خوفِ خدا تقوی کی بنیاد
جس طرح تم مخلوق کے لیے اپنے ظاہر کو آراستہ کرتے ہو اسی طرح تم خالق کے لیے اپنے باطن کو آراستہ کرو
حضرات صحابہ کرامؓ اور حضرات تابعینؒ کی یہ عادت رہی ہے کہ جب ایک دوسرے سے رخصت ہوتے تھے تو کہتے تھے کہ کچھ نصیحت کیجیے، چھوٹے اپنے بڑوں سے نصیحت کی فرمائش کرتے تھے اور بڑے اپنے چھوٹوں سے نصیحت طلب کرتے تھے۔
عام طور سے سلف کی یہ نصیحت ہوتی تھی کہ میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں، یہی سلف کا عام جواب ہوتا تھا۔
تقویٰ کیا ہے ؟
اسے کیسے اختیار کیا جائے ؟
اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا، مفہوم:
''اﷲتعالیٰ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔''
(سورہ آل عمران )
تقویٰ کے ایک معنی ڈرنے کے اور خوف کے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور خوف و خشیت اختیار کرو، کسی حالت میں بے فکر ہوکر مت بیٹھو، خواہ دولت مند ہو، خواہ مفلس ہو، ہر حالت میں اﷲ تعالیٰ کا ڈر انسان کو رہنا چاہیے۔ اگر غور کیا جائے تو جتنے جرائم اور گناہ ہیں وہ اﷲ کے ڈر سے ہی ختم ہوتے ہیں، جب تک دل میں ڈر اور خوف خداوندی نہ ہوگا آدمی جرائم سے باز نہیں رہ سکتا۔
دنیا میں فسق و فجور، مار دھاڑ، بدنیتی اور فسادات عام ہوتے جارہے ہیں، جس کی زندہ مثال آج کل معاشرت میں درندگی کے ہونے والے واقعات ہیں، کس طرح بچے، بچیوں کو ہوس کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ارتکاب جرائم کی وجہ یہ نہیں کہ اِس دور میں سیکورٹی اداروں کی کمی ہے بل کہ دلوں میں اﷲ کا ڈر و خوف باقی نہیں رہا اگر خوف خدا دلوں میں باقی ہو تو آدمی کو جرائم کی ہمت ہی نہیں ہوگی۔ چاہے وہ تنہائی میں ہو یا مجمع میں ہر جگہ گناہ اور جرم سے بچے گا۔
اسلام نے آخرت کا جو عقیدہ پیش کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو ہر وقت یہ تصور رہے کہ مجھے اﷲ کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی کرنی پڑے گی اور ہر شخص سے اﷲ تعالیٰ پوچھے گا کہ زندگی کس طرح گزاری، اس کا جواب دینا پڑے گا، یہ عقیدہ ایسا ہے کہ جس سے انسان ہر جرائم اور گناہ سے بچ سکتا ہے، اسی عقیدہ کی وجہ سے دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
حضرت ابُوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ جو ڈرتا ہے وہ اندھیرے (رات) میں اُٹھتا ہے جو اندھیرے میں اُٹھتا ہے وہ منزل پا لیتا ہے، سنو! اﷲ کا سودا مہنگا ہے، سنو! اﷲ تعالیٰ کا سودا جنّت ہے۔ (ترمذی)
یعنی جس کے دل میں اﷲ کا خوف و ڈر ہوتا ہے اور آخرت کی فکر ہوتی ہے وہ رات کے اندھیرے میں اُٹھتا ہے، اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، دنیا کی معمولی سے لذتوں یا چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کی خاطر گناہوں کا مرتکب ہوجانا بہت نقصان کی بات ہے، عام طور پر انسان یا لذت کی خاطر گنا ہ کرتا ہے یا ضرورت کی خاطر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔
دو بنیادی باتیں ہیں، ایک دل میں اﷲ کا ڈر، دوسرا آخرت کے عقیدے کی مضبوطی، میں جو کچھ دنیا میں کر رہا ہوں وہاں جا کر مجھے اس کا جواب دینا ہے۔ یہ عقیدہ جب ایک مومن کے دل میں جما ہُوا ہو تو وہ جرأت و ہمت نہیں کرسکتا ہے خیانت و جرائم کی۔
حضرت امام جعفر صادقؓ کو بچپن میں کسی بزرگ نے بے قراری سے روتے ہوئے دیکھ کر وجہ پوچھی تو آپؓ نے کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن جب بار بار پوچھا تو اس وقت آپ اور زیادہ رونے لگے اور فرمایا: میں اﷲ تعالیٰ کے غضب کے خوف سے اور دوزخ کی آگ کے ڈر سے رو رہا ہوں۔
بزرگ نے عرض کی: حضرت آپ ابھی چھوٹے اور معصوم ہیں، آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے اس جملے پر آپ مزید آب دیدہ ہوگئے اور فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ دنیا میں جب آگ سلگانا ہوتی ہے تو پہلے چھوٹی چھوٹی لکڑیاں سلگا کر اس کو تیز کرتے ہیں، جب وہ آگ پکڑ لیتی ہیں تو بڑی لکڑیاں لگائی جاتی ہیں، میں ڈرتا ہوں کہ روز قیامت چھوٹی لکڑیوں کے بدلے مجھ جیسے کم عمر بندے پہلے دوزخ میں نہ جھونک دیے جائیں۔
یہ تھا ان بزرگان دین کا تقویٰ، اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے تقویٰ میں سے کچھ حصہ نصیب فرمائے۔
تقویٰ کسے کہتے ہیں یہی سوال حضرت ابی کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول ﷺ! تقویٰ (اﷲ تعالیٰ کا ڈر) کسے کہتے ہیں؟
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''کیا تم کبھی کانٹوں والے جنگل سے گزرے ہو؟ عرض کی: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیسے گزرتے ہو؟ عرض کی: جب کانٹا دیکھتا ہوں تو اپنے جسم اور کپڑوں کو بچا کر نکلتا ہوں تاکہ کپڑے نہ پھٹیں اور جسم زخمی نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہی تقویٰ یعنی اﷲ کا ڈر ہے۔'' (درمنشور)
معلوم یہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کا خوف اور ڈر اِس چیز کا نام ہے کہ اپنی دُنیاوی زندگی کا سفر اس طرح مکمل کیا جائے کہ ہر اس فعل سے اپنے آپ کو بچایا جائے جس سے ایمان خراب ہوتا ہے۔
حضرت واقدیؒ فرماتے ہیں کہ تقویٰ یعنی اﷲ کا ڈر یہ ہے کہ جس طرح تم مخلوق کے لیے اپنے ظاہر کو آراستہ کرتے ہو اسی طرح تم خالق کے لیے اپنے باطن کو آراستہ کرو اور اﷲ تعالیٰ تمہیں وہ کام کرتا نہ دیکھے جس کا م سے اُس نے تمہیں منع کیا ہے۔ اگر انسان کا دل خوف خدا اور تقویٰ سے خالی ہو تو پھر اس کا دل شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے، جس سے وہ آسانی کے ساتھ گناہ کرواتا ہے، شیطان انسان کی نگاہوں میں گناہوں کو ہلکا کرکے پیش کرتا ہے۔
یہ اس کا ایک بڑا وار ہے، وہ گناہ کے بارے میں دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ یہ گناہ تو اکثر کرتے ہی رہتے ہیں، یہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ آج کل تو بے پردگی بہت عام ہے۔ اس لیے نگاہوں کو بچانا تو بہت مشکل ہے۔ شیطان انسان کی نگاہوں میں ان گناہوں کو اس لیے چھوٹا کرکے پیش کرتا ہے تاکہ وہ کرتا ہی رہے، اس لیے فاسق گناہوں کو ایسے سمجھتا ہے جیسے کوئی مکھی بیٹھی تھی اور اس کو اُڑا دیا۔ جب کہ مومن بندہ گناہ کو ایسے سمجھتا ہے جیسے سر کے اوپر کوئی پہاڑ رکھ دیا گیا ہو، اس لیے صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ تقویٰ کچھ کرنے کا نام نہیں بلکہ کچھ نہ کرنے کو تقویٰ کہتے ہیں، یعنی وہ باتیں جن سے اﷲ ناراض ہو ان کو نہ کرنا تقویٰ کہلاتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں جرائم، فسادات، قتل و غارت گری کا بڑھتا ہوا رجحان ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخری کون سی ایسی دوا ہے جس کے ذریعے اس مہلک مرض سے نجات مل سکتی ہے تو جواب ایک ہی سامنے آتا ہے اور وہ ہے تقویٰ یعنی خوف خدا، اگر یہ ہمارے دلوں میں آجائے تو ان شاء اﷲ پورے ملک بل کہ پوری دنیا میں اَمن قائم ہوجائے گا۔
عام طور سے سلف کی یہ نصیحت ہوتی تھی کہ میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں، یہی سلف کا عام جواب ہوتا تھا۔
تقویٰ کیا ہے ؟
اسے کیسے اختیار کیا جائے ؟
اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا، مفہوم:
''اﷲتعالیٰ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔''
(سورہ آل عمران )
تقویٰ کے ایک معنی ڈرنے کے اور خوف کے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور خوف و خشیت اختیار کرو، کسی حالت میں بے فکر ہوکر مت بیٹھو، خواہ دولت مند ہو، خواہ مفلس ہو، ہر حالت میں اﷲ تعالیٰ کا ڈر انسان کو رہنا چاہیے۔ اگر غور کیا جائے تو جتنے جرائم اور گناہ ہیں وہ اﷲ کے ڈر سے ہی ختم ہوتے ہیں، جب تک دل میں ڈر اور خوف خداوندی نہ ہوگا آدمی جرائم سے باز نہیں رہ سکتا۔
دنیا میں فسق و فجور، مار دھاڑ، بدنیتی اور فسادات عام ہوتے جارہے ہیں، جس کی زندہ مثال آج کل معاشرت میں درندگی کے ہونے والے واقعات ہیں، کس طرح بچے، بچیوں کو ہوس کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ارتکاب جرائم کی وجہ یہ نہیں کہ اِس دور میں سیکورٹی اداروں کی کمی ہے بل کہ دلوں میں اﷲ کا ڈر و خوف باقی نہیں رہا اگر خوف خدا دلوں میں باقی ہو تو آدمی کو جرائم کی ہمت ہی نہیں ہوگی۔ چاہے وہ تنہائی میں ہو یا مجمع میں ہر جگہ گناہ اور جرم سے بچے گا۔
اسلام نے آخرت کا جو عقیدہ پیش کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو ہر وقت یہ تصور رہے کہ مجھے اﷲ کے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی کرنی پڑے گی اور ہر شخص سے اﷲ تعالیٰ پوچھے گا کہ زندگی کس طرح گزاری، اس کا جواب دینا پڑے گا، یہ عقیدہ ایسا ہے کہ جس سے انسان ہر جرائم اور گناہ سے بچ سکتا ہے، اسی عقیدہ کی وجہ سے دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
حضرت ابُوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ جو ڈرتا ہے وہ اندھیرے (رات) میں اُٹھتا ہے جو اندھیرے میں اُٹھتا ہے وہ منزل پا لیتا ہے، سنو! اﷲ کا سودا مہنگا ہے، سنو! اﷲ تعالیٰ کا سودا جنّت ہے۔ (ترمذی)
یعنی جس کے دل میں اﷲ کا خوف و ڈر ہوتا ہے اور آخرت کی فکر ہوتی ہے وہ رات کے اندھیرے میں اُٹھتا ہے، اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، دنیا کی معمولی سے لذتوں یا چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کی خاطر گناہوں کا مرتکب ہوجانا بہت نقصان کی بات ہے، عام طور پر انسان یا لذت کی خاطر گنا ہ کرتا ہے یا ضرورت کی خاطر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔
دو بنیادی باتیں ہیں، ایک دل میں اﷲ کا ڈر، دوسرا آخرت کے عقیدے کی مضبوطی، میں جو کچھ دنیا میں کر رہا ہوں وہاں جا کر مجھے اس کا جواب دینا ہے۔ یہ عقیدہ جب ایک مومن کے دل میں جما ہُوا ہو تو وہ جرأت و ہمت نہیں کرسکتا ہے خیانت و جرائم کی۔
حضرت امام جعفر صادقؓ کو بچپن میں کسی بزرگ نے بے قراری سے روتے ہوئے دیکھ کر وجہ پوچھی تو آپؓ نے کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن جب بار بار پوچھا تو اس وقت آپ اور زیادہ رونے لگے اور فرمایا: میں اﷲ تعالیٰ کے غضب کے خوف سے اور دوزخ کی آگ کے ڈر سے رو رہا ہوں۔
بزرگ نے عرض کی: حضرت آپ ابھی چھوٹے اور معصوم ہیں، آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے اس جملے پر آپ مزید آب دیدہ ہوگئے اور فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ دنیا میں جب آگ سلگانا ہوتی ہے تو پہلے چھوٹی چھوٹی لکڑیاں سلگا کر اس کو تیز کرتے ہیں، جب وہ آگ پکڑ لیتی ہیں تو بڑی لکڑیاں لگائی جاتی ہیں، میں ڈرتا ہوں کہ روز قیامت چھوٹی لکڑیوں کے بدلے مجھ جیسے کم عمر بندے پہلے دوزخ میں نہ جھونک دیے جائیں۔
یہ تھا ان بزرگان دین کا تقویٰ، اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے تقویٰ میں سے کچھ حصہ نصیب فرمائے۔
تقویٰ کسے کہتے ہیں یہی سوال حضرت ابی کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول ﷺ! تقویٰ (اﷲ تعالیٰ کا ڈر) کسے کہتے ہیں؟
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''کیا تم کبھی کانٹوں والے جنگل سے گزرے ہو؟ عرض کی: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیسے گزرتے ہو؟ عرض کی: جب کانٹا دیکھتا ہوں تو اپنے جسم اور کپڑوں کو بچا کر نکلتا ہوں تاکہ کپڑے نہ پھٹیں اور جسم زخمی نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہی تقویٰ یعنی اﷲ کا ڈر ہے۔'' (درمنشور)
معلوم یہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کا خوف اور ڈر اِس چیز کا نام ہے کہ اپنی دُنیاوی زندگی کا سفر اس طرح مکمل کیا جائے کہ ہر اس فعل سے اپنے آپ کو بچایا جائے جس سے ایمان خراب ہوتا ہے۔
حضرت واقدیؒ فرماتے ہیں کہ تقویٰ یعنی اﷲ کا ڈر یہ ہے کہ جس طرح تم مخلوق کے لیے اپنے ظاہر کو آراستہ کرتے ہو اسی طرح تم خالق کے لیے اپنے باطن کو آراستہ کرو اور اﷲ تعالیٰ تمہیں وہ کام کرتا نہ دیکھے جس کا م سے اُس نے تمہیں منع کیا ہے۔ اگر انسان کا دل خوف خدا اور تقویٰ سے خالی ہو تو پھر اس کا دل شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے، جس سے وہ آسانی کے ساتھ گناہ کرواتا ہے، شیطان انسان کی نگاہوں میں گناہوں کو ہلکا کرکے پیش کرتا ہے۔
یہ اس کا ایک بڑا وار ہے، وہ گناہ کے بارے میں دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ یہ گناہ تو اکثر کرتے ہی رہتے ہیں، یہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ آج کل تو بے پردگی بہت عام ہے۔ اس لیے نگاہوں کو بچانا تو بہت مشکل ہے۔ شیطان انسان کی نگاہوں میں ان گناہوں کو اس لیے چھوٹا کرکے پیش کرتا ہے تاکہ وہ کرتا ہی رہے، اس لیے فاسق گناہوں کو ایسے سمجھتا ہے جیسے کوئی مکھی بیٹھی تھی اور اس کو اُڑا دیا۔ جب کہ مومن بندہ گناہ کو ایسے سمجھتا ہے جیسے سر کے اوپر کوئی پہاڑ رکھ دیا گیا ہو، اس لیے صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ تقویٰ کچھ کرنے کا نام نہیں بلکہ کچھ نہ کرنے کو تقویٰ کہتے ہیں، یعنی وہ باتیں جن سے اﷲ ناراض ہو ان کو نہ کرنا تقویٰ کہلاتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں جرائم، فسادات، قتل و غارت گری کا بڑھتا ہوا رجحان ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخری کون سی ایسی دوا ہے جس کے ذریعے اس مہلک مرض سے نجات مل سکتی ہے تو جواب ایک ہی سامنے آتا ہے اور وہ ہے تقویٰ یعنی خوف خدا، اگر یہ ہمارے دلوں میں آجائے تو ان شاء اﷲ پورے ملک بل کہ پوری دنیا میں اَمن قائم ہوجائے گا۔