قیمتوں میں کمی کے فوائد کیوں نہیں مل رہے
ملک میں چاول جو بہت مہنگے ہوگئے تھے وہ سیل کم ہونے پر کچھ کم ہوئے جو نہ ہونے کے برابر ہیں
نگراں حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں میں جب 58 روپے تک کا اضافہ کیا تو پاکستان ریلوے کے ٹکٹوں سمیت ملک بھر میں ہر چیز کی قیمت بڑھا دی گئی تھی اور وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ قرار دیا گیا تھا جو کسی حد تک درست بھی تھا۔
نگراں حکومت میں چاول اور چینی، آٹے سمیت روز مرہ کے استعمال میں آنے والی تمام اشیا خوردنی گھی، تیل، سبزیوں کے نرخوں میں تاجروں اور بڑی کمپنیوں نے من مانا اضافہ کیا اور بعد میں یہ اضافہ بڑھتا ہی رہا۔
پھلوں کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے اور پھل خریدنا غریبوں کے لیے ناممکن ہو گیا مگر گوشت، مرغی و مچھلی کے مقابلے میں غریب اپنی ضرورت سبزیوں سے پوری کر لیتے ہیں مگر اکتوبر میں پیاز، آلو اور مرچ کے نرخوں میں کمی کے بعد پھر اضافہ کر دیا گیا جب کہ دالوں کے نرخ پہلے ہی زیادہ ہو چکے ہیں اور اب تو سبزیاں بھی غریبوں کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔
نگراں حکومت نے اکتوبر میں پٹرول کے نرخوں میں 48 روپے لیٹر کمی ضرور کی اور ملک میں چینی کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی جو دو سو روپے سے بڑھ گئی تھی وہ واپس ڈیڑھ سو روپے کلو تک آگئی مگر بیکرز اور مٹھائی والے جو قیمتیں بڑھانے میں تیز ہیں انھوں نے قیمت کم نہیں کی اور ان کا قیمتوں میں کیا گیا اضافہ برقرار ہے۔
ملک میں چاول جو بہت مہنگے ہوگئے تھے وہ سیل کم ہونے پر کچھ کم ہوئے جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ روزمرہ کے استعمال میں آنے والی اشیا جن میں سبزیوں و دالوں کے علاوہ بیکری آئٹمز اور سبزیاں و پھل شامل ہیں ان پر انتظامیہ کا پنجاب کے سوا کہیں بھی کنٹرول نہیں ہے۔
نگراں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی ذمے داری بس یہیں تک تھی کہ وہ بیان جاری کردیں کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہونے کے بعد قیمتوں میں کمی کے فوائد لوگوں تک پہنچوائیں مگر ایسا نہیں ہوا۔
قیمتوں میں کمی سے عوام کو تو فائدہ نہیں ہوا مگر منافع خوروں نے قیمتیں کم نہیں کیں اور بڑھائی جانے والی قیمتیں کم نہیں کیں اور اپنا منافع بڑھا لیا۔ پاکستان ریلوے نے بھی نگراں دور میں دو بار کرایہ بڑھایا مگر ڈیزل کم ہونے پر کرائے کم نہیں کیے تو ملک کے ٹرانسپورٹرز کرائے کیوں کم کرتے ۔
سرکاری گاڑیوں میں مفت کا سرکاری پٹرول استعمال کرنے والے سرکاری افسروں کو کیا پتا کہ مسافر ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں کس طرح لٹ رہے ہیں۔ مہنگائی بڑھنے کے ذمے دار بھی یہی افسران اور پوش طبقہ ہے جو اگر کبھی خریداری کرنے چلے جائیں تو وہ نرخ نہیں پوچھتے اور آرڈر کرکے منہ مانگی رقم دکانداروں کو ادا کر دیتے ہیں ۔
میرے ایک دوست ایس پی شکارپور میں تعیناتی کے دوران اپنے خانساماں سے اکثر پوچھا کرتے تھے کہ'' کھانے کی یہ اشیا میرے حوالے سے مفت تو نہیں لے آئے اور دکاندار کو پیسے دے کر خریداری کرتے ہو یا نہیں؟ ''جس پر ان کا باورچی یقین دلاتا تھا کہ'' سر! میں پیسے دے کر ہی خریداری کرتا ہوں مگر دکاندار کو کہتا ہوں کہ چیز اچھی دے۔ ''ایس پی صاحب کا کہنا تھا کہ علاقے کے اہم انتظامی افسران کے نام پر ان کے سرکاری ملازم مفت میں اشیا لاتے ہیں اور افسروں سے رقم وصول کرکے اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں ویسے پولیس کے لیے تو مفت میں سبزیاں پھل لینا مشہور ہے ہی وہ تو رمضان میں تھانے والوں کے لیے افطاری کا سامان بھی ریڑھی پتھارے والوں سے مفت میں لیتے رہتے ہیں۔
جس طرح نگراں حکومت نے حکومتی نقصانات کم کرنے کے لیے گیس و بجلی کی چوری روکنے اور بقایا جات وصولی کے لیے سختی اور جرمانے کا ریکارڈ بنایا ہے اس طرح صوبائی نگراں حکومتیں بھی اپنے صوبوں میں گراں فروشوں، ذخیرہ اندوزوں اور عوام کو مہنگی اشیا فروخت کرنے والوں کے خلاف دکھاؤے کے بجائے حقیقی قانونی کارروائیاں کریں، چھاپے ماریں اور جرمانوں سے زیادہ ناجائز منافع خوروں کو گرفتار کرکے جیلوں میں رکھیں تو خود ساختہ مہنگائی پر کسی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور عوام کو بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ریلیف دیا جاسکتا ہے اگر انتظامیہ افسران چاہیں۔