فیکٹری میں آتشزدگی
ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانے کی ضرورت
گزشتہ ہفتے بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ لگنے کا ایک ایسا اندوہناک واقعہ ہوا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود شہر قائد کی انتظامیہ 48 گھنٹوں تک آگ بجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
فیکٹری میں لوہا پگھلانے والی آتش کی حدت اس وقت ٹھنڈی ہوئی جب 258 محنت کش دو وقت کی روٹی کے لیے اپنی جانیں دے کر کوئلہ بن چکے تھے۔ موبائل فون، جوتوں یا دیگر اشیاء سے ان کی شناخت کرکے آخری آرامگاہ تک پہنچایا گیا۔
فیکٹری میں 48 گھنٹے آگ لگی لیکن 258 محنت کش گھرانوں کے دلوں میں یہ آگ اب بھی جل رہی ہے ، ان محنت کشوں کے گھرانے اب بھی پیٹ کی دوزخ کی آگ میں لپٹے ہوئے ہیں۔ کئی ایسے محنت کش بھی تھے جو کہ چار منزلہ عمارت سے کودنے کے باعث ہاتھ پاؤں، ٹانگ یا دیگر اعضا تڑوا کر جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔
سانحہ کے نفسیاتی پہلو بھی ہیں۔ اب بھی کئی والدین رات دن سیل شدہ فیکٹری میں آتے ہیں اور روکر کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے یا بھائی کا فون آیا ہے جو فیکٹری کے اندر ہے اور وہ اب بھی زندہ ہے۔ دو دن تک فیکٹری سے لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری رہا۔ فائر بریگیڈ کا عملہ دیواریں اور گرلیں توڑ کر فیکٹری میں داخل ہوا اور سخت جدوجہد کے بعد سوختہ لاشوں کو باہر نکالا۔ شہر قائد کو تو اتنی لاشیں سنبھالنے کا تجربہ ہی نہیں تھا۔
جناح ہسپتال میں 71 لاشیں، عباسی شہید ہسپتال میں 95 اور دیگر میں ہسپتالوں میں سو سے زائد لاشیں لائی گئیں۔ ورثاء آئے اور روتے پیٹتے اپنے پیاروں کی لاشوں کو ایمولنس میں رکھ کر اپنے کچے مکانوں، جھگیوں یا کچی آبادیوں کی طرف جاتے رہے۔ 85 افراد کی لاشوں کا تو یہ عالم تھا کہ ان کو شناخت کرنے والی نشانیاں بھی جل چکی تھیں ان کو کو ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ورثا کے حوالے کیا گیا۔
بیس سال سے چلنے والی اس فیکٹری میں ہزاروں محنت کش روزانہ کام کرتے تھے۔ ان محنت کشوں کو رجسٹرڈ کرنے کی ذمہ داری پر مامور محکمہ محنت کہتا ہے کہ انھوں نے تو فیکٹری کو رجسٹرڈ ہی نہیں کیا تھا۔ محنت کشوں کو قانون میں دی گئی بنیادی مراعات دینے والے ادارے اولڈ ایج بینیفٹ اس فیکٹری کے نام سے ناواقف ہیں۔
اداروں کا حال دیکھیے اگر اس فیکٹری کا راستہ جانتے تھے تو وہ شہر کے بھتہ خور تھے جو شہر کی تمام رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ فیکٹریوں میں مقررہ تاریخ کو پہنچ کر بھتہ وصول کرتے ہیں۔ محنت کشوں کو ٹھنڈے پانی اور ٹوائلٹ کی سہولت نہ دینے والے سیٹھ و سرمایہ دار بھتہ خوروں کے آگے بے بس ہیں۔ کسی زمانے میں فائر بریگیڈ والے، لیبر انسپکٹر فیکٹریوں میں جاکر ملازمین کو حفاظتی اقدامات کی ریہرسل کراتے تھے.
ان کو ٹریننگ دیتے تھے لیکن سنا ہے کہ اب روٹی کپڑا اور مکان کی ضمانت دینے والی جماعت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے محکمہ لیبر کو زبانی ہدایات جاری کی ہیں کہ فیکٹریوں کی انسپکشن کرکے کسی سرمایہ دار کو ناراض نہیں کرنا ہے۔ سانحہ کے بعد سیاسی جماعتوں کے رہنما فیکٹری آتے رہے اور مراعات کے اعلان ہوتے رہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے فیکٹری آکر بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری سانحہ میں دہشت گردی اور تخریب کاری کا عنصر موجود ہے۔ آگ لگنے کے اصل محرکات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تمام زاویوں سے تحقیقات ہوں گی فیکٹری مالکان کو ہراساں نہیں کیا جائیگا، فائر بریگیڈ کو دیر سے پانی کی فراہمی کی تحقیقات بھی ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات تین پہلوؤں سے ہو رہی ہے اور جائزہ لیا جا رہا ہے کہ اس میں فیکٹری انتظامیہ، عملہ ملوث ہے یا یہ واقعہ کسی اور وجہ سے پیش آیا جس میں دہشت گردی کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیکٹری میں آگ بوائلر اور جنریٹر کی وجہ سے نہیں لگی، کسی کو ہراساں نہیں کیا جائیگا لیکن کسی بھی ملوث شخص کو نہیں چھوڑا جائیگا جس نے بھی غفلت کی اس کو کیفر کردار تک پہنچا یا جائیگا۔
اس لیے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا رہا ہے کہ آگ کہیں انشورنس کلیم کے لئے تو نہیں لگائی گئی، رپورٹس سے محسوس ہوتا ہے کہ الیکٹرک چارج زیادہ ہونے سے پہلی منزل پر آگ لگی۔آگ اس قدر شدید تھی کہ اسٹیل اسٹریکچر پگھل گیا ہے۔
سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی متاثرہ فیکٹری کا دورہ کیا اور متاثرین کی امداد کا اعلان کیا۔ حکومت سندھ نے ٹریبونل کا بھی اعلان کیا ہے جو کہ تحقیقات کا آغاز کر چکا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی قانون کے مطابق محنت کشوں کومراعات و سہولیات فراہم کی جائیں۔ محنت کشوں کے لیے کام کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں مطالبہ کیا تھا کہ تمام فیکٹریوں میں لیبر انسپکشن کو لازمی قرار دیا جائے۔ محنت کشوں کو آئی ایل او قرارداد کے مطابق مراعات دی جائیں، تمام فیکٹریوں کو رجسٹرڈ کرکے ملازمین کو مستقل کیا جائے۔
خاص طور پر اس سانحہ کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کراکے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
فیکٹری میں لوہا پگھلانے والی آتش کی حدت اس وقت ٹھنڈی ہوئی جب 258 محنت کش دو وقت کی روٹی کے لیے اپنی جانیں دے کر کوئلہ بن چکے تھے۔ موبائل فون، جوتوں یا دیگر اشیاء سے ان کی شناخت کرکے آخری آرامگاہ تک پہنچایا گیا۔
فیکٹری میں 48 گھنٹے آگ لگی لیکن 258 محنت کش گھرانوں کے دلوں میں یہ آگ اب بھی جل رہی ہے ، ان محنت کشوں کے گھرانے اب بھی پیٹ کی دوزخ کی آگ میں لپٹے ہوئے ہیں۔ کئی ایسے محنت کش بھی تھے جو کہ چار منزلہ عمارت سے کودنے کے باعث ہاتھ پاؤں، ٹانگ یا دیگر اعضا تڑوا کر جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔
سانحہ کے نفسیاتی پہلو بھی ہیں۔ اب بھی کئی والدین رات دن سیل شدہ فیکٹری میں آتے ہیں اور روکر کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے یا بھائی کا فون آیا ہے جو فیکٹری کے اندر ہے اور وہ اب بھی زندہ ہے۔ دو دن تک فیکٹری سے لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری رہا۔ فائر بریگیڈ کا عملہ دیواریں اور گرلیں توڑ کر فیکٹری میں داخل ہوا اور سخت جدوجہد کے بعد سوختہ لاشوں کو باہر نکالا۔ شہر قائد کو تو اتنی لاشیں سنبھالنے کا تجربہ ہی نہیں تھا۔
جناح ہسپتال میں 71 لاشیں، عباسی شہید ہسپتال میں 95 اور دیگر میں ہسپتالوں میں سو سے زائد لاشیں لائی گئیں۔ ورثاء آئے اور روتے پیٹتے اپنے پیاروں کی لاشوں کو ایمولنس میں رکھ کر اپنے کچے مکانوں، جھگیوں یا کچی آبادیوں کی طرف جاتے رہے۔ 85 افراد کی لاشوں کا تو یہ عالم تھا کہ ان کو شناخت کرنے والی نشانیاں بھی جل چکی تھیں ان کو کو ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ورثا کے حوالے کیا گیا۔
بیس سال سے چلنے والی اس فیکٹری میں ہزاروں محنت کش روزانہ کام کرتے تھے۔ ان محنت کشوں کو رجسٹرڈ کرنے کی ذمہ داری پر مامور محکمہ محنت کہتا ہے کہ انھوں نے تو فیکٹری کو رجسٹرڈ ہی نہیں کیا تھا۔ محنت کشوں کو قانون میں دی گئی بنیادی مراعات دینے والے ادارے اولڈ ایج بینیفٹ اس فیکٹری کے نام سے ناواقف ہیں۔
اداروں کا حال دیکھیے اگر اس فیکٹری کا راستہ جانتے تھے تو وہ شہر کے بھتہ خور تھے جو شہر کی تمام رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ فیکٹریوں میں مقررہ تاریخ کو پہنچ کر بھتہ وصول کرتے ہیں۔ محنت کشوں کو ٹھنڈے پانی اور ٹوائلٹ کی سہولت نہ دینے والے سیٹھ و سرمایہ دار بھتہ خوروں کے آگے بے بس ہیں۔ کسی زمانے میں فائر بریگیڈ والے، لیبر انسپکٹر فیکٹریوں میں جاکر ملازمین کو حفاظتی اقدامات کی ریہرسل کراتے تھے.
ان کو ٹریننگ دیتے تھے لیکن سنا ہے کہ اب روٹی کپڑا اور مکان کی ضمانت دینے والی جماعت کے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے محکمہ لیبر کو زبانی ہدایات جاری کی ہیں کہ فیکٹریوں کی انسپکشن کرکے کسی سرمایہ دار کو ناراض نہیں کرنا ہے۔ سانحہ کے بعد سیاسی جماعتوں کے رہنما فیکٹری آتے رہے اور مراعات کے اعلان ہوتے رہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے فیکٹری آکر بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری سانحہ میں دہشت گردی اور تخریب کاری کا عنصر موجود ہے۔ آگ لگنے کے اصل محرکات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تمام زاویوں سے تحقیقات ہوں گی فیکٹری مالکان کو ہراساں نہیں کیا جائیگا، فائر بریگیڈ کو دیر سے پانی کی فراہمی کی تحقیقات بھی ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات تین پہلوؤں سے ہو رہی ہے اور جائزہ لیا جا رہا ہے کہ اس میں فیکٹری انتظامیہ، عملہ ملوث ہے یا یہ واقعہ کسی اور وجہ سے پیش آیا جس میں دہشت گردی کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیکٹری میں آگ بوائلر اور جنریٹر کی وجہ سے نہیں لگی، کسی کو ہراساں نہیں کیا جائیگا لیکن کسی بھی ملوث شخص کو نہیں چھوڑا جائیگا جس نے بھی غفلت کی اس کو کیفر کردار تک پہنچا یا جائیگا۔
اس لیے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا رہا ہے کہ آگ کہیں انشورنس کلیم کے لئے تو نہیں لگائی گئی، رپورٹس سے محسوس ہوتا ہے کہ الیکٹرک چارج زیادہ ہونے سے پہلی منزل پر آگ لگی۔آگ اس قدر شدید تھی کہ اسٹیل اسٹریکچر پگھل گیا ہے۔
سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی متاثرہ فیکٹری کا دورہ کیا اور متاثرین کی امداد کا اعلان کیا۔ حکومت سندھ نے ٹریبونل کا بھی اعلان کیا ہے جو کہ تحقیقات کا آغاز کر چکا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی قانون کے مطابق محنت کشوں کومراعات و سہولیات فراہم کی جائیں۔ محنت کشوں کے لیے کام کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں مطالبہ کیا تھا کہ تمام فیکٹریوں میں لیبر انسپکشن کو لازمی قرار دیا جائے۔ محنت کشوں کو آئی ایل او قرارداد کے مطابق مراعات دی جائیں، تمام فیکٹریوں کو رجسٹرڈ کرکے ملازمین کو مستقل کیا جائے۔
خاص طور پر اس سانحہ کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کراکے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