نخشب جارچوی فلم محل کا گیت زینت کی قوالی آخری حصہ

میری نخشب جارچوی سے کراچی میں ایک بار ہی ایک مختصر سی ملاقات رہی تھی

hamdam.younus@gmail.com

ایک بار ایک جگہ آ کر وہ رک گئیں اور وہ کوئی نوٹ بھول گئیں اور غلط گانے لگیں تو لتا منگیشکر ان کے پاس آئی اور اس نے وہ لائن صحیح کر کے شاگردوں کو سنائی اور جب وہ گا رہی تھی اور لڑکیوں کو ان کی غلطی یاد کرا رہی تھی تو اسی دوران دینا ناتھ گھر میں باہر سے داخل ہوئے۔

وہ لتا منگیشکر کو گاتے ہوئے دیکھ کر حیران ہوگئے جب تک لتا گاتی رہی دینا ناتھ اندر نہیں آئے اور وہ دروازے ہی پر کھڑے رہے جب لتا نے وہ دھن ختم کی تو وہ اندر کمرے میں آئے اور انھوں نے اپنی بیٹی کو گلے سے لگا لیا اور کہا '' مجھے نہیں پتا تھا کہ تم کو سُروں کی اتنی سمجھ اور پہچان ہے۔

تم نے تو میرا کام اور بھی آسان کر دیا ہے، اب میں تم کو بھی موسیقی سکھاؤں گا اور مجھے امید ہے کہ تم ایک دن سارے ہندوستان میں موسیقی کا سورج بن کر چمکو گی۔'' اور پھر لتا نے ابتدائی تعلیم اپنے والد موسیقار دینا ناتھ سے حاصل کی پھر مزید موسیقی اپنے والد کے دوست موسیقار غلام حیدر سے حاصل کی اور لتا منگیشکر نے فلموں میں گیت گا کر اپنے باپ کی اس پیش گوئی کو سچا ثابت کر دیا تھا اور لتا منگیشکر موسیقی کی پہچان اور شان بن کر سارے ہندوستان میں چھا گئی تھی۔

اب میں ایک ایسی نایاب فلم کی طرف آتا ہوں جو فلم ساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے بنائی تھی، فلم کا نام تھا زینت، جس کے دو موسیقار تھے ایک میر صاحب اور دوسرے حفیظ خاں۔ اس فلم میں شاعر نخشب جارچوی نے ایک قوالی لکھی تھی اور وہ کسی فلم کی پہلی قوالی تھی جو خاتون سنگرز نے گائی تھی۔ ان میں میڈم نور جہاں، گلوکارہ کلیانی اور اس دور کی مشہور غزل سنگر زہرہ بائی انبالے والی نے کورس کی صورت میں ریکارڈ کرائی تھی اور اس قوالی کے بول تھے۔

آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے پھر بھی نہ زباں سے کام لیا

ہم دل کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہاتھوں سے کلیجہ تھام لیا

اور اس قوالی نے سارے ہندوستان میں بڑی دھوم مچائی تھی اور اس دور کے مشہور قوالوں کلن خاں قوال اور اسمٰعیل آزاد قوال کو اپنی شہرت برقرار رکھنا مشکل ہو گئی تھی۔ شاعر نخشب جارچوی فلمی دنیا میں کس طرح آئے یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔

یہ 1943 کا زمانہ تھا اور ابھی ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا، لکھنو اور دہلی شہر اردو زبان کا گڑھ تھے اور ان دو شہروں میں کثرت کے ساتھ مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ نخشب جارچوی نے نوعمری ہی سے شاعری شروع کر دی تھی اور چھوٹے بڑے شہروں کے مشاعروں میں اپنا کلام سنانا شروع کر دیا تھا۔


