دو ریاستی حل حقیقت سے سراب تک

عربوں نے خود دو ریاستی حل ایک حقیقت سے سُراب بنا دیا ہے


عبد الحمید November 03, 2023
[email protected]

اگر ہم اﷲ کے آخری رسولﷺ کی سیرتِ پاک سے سیکھ کر اپنے معاملات کو آگے بڑھائیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اﷲ کی مدد آئے گی اور اغیار کی ریشہ دوانیوں کے باوجود خیر اور برکت نصیب ہو گی۔

نبی اﷲ کی مکی زندگی میں آپ کے پیغام پر ایمان لانے والوں کا جذبہ دیدنی تھا۔ابتدا میں اکثر صحابہ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، اتنا پیٹا گیا کہ آسمان کانپ اُٹھا۔اس وقت تک دینِ اسلام کے ماننے والوں کی قوت،کفارِ مکہ کی قوت کے مقابلے میں کہیں کم تھی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ 13سالہ مکی زندگی میں کسی ایک مقام پر بھی نبیﷺ نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ نتائج کچھ بھی ہوں،سوئی سائڈلSuisidalحملہ کر دینا چاہیئے۔

اگر یہ انتہائی قدم اُٹھا دیا جاتا تو شاید کچھ کفارِ مکہ ضرور مارے جاتے لیکن دینِ اسلام کا پھیلاؤ حتمی طور پر رُک جاتا،صرف اسی وقت کفارِ مکہ کو چیلنج کرنے کا مرحلہ آیا جب ہجرتِ مدینہ کے بعد مسلمانوں کی ایک ریاست قائم ہو گئی تھی۔اسباب مہیا ہو گئے تھے۔

دینِ اسلام کے شیدائیوں کو ایک مرکز مل گیا ،جہاں وہ مسلح ہو کر،مکمل تیاری کر کے کفر کی قوتوں کو للکار سکتے تھے۔

اس کے باوجود مدینہ میں قیام اور اسلامی ریاست کے قیام کے آٹھ سال تک مسلمانوں نے آگے بڑھ کر مکہ پر کبھی حملہ نہیں کیا۔جب نبی اﷲﷺ کو یقین ہو گیا کہ اب جمعیت مستحکم ہو چکی ہے اور فتح یقینی ہے تب 10ہزار قدسی مدینہ سے نکلے اور فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوتے ہوئے مکہ فتح کر لیا۔قرآن مسلمانوں کو اتنی قوت مہیا کرنے کا حکم دیتا ہے کہ دشمنوں کے قلب پر لرزہ طاری ہو جائے۔

یہ صحیح ہے کہ غزہ کے مسلمانوں پر زندگی تنگ ہے۔اس وقت دنیا میں کوئی اور ایسی جگہ نہیں جہاں کی آبادی غزہ کی آبادی کی طرح محصور ہو۔غزہ کا چاروں طرف سے محاصرہ کیا جا چکا ہے۔اس کی فضائی حدود بھی بند کر دی گئی ہے۔

ایسے آلات اور سینسرز لگے ہوئے ہیں کہ غزہ کے اندر کی ہر موومنٹ اسرائیل کی نظر میں ہے۔پتہ نہیں ہوا کیسے غزہ میں داخل ہو پاتی ہے۔سولہ سال سے یہ چھوٹی سی پٹی ایک جیل بنی ہوئی ہے۔

یہ سب کچھ نا قابلِ یقین اور بہت تکلیف دہ ہے لیکن حماس مجاہدین کو کوئی بھی کارروائی کرنے سے پہلے سیرتِ پاک اور اسوہء حسنہ سے رہنمائی لیتے ہوئے اس بات کا بخوبی تعین کر لینا چاہیئے تھا کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل اور مغرب کی جانب سے جو جوابی کارروائی ہو گی کیا اس کو جھیلا جا سکتا ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مجاہدین نے جنگی کارروائی کرنے سے پہلے نتائج پر غور نہیں کیا۔قرائن بتا رہے ہیں کہ حماس کے ملٹری ونگ کی کارروائی کا حماس کے سیاسی ونگ کو بھی پتہ نہیں تھا۔ حماس کے ملٹری ونگ میں شامل مجاہدین کی تعداد 3000کے لگ بھگ ہے جن میں سے کوئی پندرہ سو مجاہدین نے 7اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں حصہ لیا۔ ایک اندازے کے مطابق1200مجاہدین مارے گئے یا قید ہو گئے۔

اس طرح آدھی بہت اچھی تربیت یافتہ فورس ضائع ہو گئی۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا جاتا اور کارروائی سے پیدا ہونے والے ممکنہ نتائج کا احاطہ کر لیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب جو بھی ہوا اس کا خمیازہ آ گ و خون کی صورت میں عام شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔یہ بہت بڑی قیمت ہے۔

سیدنا سلیمان علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد کو عرف عام میں معبدِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔معبد کو رومن جنرل ٹائی ٹس نے 78عیسوی میں تباہ کر کے آگ لگا دی تھی۔ معبد کے صرف کھنڈرات بچ گئے تھے۔

سیدنا عمر ؓ کے دور میں یروشلم کی فتح کے موقع پر یہ مسجد یا معبد جو مکہ سے بہت دور تھا اور مسجدِ اقصیٰ یعنی بہت دور کی مسجدکہا جا سکتا تھا ایک ایسی تباہ شدہ عمارت کی بنیادوں کی شکل میں تھا جس میں عیسائی ،یہودی دشمنی میں تین سو سال تک کوڑا پھینکتے رہے تھے۔حضرت عمرؓ نے خود اس کی صفائی کی مہم کا آغاز کیا۔

اﷲ کے اولو العزم پیغمبر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر اب تک یروشلم 330عیسوی تک رومنpaganحکمرانی میں رہا۔پھر 613عیسوی تک بازنطینی عیسائی تسلط میں رہا۔614سے623 تک تقریباً نو سال ایرانی بادشاہ کا قبضہ رہا۔623سے636تک پھر بازنطینی عملداری میں رہا۔636سے1099 تک اس پر مسلمان حکمران رہے۔

1099سے 1187عیسوی تک تقریباً 88 سال پھر عیسائی قبضے میں چلا گیا۔1187میں مشہور مسلمان فاتح صلاح الدین ایوبی اسے فتح کر کے مسلمان عملداری میں لے آیا۔1187سے 1929 تک یہ شہر مسلمانوں کے پاس رہا۔1929سے 1939 تک یہ شہر برطانوی عملداری میں چلا گیا۔ 1939 سے1967تک یہ شہر ایک مرتبہ پھر مسلمان ملک اردن کے پاس رہا۔1967سے اب تک یہ شہرپہلی بار یہودی قبضے میں ہے۔

یروشلم میں حرمِ القدس الشریف تقریباً 35ایکڑ پر محیط کمپلیکس ہے جس کو اردنی مسلمانوں کا ٹرسٹ چلاتا ہے، حرم میں دو عمارتیں ہیں۔جنوب مغربی حصے میں موجودہ مسجد)اقصیٰ( ہے۔یہ مسجد اموی خلیفہ عبدالملک نے تعمیر کروائی۔ دوسری عمارت گنبدِ صخرہ ہے جسے قبۃ الصخرہ بھی کہتے ہیں جس کا سنہری گنبد بہت نمایاں ہے۔

بیسویں صدی میں فلسطین میں آباد ہونے سے پہلے قومِ یہود صدیوں تک در بدر بھٹکتی رہی۔ 890 عیسوی سے 1540کے درمیانی عرصے میں یہودیوں نے یورپ کے کئی ممالک میں بسنے کی کوشش کی لیکن بہت تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ان یورپی اقوام کا صبر جواب دیتا رہا اور ان کو بے دخل کیا جاتا رہا۔ ان کو پرتگال، اسپین، فرانس، بلجیم، یوگوسلاویہ، ہالینڈ، روس، اٹلی اور ہالینڈ سے دیس نکالا دیا گیا۔

فرانس سے یہودیوں کو دو مرتبہ نکالا گیا۔1540میں یہ ترکی میں گھس گئے۔ مسلمان ترکوں نے ان کا بہت خیال رکھا اور تین برِ اعظموں پر پھیلی سلطنت میں کہیں بھی قیام کی اجازت دی۔فلسطین پر عثمانی حکمرانی ہی کی بدولت یہودیوں نے فلسطین کا رخ کرنا شروع کیا جہاں فلسطینی عربوں سے انھوں نے زمینیں خریدیں۔فلسطین میں آبادکاری کی عثمانی اجازت کی وجہ سے اسرائیل کا قیام ممکن ہوا۔

پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر اتحادیوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے مقبوضات بانٹ لئے۔1920میں فلسطین پر برطانیہ کی عملداری قائم ہو گئی۔برطانوی مینڈیٹ سے جیوش ایجنسی فار فلسطین قائم کرنے میں مدد ملی۔آگے چل کر یہی ایجنسی یہودیوں کیDe- Factoحکومت کے طور پر کام کرنے لگی۔یہودیوں ,عربوں اور انگریزوںنے گٹھ جوڑ کر کے عثمانی مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت اور سازشیں شروع کر دیں۔

1930میں ایک کمیشن قائم کیا گیا جسے پیل کمیشن کہا گیا۔اس کمیشن نے آبادی کی بنیاد پر ایک چھوٹی یہودی ریاست اور ایک بڑی فلسطینی ریاست کی سفارش کی۔سعودی عرب کے شاہ سعود نے اسے مسترد کر دیا۔اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے فلسطین نے بھی سفارش کی کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر کے ایک یہودی اور ایک فلسطینی ریاست قائم کر دی جائیں۔

اسی کمیشن نے یروشلم کے شہر کو بین الاقوامی اتھارٹی کے ماتحت کرنے کی سفارش بھی کی ۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے29نومبر1947کو یہ پلان منظور کر لیا۔ امریکا اور سوویت یونین دونوں سپر پاورز اس پلان کی حمایت کر رہے تھے۔یہودیوں نے اس پلان کو منظور کر لیا جبکہ عربوں نے اسے نامنظور کر کے دو ریاستی حل کو مسترد کر دیا۔آج اسی دو ریاستی حل کو حاصل کرنے کے لیے فلسطینی آگ و خون کے دریا سے گزر رہے ہیں۔

اصل میں عربوں کے درمیان کوئی کوآرڈینیشن نہیں تھی۔ہر ہمسایہ ملک کا الگ ایجنڈا تھا۔اردن دریائے اردن کے مغربی کنارے کو لینا چاہتا تھا جبکہ مصر غزہ پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔اس طرح کوئی بھی عرب ملک فلسطینی ریاست کا وجود نہیں چاہتا تھا لیکن اپنے عوام کے دباؤ کی وجہ سے فلسطینی کاز کی اوپر اوپر سے حمایت کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔

اس وقت بھی ان میں سے ہر ایک حماس کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن کامن sentimentحماس کے حق میں ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عربوں نے خود دو ریاستی حل ایک حقیقت سے سُراب بنا دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں