ پر دہشت گردی کرتے ہوئے وحشیانہ بمباری کی، جس کے نتیجے میں 100 سے زائد فلسطینی شہید اور پناہ گزین کیمپ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔

اسرائیلی حملے کے بعد کئی عمارتیں منہدم ہوگئیں اور سیکڑوں افراد ملبے میں اپنے پیاروں کی تلاش میں مصروف ہیں جب کہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے شمالی غزہ میں قائم تیرہ اسپتالوں سے نقل مکانی کی ہدایت کردی ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلسطینی اسرائیل کے رحم و کرم پر ہیں۔ اسرائیل جب چاہے گا، تب تک یہ جنگ اور بمباری کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جب اس کا دل بھر جائے گا۔

اس کے مقاصد پورے ہو جائیں گے، وہ یہ سلسلہ روک دے گا۔ دنیا کے کئی ممالک اسرائیل سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم وہ بدمست ہاتھی کی طرح اِن مطالبات کو پاؤں تلے روندتا چلا جا رہا ہے۔

وہ اقوام متحدہ کی سن رہا ہے اور نہ انسانی حقوق کی تنظیموں ہی کی کیونکہ اْسے امریکا اور برطانیہ سمیت انسانی حقوق کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرنے والے کئی ممالک کی ظاہری اور پوشیدہ حمایت حاصل ہے۔

وہ غزہ پر معصوم شہریوں کے قتل عام کے لیے عملی طور پر زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے لیکن اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ اس وقت دنیا کے تمام طاقتور ممالک بغیر کسی ڈر، خوف کے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انھیں دنیا کے ایک خطے میں ہونے والی بربریت اور خون ریزی روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی بموں کی مسلسل گرج نے کوئی پناہ گاہ نہیں چھوڑی، حتیٰ کہ وہ اسپتال بھی نہیں جہاں مایوس کنبے پناہ کی تلاش میں ہیں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس محاصرے کے سنگین نتائج سامنے آرہے ہیں ، خوراک، پانی اور ایندھن سمیت ضروری سامان کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرکے 2.3ملین فلسطینیوں کو متاثر کیا گیا ہے، جس سے خطے میں انسانی بحران پیدا ہوا ہے،غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی بمباری شروع ہونے کے بعد سے مرنے والوں میں حیران کن طور پر 40 فیصد بچے ہیں۔

غزہ میں آج اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ متعدد بار یہ سب کچھ کر چکا ہے۔ اس کی کھلی پالیسی فلسطینیوں کی نسلی تطہیر ہے ،ایک مرتبہ پھر سات اکتوبر سے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔

یوں لگتا ہے جیسے اسرائیل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر سکے۔ آج کی مہذب دنیا میں جنگوں کے بھی کچھ آداب اور اصول ضابطے ہوتے ہیں، لیکن اسرائیل ہر قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ یہ ہر اخلاقی حد کو عبور کر چکا ہے۔

ایک بار پھر فلسطین کا مسئلہ اسی شدت سے سامنے آ گیا ہے، جیسا کہ وہ 1967 کے آس پاس تھا۔ یہی نہیں، عالمی منظر نامہ بھی سوویت یونین کے دور کی سرد جنگ کے ماحول جیسا ہو گیا ہے،دنیا پھر دو حصوں میں منقسم ہو گئی ہے۔ امریکا اس مسئلہ کو لے کر ایک بار پھر پوری جانبداری کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔

اب تو وہ دو ریاستی حل کی بات بھی نہیں کر رہا ہے۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا جیسے مغربی ملک کھل کر اسرائیل کے ساتھ ہیں، جب کہ روس، چین، ایران اور عرب ملک پھر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسلامی ملکوں کی یہ حمایت فی الحال زبانی جمع خرچ اور مالی امداد تک ہی محدود ہے۔

کوئی اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے، جب کہ وہ کھلے عام عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور حقوق انسانی کے نام نہاد چیمپئن ملک 'اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق ہے' کا راگ الاپ کر اسے نسل کشی کی چھوٹ دیے ہوئے ہیں۔ چین، روس اور ایران زیادہ شدت سے فلسطین کی حمایت تو کر رہے ہیں مگر کیا یہ حمایت کسی عملی شکل میں سامنے آئے گی؟


کیا اسرائیل اس حمایت کی کوئی گرمی محسوس کر کے اپنا جارحانہ رویہ تبدیل کرے گا؟ دھیان رہے کہ 1983 میں مصر اور شام کے ہاتھوں بری طرح پٹنے کے بعد ہی اس نے مصالحتی رخ اختیار کر کے پہلے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا، پھر اوسلو معاہدہ کیا تھا۔ کیا وہ فلسطینیوں کے جائز حقوق بحال کرے گا؟ جواب ہے ''نہیں۔''

مغربی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر آکر دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ بیشک ان کی ریاست اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہو لیکن عوام کی بڑی تعداد فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ مغربی ممالک سے فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کی ایک وجہ مغربی بیانیے اور میڈیا کا بری طرح بے نقاب ہونا بھی ہے۔

سوشل میڈیا پر بیٹھے باضمیر عوام نیوز میڈیا کے بڑے بڑے ناموں کا فیکٹ چیک کررہے ہیں اور وہ نامور اینکرز جو لوگوں کو قائل کرنے میں ماہر تصور کیے جاتے ہیں، سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جب ان کا بیانیہ جانبدار ثابت ہوتا ہے تو وہ غصے سے تلملا اٹھتے ہیں۔

سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے سینسر اور شیڈو بین کیے جانے کے باوجود فلسطین کی حمایت اور نسل کشی کے خلاف بڑی تعداد میں مواد سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے۔ حتیٰ کہ امریکا جو اسرائیل کا پکا اتحادی سمجھا جاتا ہے' وہاں کے شہریوں کے موقف میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت، قومی آزادی، خودمختاری اور اپنے گھروں اور املاک کی واپسی کے حق پر زور دیتی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو امن اور انصاف کے جذبے کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ حقوق محض کاغذ پر موجود الفاظ نہ ہوں بلکہ غزہ کے عوام اور وسیع تر فلسطینی آبادی کے لیے ایک حقیقت ہوں۔

غزہ میں کافی عرصے سے خون بہہ رہا ہے اور تشدد کا سلسلہ ٹوٹ جانا چاہیے' مزید خون کی ندیاں نہیں بہائی جا سکتیں، مزید آنسو نہیں بہائے جا سکتے اور نہ ہی مزید جانیں ضایع ہو سکتی ہیں' یہ خطہ جو کبھی افراتفری اور تنازعات میں گھرا ہوا تھا، راکھ سے اٹھنے کی لچک رکھتا ہے' جنگ ختم ہونی چاہیے اور امن، تعمیر نو اور مفاہمت کا راستہ شروع ہونا چاہیے۔

عالمی برادری کو اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے ذریعے مسلم دنیا کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کی مدد کے لیے غیر متزلزل عزم کے ساتھ متحد ہونا چاہیے، اب وقت آگیا ہے کہ اس انسانی بحران کے خلاف متحد ہوا جائے' ایسا کرنے سے، ہم جبر کی داستان کو لچک، انصاف اور ہمدردی کی کہانی میں دوبارہ لکھ سکتے ہیں'معصوم جانیں محض اعدادوشمار نہیں ہونی چاہئیں ۔

یہ وقت ہے کہ ہم متحد ہوں، تبدیلی کا مطالبہ کریں، اور ایک ایسے مستقبل کے لیے کام کریں جہاں غزہ کے بچے امن اور خوف کے بغیر پروان چڑھ سکیں' مل کر ہم لہر کا رخ موڑ سکتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ دکھ کی یہ داستان امید اور لچک کی کہانی میں بدل جائے۔

حماس کے اقدامات کا تجزیہ کرنے کے لیے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے چھپن سالہ غیرقانونی قبضے کی تاریخ اور انھیں پناہ دینے والوں کے خلاف اور اسرائیل کی مسلسل بربریت میں مغربی مداخلت پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔فلسطینیوں کی مزاحمت کا موازنہ قابض اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی بربریت سے نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ ستر دہائیوں سے فلسطین میں خونریزی جاری ہے۔ نسلوں نے اسرائیلیوں کو پناہ دینے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔

بدلے میں انھیں زبردستی اُن کے اپنے وطن سے دور دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ فلسطینیوں کی نسلی صفائی کے سوا کچھ نہیں اور اگر وہ اپنی زمین کے لیے لڑتے ہیں تو انھیں عسکریت پسند قرار دے دیا جاتا ہے اور مغربی میڈیا کے لیے یہی مخمصہ ہے۔

اب تک اقوام متحدہ' او آئی سی اور دیگر ممالک جو فلسطین کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں یا تو خاموش ہیں یا سفارتی انداز میں کھیل رہے ہیں۔ ابھی تک کوئی بھی مسلمان ملک فلسطینیوں کی حمایت کے لیے اُس طرح آگے نہیں بڑھا ہے جس طرح ہونا چاہیے۔

مغربی ذرایع ابلاغ کے مطابق روس بمقابلہ یوکرین تنازعے میں یوکرین پر قبضہ کیا گیا اور اُسے یرغمال بنایا گیا اور یوکرین کی جانب مغربی ہمدردی کی ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں لیکن اسرائیل بمقابلہ فلسطین کے معاملے میں ، اِس ہمدردی کے کھیل کے قواعد تبدیل ہو گئے ہیں اور اِس نے مغرب کی واضح منافقت کو بے نقاب کیا ہے ۔

کھوکھلے بیانات سے فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کم نہیں ہوگا بلکہ اِس کے لیے حقیقی حمایت کی ضرورت ہے۔ یہ کچھ بنیادی سوالات ہیں جو تاریخ پوچھے گی اگر ہم اس کے صحیح رخ پر کھڑے نہیں ہوں گے۔فلسطینیوں کی چار نسلیں خانماں بربادی گزار چکی ہیں، کیا وہ یونہی در بدر خانماں برباد گھومتے رہیں گے؟ کیا ان کی مزاحمت کمزور ہو کر ختم ہو جائے گی؟ حالات تو تاریک ہی دکھائی دے رہے ہیں لیکن اگر عالمی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو مزاحمت کی کامیابی کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ قربانیاں بھلے ہی کتنی بڑی ہوں اور وقت چاہے جتنا لگ جائے، فلسطینیوں کی کوئی نہ کوئی نسل اپنا حق حاصل کر کے ہی رہے گی۔
Load Next Story