قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہونگے حکمنامہ سپریم کورٹ
90 روز میں انتخابات ممکن نہیں، آئین کے تحت الیکشن سے پہلے مردم شماری ضروری ہے، سپریم کورٹ
90 روز میں انتخابات کیس میں سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہونگے۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامہ میں کہا گیا کہ اظہار رائے کی آئینی آزادی کے غلط استعمال کا مقصد جمہوریت کو نیچا دکھانا ہے، میڈیا کا بہت اہم کردار ہے، آئین پاکستان نے آرٹیکل 19 میں اظہار رائے کی آزادی دے رکھی ہے، اظہار رائے کی آئینی آزادی کو کچھ لوگ جھوٹا بیانیہ بنانے اور غلط معلومات پھیلانے کیلئے بطور لائسنس استعمال کرتے ہیں۔
حکمنامہ کے مطابق پیمرا آئینی خلاف ورزی پر پابندی عائد کرتا ہے، جمہوریت کی بہتری کیلئے فیئر کمنٹ ہونا چاہیے، جمہوریت پر اعتماد کی کمی سے عوام کی شمولیت کے ساتھ ساتھ ووٹر ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے، یورپین پارلیمنٹ کی ایک تحقیق کے مطابق غلط معلومات پھیلانے سے جمہوریت متاثر ہوتی ہے۔
تحریری حکمنامہ میں کہا گیا کہ یورپین پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے سوچنے کی آزادی، پرائیویسی کا حق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، یورپین پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق خطرے میں پڑتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامہ میں کہا گیا یورپی پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے ناصرف جمہوری اداروں پر عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے بلکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات پر بھی حرف آتا ہے، غلط معلومات کی وجہ سے ڈیجیٹل وائلنس اور جبر میں اضافہ ہوتا ہے۔
حکمنامہ کے مطابق سپریم کورٹ سچائی کے ساتھ پیشہ ورانہ طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافیوں کی ستائش کرتی ہے، معاملے کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس فیصلے کا اردو میں بھی ترجمہ جاری کیا جائے گا۔
''صدر مملکت 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ دینے کے پابند تھے''
حکمنامہ کے مطابق قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر 9 اگست کو تحلیل ہوئی، صدر مملکت نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ دینے کے پابند تھے، عام انتخابات کا انعقاد نوے روز میں اس لیے نہ ہو سکا کہ ساتویں مردم شماری نوٹیفائی ہو چکی تھی۔
علاوہ ازیں آئینن کے تحت نئے انتخابات سے پہلے ساتویں مردم شماری کا ہونا ضروری تھا، الیکشن کمیشن نے نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا، آرٹیکل 224(2) کے تحت آئینی تقاضا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بود عام انتخابات نوے روز میں ہوں۔
حکمنامہ میں کہا گیا کہ چھٹی مردم شماری کی منظوری میں 6 سال لگ گئے جس کے سبب ساتویں مردم شماری اور حلقہ بندیوں میں تاخیر ہوئی، تمام وکلا نے عدالت کو بتایا کہ نوے روز میں انتخابات ممکن نہیں، آگاہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔
''صدر کے خط اور الیکشن کمیشن کے موقف سے عدالت مشکل میں آ گئی''
حکمنامہ کے مطابق صدر کے خط اور الیکشن کمیشن کے موقف سے عدالت مشکل میں آ گئی، آئین اور قانون میں عدالت کا الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں، صدر نے آرٹیکل 186 کے تحت عدالت سے رجوع نہیں کیا، صدر اور الیکشن کمیشن سمیت سب کو وہی کرنا چاہیے جو آئین کی منشا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکمنامہ کے مطابق آئین پر عمل کرنا کوئی آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے، کوئی ادارہ دوسرے کی آئینی حدود میں مداخلت کرے تو نتائج سنگین ہونگے، صدر اور الیکشن کمیشن کا تنازع غیر ضروری طور پر سپریم کورٹ لایا گیا، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے امور میں مداخلت نہیں کی۔
حکمنامہ کے مطابق پورا ملک انتخابات کی تاریخ کیلئے تشویش میں مبتلا تھا، کچھ لوگوں کو خدشہ تھا شاید انتخابات ہونگے ہی نہیں، آئین کے تحت سپریم کورٹ ایسا اختیار استعمال نہیں کر سکتی جو اسے حاصل نہ ہو، عدالت صدر اور الیکشن کمیشن کو تاریخ کے تعین میں سہولت کاری کی۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آئینی عہدہ جتنا بڑا ہوگا ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی، آئین پر عمل کرنا ہر شہری کا بنیادی فرض ہے، صدر، چیف الیکشن کمشنر اور ارکان آئین کے تحت لیے گئے حلف کے پابند ہیں۔
