الجزیرہ کا کامیاب تجربہ

الجزیرہ نے افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر خصوصی توجہ دی


Dr Tauseef Ahmed Khan November 02, 2023
[email protected]

غزہ کی لڑائی میں ٹی وی چینل الجزیرہ اسرائیل، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے نیا چیلنج بن گیا ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ الجزیرہ کی حقائق سے بھرپور رپورٹنگ سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ انھوں نے قطر کی حکومت پر زور دیا ہے کہ الجزیرہ خطہ میں انتشار پھیلا رہا ہے۔

اس بناء پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اسرائیل نے غزہ میں الجزیرہ کے بیورو آفس کو تباہ کردیا ہے۔ غزہ میں الجزیرہ کے بیورو چیف کے گھر پر حملے میں اس کے خاندان کے افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

الجزیرہ کے قیام کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ لندن میں بی بی سی کی عالمی سروس کے فیصلہ ساز ادارہ کے افسروں نے مشرق وسطیٰ کو خصوصی کوریج دینے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ سعودی عرب سے بی بی سی کا عربی چینل شروع کیا جائے، یوں اس چینل کے قیام کے لیے بی بی سی میں کام کرنے والے عربی صحافیوں کو منتخب کیا گیا مگر اس وقت سعودی عرب میں ایک شاہانہ نظام تھا۔

جدہ سے شایع ہونے والے اخبارات اور ٹیلی وژن چینل سعودی حکومت کی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کے پابند تھے۔ بی بی سی نے اپنی آزادانہ پالیسی کو تبدیل کرنے پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کیا، یوں یہ پروجیکٹ ابتدائی مرحلہ میں بند ہوگیا۔

اس زمانہ میں قطر کے امیر کے سعودی عرب سے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ قطر نے ایران سے تعلقات قائم کر لیے تھے اور سرکاری ملکیت میں 1996میں الجزیرہ کے عرب چینل کا آغاز ہوگیا۔ جب بی بی سی کا عربی چینل کا پروجیکٹ بند ہوا تو 2006 میں حکومت نے الجزیرہ کا انگریزی ایڈیشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا، یوں بی بی سی کے پروجیکٹ سے فارغ ہونے والوں کو الجزیرہ کے انگریزی چینل کو منظم کرنے کا موقع ملا اور دوحہ سے اس کی نشریات شروع ہوئیں۔

یوں مشرقِ وسطیٰ کا پہلا آزاد ٹی وی چینل وجود میں آیا۔ الجزیرہ نے یورپ، امریکا اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک بشمول اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب، اسلام آباد نئی دہلی وغیرہ میں اپنے بیورو آفسز قائم کیے۔

الجزیرہ نے افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر خصوصی توجہ دی۔ پاکستان کے ایبٹ آباد میں مقیم سعودی منحرف اسامہ بن لادن پر امریکی میرین دستوں کے آپریشن، اسامہ کی ہلاکت، کابل شہر پر امریکا اور اتحادیوں کے حملے جیسے اہم موضوعات پر خصوصی توجہ دی گئی۔

القاعدہ کی سرگرمیوں، القاعدہ کے قائدین کی افغانستان اور پاکستان میں گرفتاریوں کے بارے میں سب سے پہلے الجزیرہ کے رپورٹرز نے دنیا کو آگاہ کیا اور افغانستان میں امریکا اور اتحادیوں کی بمباری نے مساجد اورگھروں میں مقیم افراد کو نشانہ بنایا۔

امریکا اور اتحادی فوج کے تعلقات عامہ کے افسروں نے مرنے والوں کو طالبان دہشت گرد قراردیا مگر الجزیرہ کی نشریات سے پوری دنیا کو پتہ چلا کہ مرنے والے بے گناہ تھے، یوں امریکی حکومت کو الجزیرہ کی آزادانہ پالیسی پر اعتراضات ہونے لگے۔

الجزیرہ نے اپنے قیام کے بعد سے فلسطینیوں کی جدوجہد کو بہت زیادہ کوریج دی۔ لبنان، اردن، مغربی کنارہ اور غزہ میں حماس اور حزب اﷲ کی کارروائیوں اور اسرائیل میں ان کارروائیوں کے اثرات کے بارے میں الجزیرہ نے معروضی رپورٹنگ کر کے ایسے بہت سے حقائق کو آشکار کیا جن کو مغربی میڈیا Kill کردیتا تھا، یوں سب سے پہلا اعتراض اسرائیل کو ہوا اور اسرائیل کی حکومت نے تل ابیب میں قائم الجزیرہ کے بیورو کو پہلے ہی بند کردیا تھا۔

مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں 2010 میں ایک عوامی جدوجہد شروع ہوئی جس کو Arab Springکا نام دیا گیا۔ یہ عوامی جدوجہد تیونس سے شروع ہوئی اور مصر اور لیبیا تک پھیل گئی۔ سعود ی عرب بھی اس عوامی احتجاج سے محفوظ نہ رہ سکا۔

سعودی عرب میں 2011میں حکومت مخالف احتجاج ہوئے۔ الجزیرہ نے ان تمام واقعات کو بہت تفصیل سے اپنے ناظرین کے لیے ٹیلی کاسٹ کیا۔ جب سعودی عرب کو بھی الجزیرہ کی نشریات پر اعتراض ہوگیا اور سعودی عرب اور قطر کے درمیان دوبارہ مفاہمت کے لیے بات چیت ہوئی تو سعودی حکومت نے قطر کے سامنے جو مطالبات رکھے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ الجزیرہ پر پابندی عائد کی جائے۔

قطر کی حکومت نے اس مطالبہ کو نہیں مانا البتہ الجزیرہ کی پالیسی میں کچھ تبدیلی کے رجحانات کی عکاسی نظر آنے لگی۔

جب حماس کے جہادیوں نے اسرائیل پر حملہ کیا اور پھر اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بم باری شروع کردی تو اسرائیل نے اس بمباری میں خاص طور پر بچوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں فرائض انجام دینے والے 16کے قریب صحافیوں کو قتل کیا۔

گزشتہ ہفتے 17 اکتوبر کو اسرائیل کی فوج نے الحئی اسپتال پر براہِ راست حملہ کیا۔ الحئی اسپتال جس کو دار الشفاء بھی کہا جاتا ہے غزہ کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اسرائیل کے حملے میں 500کے قریب مریض جاں بحق ہوئے جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ مرنے والوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ بھی شامل تھا۔

الجزیرہ نے اس اسپتال پر حملے کو تفصیلی طور پر کور کیا اور اس رپورٹنگ میں واضح شواہد سے ثابت کیا گیا کہ اسرائیل کے راکٹ نے الشفاء اسپتال کو تباہ کیا۔ یہ اسرائیل کی غزہ میں سب سے بڑی کارروائی تھی جس سے پوری دنیا میں اس واقعے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سب سے پہلے اسرائیلی میڈیا نے الزام لگایا تھا کہ یہ راکٹ اسرائیل کا نہیں تھا بلکہ یہ راکٹ حماس کے فدائین نے پھینکا تھا۔ مغربی میڈیا نے اس بیانیہ کو نشر کرنا اور شایع کرنا شروع کیا۔

امریکا کے معروف نشریاتی اداروں فوکس اور سی این این وغیرہ نے بھی یہ الزام لگایا کہ اسپتال پر گرنے والا راکٹ اسرائیلی فوج کا نہیں تھا، یہ حماس کا راکٹ تھا۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن بھی اسرائیل کے اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے۔

انھوں نے دورہ اسرائیل کے دوران یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا کہ الشفاء اسپتال پر حملے میں اسرائیل ملوث نہیں، یوں الجزیرہ کو ایک متعصب چینل قرار دینے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ اس واقعے کے بارے میں آزادانہ تحقیقات نیو یارک ٹائمز کے سامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ ان کے ماہرین نے تمام شہادتوں کے جائزے کے بعد حملے کے بارے میں وڈیوز کا بغور جائزہ لیا اور ماہرین نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا کہ حماس کے راکٹ سے اسپتال میں تباہی ہوئی۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ جو وڈیوز ٹیلی کاسٹ کی گئی ہے، اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اسپتال پر گرنے والا میزائل حماس یا اسلامی جہادی گروپوں نے پھینکا تھا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان وڈیوز کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہ راکٹ اسرائیل نے نہیں پھینکا۔ برطانیہ کے نشریاتی ادارے، بی بی سی نے جو تحقیقات کی تھیں ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ آزادانہ ذرایع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ اسرائیل نے الشفاء اسپتال پر حملہ کے بارے میں وڈیوز پیش کی ہیں ان کی تصدیق نہیں ہوتی۔

الجزیرہ مسلسل دباؤ میں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ جہاں بیشتر ممالک میں اس وقت بادشاہتیں ہیں، کچھ ممالک میں شخصی آمریتیں اور کچھ میں فوجی حکومتیں ہیں اس ماحول میں الجزیرہ کا ایک کامیاب تجربہ ہے۔ الجزیرہ کے اس آزادانہ کردار کو اگر باقی ممالک بھی اپنا لیں تو اسرائیل اور مغربی پروپیگنڈے کا جواب دیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں