فخر پاکستان
اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ روئیداد خان صاحب کے ہم عصروں میں ایک سے بڑھ کر ایک جوہر قابل تھا
چشم بد دور، روئیداد خان صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ اپنے سفر حیات کے 100 سنگ میل عبور کرچکے ہیں اور ماشاء اللہ رو بصحت ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں خوش و خرم اور سلامت رکھے،وہ پاکستان کا بیش قیمت سرمایہ ہیں، اُن کی پوری زندگی خدمت وطن سے عبارت ہے۔
خان صاحب نے مردان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں 28 ستمبر 1923 میں یوسف زئی قبیلہ کے ایک پشتون گھرانے میں آنکھ کھولی۔
اُنھوں نے مقامی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اُس کے بعد انھوں نے 1942میں فورمین کرسچن کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ کالج کا ماحول آزادانہ اور ترقی پسند تھا۔اپنے والد صاحب کی خواہش پر وہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے جہاں سے اُنھوں نے 1946 میں انگلش ہسٹری میں اپنی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
یہ غیر منقسم ہندوستان کا زمانہ تھا۔ اُس کے بعد وہ مردان واپس آگئے اور اسلامیہ کالج پشاور میں تاریخ پڑھانے لگے۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے 1947 میں پاکستان کی شہریت اختیار کرلی۔1949 میں اُنھوں نے اِلیٹ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس جوائن کرلی جو پہلے ڈی ایم جی کہلاتی تھی۔
یہ وہی سروس ہے جو سینٹرل سُپیریئر سروسز سی ایس ایس کے نام سے موسوم ہے۔ اُنھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1951 میں چیف منسٹر آف سندھ کے سیکریٹری کے عہدے سے کیا۔ اُن کا کیریئر اُس وقت عروج پر تھا جب انھوں نے پاکستان کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق کے ماتحت خدمات انجام دیں۔
کمیونزم کے زوال کے بعد خان صاحب پاکستان کی سیاست اور سول سروس سے ریٹائر ہوگئے اور سیاسی تجزیہ کار بن گئے۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور صدر پاکستان غلام اسحاق خان کے دورِ حکمرانی میں روئیداد خان مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے۔
سردجنگ کے آغاز سے اختتام تک وہ پاکستان کے انتہائی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔ اپنے طویل کیریئر کے دوران خان صاحب پاکستان کی سول سروس کے سرخیل رہے۔
خان صاحب نے اپنے طویل ترین کیریئر کے دوران مختلف نوعیت کے اہم ترین عہدوںپر خدمات انجام دیں جن میں چیف سیکریٹری سندھ، چیف سیکریٹری خیبر پختون خوا، منیجنگ ڈائریکٹر پی ٹی وی، انفارمیشن سیکریٹری آف پاکستان، سیکریٹری منسٹری آف لیبر، سیکریٹری منسٹری آف ٹور ازم، انٹیر یئر سیکریٹری آف پاکستان، سیکریٹری جنرل منسٹری آف انٹیریئر، فیڈرل منسٹر آف اکاؤنٹی بلٹی اور وزیر اعظم اور صدر کے مشیر کے عہدے بھی شامل ہیں۔
اُنھوں نے اپنے غیر معمولی دراز دورہ ملازمت میں پانچ صدور پاکستان کے ماتحت گراں قدر خدمات انجام دیں جن میں صدر جنرل محمد ایوب خان، یحییٰ خان، فضل الٰہی چوہدری، جنرل محمد ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے وطن عزیز کے تین وزرائے اعظم کے ساتھ بھی کام کیا۔
روئیداد خان ایک انتہائی صاف ستھرے کردار اور بے داغ کردار کے حامل بیورو کریٹ تھے۔ انھوںنے اپنے پورے کیریئر کے دوران کبھی کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور اپنی خدمات انتہائی غیر جانبداری اور کامیابی کے ساتھ انجام دیں، وہ پوری بیوروکریسی کے لیے ایک قابل تقلید مثال تھے، وہ ایک انتہائی دبنگ اور کھرے انسان تھے۔
اُن کی ایمانداری اور کارکردگی مثالی تھی۔پاکستان کے تقریباً تمام صوبوں میں مختلف اہم ترین عہدوں پر کام کرنے کے علاوہ اُنھوں نے بحیثیت کمشنر کراچی بھی مدت دراز تک خدمات انجام دیں۔ سچ پوچھیے تو کراچی میں اُن کی خدمات کا یہ انتہائی سنہرا اور مثالی دور تھا۔ اُنھوں نے کراچی میں شہر کے پانی پینے کے سنگین مسئلہ کو حل کرنے کے فوری اور اہم اقدامات کیے۔
یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ اُنھوں نے کراچی کو ایک گارڈن سٹی بنانے کا اہم فریضہ انجام دیا۔ کراچی شہر کے موجودہ حالات موازنہ کرنے سے روئیداد خان کی بے لوث اور انتہائی گراں قدر خدمات کو یاد کرکے اُنہیں جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہی ہوگا۔ یہ سطور سپردقلم کرتے ہوئے اُن کی تصویر ہماری نگاہوں کے سامنے آرہی ہے۔
دارالخلافہ کی کراچی سے منتقلی کا دور بھی بہت نازک اور اہم تھا۔ خوش قسمتی سے خان صاحب اُس وقت کراچی کے کمشنر تھے۔ یہ وہ دور تھا جب انتظامیہ مغربی پاکستان کی حکومت کے زیرِ کنٹرول تھی۔
یہ وَن یونٹ کا دور تھا۔روئیداد خان اُس وقت صوبہ کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔اُن کے ہاتھوں میں بے تحاشہ اختیارات تھے اور اگر وہ چاہتے تو اُس وقت وہ ملیر کی زرعی زمین جس کو چاہے99 سال کی لیز پر دے سکتے تھے لیکن کیا مجال جو اُن کے پایہ استقامت میں ذرا بھی لغزش آئی ہو۔ اُن جیسے بلند پایہ کردار کے صاحب اختیار لوگوں کا آج تصور بھی محال ہے۔
روئیداد خان صاحب کا کہنا ہے کہ صدر ایوب خان کے دور میں بیوروکریسی کے لیے منتخب ہونے والے افسران کا تعلق درمیانہ طبقہ سے تھا اور اُن میں سے کوئی آکسفورڈ کا پڑھا ہوا نہیں تھا جس طرح اُن کے پیش رو ہوا کرتے تھے۔
اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ روئیداد خان صاحب کے ہم عصروں میں ایک سے بڑھ کر ایک جوہر قابل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا نام پیدا کیا۔ روئیداد خان کے دور کے اعلیٰ سول سروس عہدیداران مقامی درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہوا کرتے تھے جن میں وہ خود بھی شامل ہیں، اِس قبیل کے لوگ آج کل ناپید ہیں۔ عصرحاضر میں ایسے لوگوں کا تصور بھی محال ہے۔