اسی دوران دہلی میں بڑے پیمانے پر ایک مشاعرے کا انعقاد کیا تھا اور ہندوستان کے چیدہ چیدہ شاعروں نے اس مشاعرے میں شرکت کی تھی۔ اس مشاعرے کی صدارت اس دور کے ایک نامور شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کر رہے تھے۔

جب انھوں نے اسٹیج پر بلاتے ہوئے یہ کہا کہ '' اب میں ایک نوجوان شاعر نخشب جارچوی کو دعوت کلام دے رہا ہوں یہ نوجوان اپنی عمر سے زیادہ اچھی شاعری کرتا ہے۔ سینئر شاعروں کی توجہ اب اس کو چاہیے۔'' پھر جب نخشب جارچوی نے اپنا کلام سنانا شروع کیا اور ایک غزل نے تو مشاعرے کا رنگ ہی بدل دیا تھا اور بقول کنور مہندر سنگھ بیدی نخشب جارچوی نے وہ مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ اس طرح نخشب جارچوی کی شاعری کو سینئر شاعروں نے بھی بڑا سراہا تھا۔

اس مشاعرے کے بعد کنور مہندر سنگھ بیدی نے نخشب سے کہا تھا '' نوجوان! تمہاری غزلوں میں بڑی جان ہے۔

تمہاری غزلیں فلمی دنیا میں تمہارے لیے بھی شہرت کا دروازہ کھول سکتی ہیں۔ '' پھر انھوں نے نخشب جارچوی کو اس دور کے نامور فلم ساز و ہدایت کار وی شانتا رام کے نام ایک خط لکھ کر دیا تھا۔'' اچھے شاعر ہیں آپ تک بھیج رہا ہوں آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔'' پھر وی شانتارام نے نخشب جارچوی سے پہلی بار اپنی فلم پربت پہ اپنا ڈیرہ میں گیت لکھوائے تھے۔

وی شانتارام کے بعد ان کی دوسری فلم فلم ساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی کی فلم زینت تھی، جس کی قوالی نے نخشب جارچوی کی زندگی بدل دی تھی۔

میری نخشب جارچوی سے کراچی میں ایک بار ہی ایک مختصر سی ملاقات رہی تھی، ان دنوں میں بھی نیا نیا فلمی صحافت میں داخل ہوا تھا۔ نخشب صاحب ہی نے موسیقار نوشاد کے ان کے ساتھ کام کرنے سے جب انکار کیا تھا تو ان کو نوشاد صاحب کے رویے سے بڑا رنج ہوا تھا، مگر انھوں نے وہ بات دل سے اس طرح لگائی تھی کہ بمبئی میں اس زمانے میں ایکشن فلموں میں شوکت دہلوی کے نام سے ایک موسیقار موسیقی دیتے تھے۔

ایک بار ان کی نخشب صاحب سے ملاقات ہوئی، انھوں نے اپنی دھنیں نخشب جارچوی کو سنائیں وہ انھیں بہت پسند آئیں پھر انھوں نے شوکت دہلوی سے ان کا نیا نام ناشاد رکھتے ہوئے کہا '' شوکت میاں! اب تم اپنا یہ نام بھول جاؤ، آج سے تم موسیقار ناشاد ہو۔ لیکن تم کبھی ناشاد نہیں ہمیشہ شاد ہی شاد رہو گے۔'' اور ایک دن موسیقار نوشاد کی ٹکر کے موسیقار کہلاؤ گے۔

پھر نخشب صاحب کی بعد کی تمام فلموں میں موسیقار ناشاد ہی موسیقی دیتے رہے اور جب نخشب جارچوی ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آئے تو انھوں نے اپنی فلموں میں ناشاد ہی کو موسیقی دینے کے لیے ہندوستان سے پاکستان بلوا لیا تھا وہ یہاں بھی اپنے مزاج کے مطابق موسیقار کے ساتھ ہی کام کرنا پسند کرتے تھے۔ آج دونوں باغ و بہار شخصیات دنیا میں نہیں ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔(آمین۔)
Load Next Story