''آج سے پندرہ سال پہلے تین نومبر کو آئین پر شب خون مارا گیا تھا''
حکمنامہ کے مطابق آئین پاکستان کو پچاس سال ہو چکے ہیں، کسی آئینی ادارے یا عہدیدار کے پاس آئین سے آشنا نہ ہونے کا کوئی عذر نہیں، آج سے پندرہ سال پہلے تین نومبر کو آئین پر شب خون مارا گیا تھا، آئین پر شب خون مارنے کے ہمیشہ دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
حکمنامہ کے مطابق آئین پر شب خون مارنے کی تاریخ سے سیکھنا ہوگا، آئین پر شب خون مارنے سگ عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر منفی اثرات پڑے، وقت آگیا ہے کہ عدالتیں غیر ضروری طور پر ایسے تنازعات کا حصہ نہ بنیں کہ ان پر وقت ضائع ہو۔
''وقت آ گیا ہے کہ تمام ادارے سمجھداری کا مظاہرہ کریں''
سپریم کورٹ کے حکمنامہ کے مطابق ماضی قریب میں انہی صدر مملکت نے اسمبلی اس وقت تحلیل کی جب وزیراعظم عدم اعتماد کا سامنا کر رہے تھے، آئین واضح ہے کہ عدم اعتماد کی صورت میں اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی، اسمبلی تحلیل سے تنازع سپریم کورٹ آیا اور عدالت کو اس کا فیصلہ کرنا پڑا۔
حکمنامہ کے مطابق جسٹس مظہر عالم نے قرار دیا کہ غیرآئینی اقدامات پر آٹیکل 6 بھی لگ سکتا ہے، جسٹس مظہر عالم نے آرٹیکل6 کے اطلاق کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑا تھا، ہر آئینی ادارہ آئین پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے، وقت آ گیا ہے کہ تمام ادارے سمجھداری کا مظاہرہ کریں۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامہ کے مطابق عوام کا حق ہے کہ انتخابات ہوں اور عدالت کو الیکشن یقینی بنانے کا اعزاز حاصل ہوا، انتخابات کی مقررہ تاریخ 8 فروری پر تمام فریقین متفق ہیں، صدر سے اتفاق کے بعد انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا۔
حکمنامہ کے مطابق نوٹی فکیشن کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہونگے، ایڈووکیٹ جنرلز کے مطابق کسی صوبائی حکومت کو انتخابات کی تاریخ پر اعتراض نہیں، وفاقی و صوبائی حکومتیں یقینی بنائیں کہ انتخابات کا عمل 8 فروری کو بغیر کسی رکاوٹ مکمل ہو۔
عدالت نے 90 دن میں انتخابات کیلئے دائر درخواستیں نمٹا دیں۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامہ میں کہا گیا کہ اظہار رائے کی آئینی آزادی کے غلط استعمال کا مقصد جمہوریت کو نیچا دکھانا ہے، میڈیا کا بہت اہم کردار ہے، آئین پاکستان نے آرٹیکل 19 میں اظہار رائے کی آزادی دے رکھی ہے، اظہار رائے کی آئینی آزادی کو کچھ لوگ جھوٹا بیانیہ بنانے اور غلط معلومات پھیلانے کیلئے بطور لائسنس استعمال کرتے ہیں۔
حکمنامہ کے مطابق پیمرا آئینی خلاف ورزی پر پابندی عائد کرتا ہے، جمہوریت کی بہتری کیلئے فیئر کمنٹ ہونا چاہیے، جمہوریت پر اعتماد کی کمی سے عوام کی شمولیت کے ساتھ ساتھ ووٹر ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے، یورپین پارلیمنٹ کی ایک تحقیق کے مطابق غلط معلومات پھیلانے سے جمہوریت متاثر ہوتی ہے۔
تحریری حکمنامہ میں کہا گیا کہ یورپین پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے سوچنے کی آزادی، پرائیویسی کا حق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، یورپین پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق خطرے میں پڑتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامہ میں کہا گیا یورپی پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے ناصرف جمہوری اداروں پر عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے بلکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات پر بھی حرف آتا ہے، غلط معلومات کی وجہ سے ڈیجیٹل وائلنس اور جبر میں اضافہ ہوتا ہے۔
حکمنامہ کے مطابق سپریم کورٹ سچائی کے ساتھ پیشہ ورانہ طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافیوں کی ستائش کرتی ہے، معاملے کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس فیصلے کا اردو میں بھی ترجمہ جاری کیا جائے گا۔
''صدر مملکت 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ دینے کے پابند تھے''
حکمنامہ کے مطابق قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر 9 اگست کو تحلیل ہوئی، صدر مملکت نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ دینے کے پابند تھے، عام انتخابات کا انعقاد نوے روز میں اس لیے نہ ہو سکا کہ ساتویں مردم شماری نوٹیفائی ہو چکی تھی۔
علاوہ ازیں آئینن کے تحت نئے انتخابات سے پہلے ساتویں مردم شماری کا ہونا ضروری تھا، الیکشن کمیشن نے نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا، آرٹیکل 224(2) کے تحت آئینی تقاضا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بود عام انتخابات نوے روز میں ہوں۔
حکمنامہ میں کہا گیا کہ چھٹی مردم شماری کی منظوری میں 6 سال لگ گئے جس کے سبب ساتویں مردم شماری اور حلقہ بندیوں میں تاخیر ہوئی، تمام وکلا نے عدالت کو بتایا کہ نوے روز میں انتخابات ممکن نہیں، آگاہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔
''صدر کے خط اور الیکشن کمیشن کے موقف سے عدالت مشکل میں آ گئی''
حکمنامہ کے مطابق صدر کے خط اور الیکشن کمیشن کے موقف سے عدالت مشکل میں آ گئی، آئین اور قانون میں عدالت کا الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں، صدر نے آرٹیکل 186 کے تحت عدالت سے رجوع نہیں کیا، صدر اور الیکشن کمیشن سمیت سب کو وہی کرنا چاہیے جو آئین کی منشا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکمنامہ کے مطابق آئین پر عمل کرنا کوئی آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے، کوئی ادارہ دوسرے کی آئینی حدود میں مداخلت کرے تو نتائج سنگین ہونگے، صدر اور الیکشن کمیشن کا تنازع غیر ضروری طور پر سپریم کورٹ لایا گیا، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے امور میں مداخلت نہیں کی۔
حکمنامہ کے مطابق پورا ملک انتخابات کی تاریخ کیلئے تشویش میں مبتلا تھا، کچھ لوگوں کو خدشہ تھا شاید انتخابات ہونگے ہی نہیں، آئین کے تحت سپریم کورٹ ایسا اختیار استعمال نہیں کر سکتی جو اسے حاصل نہ ہو، عدالت صدر اور الیکشن کمیشن کو تاریخ کے تعین میں سہولت کاری کی۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ آئینی عہدہ جتنا بڑا ہوگا ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی، آئین پر عمل کرنا ہر شہری کا بنیادی فرض ہے، صدر، چیف الیکشن کمشنر اور ارکان آئین کے تحت لیے گئے حلف کے پابند ہیں۔
''آج سے پندرہ سال پہلے تین نومبر کو آئین پر شب خون مارا گیا تھا''
حکمنامہ کے مطابق آئین پاکستان کو پچاس سال ہو چکے ہیں، کسی آئینی ادارے یا عہدیدار کے پاس آئین سے آشنا نہ ہونے کا کوئی عذر نہیں، آج سے پندرہ سال پہلے تین نومبر کو آئین پر شب خون مارا گیا تھا، آئین پر شب خون مارنے کے ہمیشہ دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
حکمنامہ کے مطابق آئین پر شب خون مارنے کی تاریخ سے سیکھنا ہوگا، آئین پر شب خون مارنے سگ عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر منفی اثرات پڑے، وقت آگیا ہے کہ عدالتیں غیر ضروری طور پر ایسے تنازعات کا حصہ نہ بنیں کہ ان پر وقت ضائع ہو۔
''وقت آ گیا ہے کہ تمام ادارے سمجھداری کا مظاہرہ کریں''
سپریم کورٹ کے حکمنامہ کے مطابق ماضی قریب میں انہی صدر مملکت نے اسمبلی اس وقت تحلیل کی جب وزیراعظم عدم اعتماد کا سامنا کر رہے تھے، آئین واضح ہے کہ عدم اعتماد کی صورت میں اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی، اسمبلی تحلیل سے تنازع سپریم کورٹ آیا اور عدالت کو اس کا فیصلہ کرنا پڑا۔
حکمنامہ کے مطابق جسٹس مظہر عالم نے قرار دیا کہ غیرآئینی اقدامات پر آٹیکل 6 بھی لگ سکتا ہے، جسٹس مظہر عالم نے آرٹیکل6 کے اطلاق کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑا تھا، ہر آئینی ادارہ آئین پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے، وقت آ گیا ہے کہ تمام ادارے سمجھداری کا مظاہرہ کریں۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامہ کے مطابق عوام کا حق ہے کہ انتخابات ہوں اور عدالت کو الیکشن یقینی بنانے کا اعزاز حاصل ہوا، انتخابات کی مقررہ تاریخ 8 فروری پر تمام فریقین متفق ہیں، صدر سے اتفاق کے بعد انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا۔
حکمنامہ کے مطابق نوٹی فکیشن کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہونگے، ایڈووکیٹ جنرلز کے مطابق کسی صوبائی حکومت کو انتخابات کی تاریخ پر اعتراض نہیں، وفاقی و صوبائی حکومتیں یقینی بنائیں کہ انتخابات کا عمل 8 فروری کو بغیر کسی رکاوٹ مکمل ہو۔
عدالت نے 90 دن میں انتخابات کیلئے دائر درخواستیں نمٹا دیں۔