موسمیاتی تبدیلی اور پاکستانی معیشت پر اس کے اثرات

یہ تک کہا جا رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 340 ارب ڈالر کی ضرورت ہے

پاکستان کے معاشی حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سرمائے کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

یہ تک کہا جا رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 340 ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور 2030 تک ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات پر پاکستان کے اخراجات کا تخمینہ 200 ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور نظریں حسب سابق آئی ایم ایف پر لگی ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے آیندہ راؤنڈ میں ادارے کے ٹرسٹ فنڈ سے پاکستان کے لیے اضافی فنڈنگ حاصل کرنے پر غور جاری ہے اور یہ فنڈنگ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرمائے کی کمی کو دور کرنے میں مدد دے گی۔

اب یہ صورت حال ہے، اب موسمیات کی تبدیلی اس کے نقصانات اس کے اثرات اس سے بچاؤ اس سے محفوظ رہنے غرض ہر طریقے سے پاکستان میں ہونے والی شدید ترین موسمیاتی تبدیلی اس کی شدت سے محفوظ رہنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے اور وہ پوری کرنے میں مدد فراہم کرے آئی ایم ایف۔ جب کہ آئی ایم ایف کی ان معاملات سے کنارہ کشی کا اظہار اس وقت ہی سامنے آگیا تھا جب اس سال کے ابتدائی مہینوں میں 4 ہفتے مذاکرات، جائزے، گفتگو اور بہت کچھ ہونے کے بعد پاکستان کے ناک کی لکیریں بھی نکلوائی گئیں۔

کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان دنیا میں واحد ملک تھا جوکہ موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوا تھا۔ ملک کا بیشتر حصہ سیلاب کی زد میں آ کر ڈوب چکا تھا۔ 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا تھا، لاکھوں مویشی دریا برد ہوگئے تھے، سیکڑوں افراد ہلاک یا پھر سانپ کے ڈسنے سے ہلاک ہوئے۔

دنیا بھر کے ملکوں نے تسلیم کیا کہ پاکستانی معیشت ڈوب چکی ہے۔ مزید دو سے ڈھائی کروڑ افراد سیلاب سے بچ کر نکلے لیکن غربت کی کھائی میں گر گئے۔

مزید اس کے کنارے آ کر آباد ہوگئے، فصلیں برباد ہوگئیں، ہر قسم کی خوراک کی قلت پیدا ہوگئی، لیکن سچ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ اکتوبر 2022 میں آمد تھی، اس میں تاخیر ہوتی چلی گئی، پھر نومبر کی نوید سنائی جانے لگی حتیٰ کہ سال کا اختتام آیا۔

پھر جب آئے تو جاتے وقت کہہ گئے کہ جلد ہی منظوری کا اعلان ہو جائے گا، حالانکہ مذاکرات کے دوران سخت ترین مطالبے اور شرائط اور ان باتوں پر کان نہیں دھرا کہ ایسا ملک جس کے لاکھوں افراد سیلاب کے پانی میں ابھی تک گھرے ہوئے ہیں۔ کھانے کو روٹی نہیں، پہننے کو چپل نہیں، پھٹے پرانے کپڑے، سر پر چھت نہیں، ان کی نظر کے سامنے ان کی کھیتی برباد پڑی ہے، سیلاب اپنی آمد کے ساتھ ہی ان کے مویشیوں کو بہا کر لے گیا۔


بہرحال موسمیاتی تبدیلی کے نام پر ہاتھ میں لیے ہوئے کاسے پر کسی نے غور نہ کیا۔ اب موسمیاتی تبدیلی کے نام پر آئی ایم ایف سے فنڈنگ کے تحت اضافی فنڈنگ کا حصول کچھ مشکل کام نظر آ رہا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف 71 کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے مذاکرات کرے گا، پاکستان کی تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ پاکستان نے طے شدہ اسٹرکچرل اہداف حاصل کر لیے ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ جائزہ مشن مطمئن ہوا تو اگلی قسط کی سفارش کرے گا۔

امید ہے کہ مشن کو اس وقت ماحول مختلف ملے گا کیونکہ نگران وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور ان کی ٹیم نے اس سلسلے میں کافی تیاری کر رکھی ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی ہے، درآمدات میں کمی لائی گئی ہے، محصولات اور سرمایہ کاری کے زیادہ ہونے کی رپورٹ دی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 2022 میں جس طرح سے ملک اقتصادی گراوٹ کی طرف جا رہا تھا اور جس طرح اقتصادی بحران کا شکار تھا اس سے نکالنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں، اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں لیکن اس مرتبہ مذاکرات میں پاکستان کو اپنی معیشت کو عالمی معیشت کے ساتھ ملا کر مذاکرات کا ڈول ڈالنا ہوگا۔

کیونکہ اسرائیل کی بربریت اور سفاکیت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور امریکا کھل کر اس کی حمایت کر رہا ہے۔ ہر ناجائز بات کو سر تسلیم خم کر رہا ہے جس کے منفی اثرات پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں اور عالمی معیشت زبردست طریقے سے ڈانواں ڈول ہونے جا رہی ہے اور سب سے زیادہ نقصان امریکا کو اٹھانا پڑے گا۔ جلد یا بدیر اسرائیلی اور دیگر زبردست حمایتی ممالک کی مصنوعات کی سیل میں کمی ہو سکتی ہے۔

کئی ممالک نے اسرائیل سے اپنے سفیر بلا لیے یا ان کے سفیروں کو نکال دیا ہے، اگر یہ سلسلہ عرب ممالک تک پھیل گیا اور اسرائیل کے لیے برآمدات، تیل کی ترسیل اور اس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سلسلہ دراز ہوا تو جلد ہی اسرائیل گھٹنے ٹیک دے گا۔ اس کے ساتھ ہی عالمی باہمی تجارت کو سخت دھچکا پہنچے گا جس کے اثرات پاکستان پر اس طرح مرتب ہوں گے کہ اس کی برآمدات میں کمی ہوسکتی ہے۔

پاکستان کی درآمدات اگرچہ کم ہو رہی ہیں لیکن جس طرح کی کمی لائی جا رہی ہے وہ برآمدات کی قیمت پر ہے یا روزگار میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے، لہٰذا مذاکرات میں غربت اور موسمیاتی تبدیلی کا اصل شکار ملک کے طور پر ان کی توجہ دلانا ہوگی اور عالمی معیشت کے نقصان دہ اثرات جوکہ جلد مرتب ہونے والے ہیں ان پہلوؤں کا ذکر بھی ضروری ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی، گیس کے نرخ بڑھائے جا چکے ہیں اسٹیٹ بینک نے شرح سود بھی 22 فی صد پر برقرار رکھی ہے۔

پاکستان کا اصل مسئلہ ملک کے اندر غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کا برآمدات میں اضافے کا اور دیگر معاشی مسائل ہیں جو تمام کے تمام ابھی ملک میں حل ہونے کا نام نہیں لے رہے، مہنگائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچایا جاسکا۔
Load Next Story