فلسطین بچوں کا بڑا قبرستان بن چکا ہے
اسرائیل اپنے مظالم، تعصب اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے اور تنہا ہوتا جارہا ہے
دنیا کے مختلف حکمرانوں، امن پسند اقوام اور اقوام متحدہ میں ہونی والی عرب اور مسلم دنیا کی کوششوں کے باوجود غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری رک نہ سکی۔
اسرائیل نے زمینی فوج، بلڈوزر اور ٹینکس بھیج کر فلسطین کا قتل عام شروع کروادیا ہے۔ انٹرنیٹ بند کردیا، اسپتال اجاڑدیے،پانی، ادویات اور غذا کی ترسیل بند ہے اور امریکا اور یورپ کی مہذب اقوام خاموش تماشائی ہیں۔ یہ جمہوریت کے دعویدارجو خود جنگ و خانہ جنگی کا سامنا کرتے رہے ہیں، جو وجود کی بقا کی جنگ اور آزادی کے مفہوم سے اچھی طرح واقف ہیں، بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور فلسطین کربلا کا منظر پیش کررہا ہے۔
اقوام متحدہ مکمل طور پر فلسطین کے قتل عام کے سلسلے میں ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد دنیا میں امن و تحفظ قائم کرنا، انسانی حقوق کی پشت پناہی اور انسانی رواداری کے طور پر امداد فراہم کرنا ہے۔ اقوام متحدہ نے کم ہی ملکوں کے اندرونی و بیرونی خلفشار میں باہمی تصفیہ کروانے میں واضح کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
روانڈا کی نسل کشی کی مہم کی مثال سامنے ہے جس میں اقوام متحدہ مکمل ناکام رہا۔15 دسمبر 1999 میں پبلک انکوائری میں کہا گیا کہ وسائل کی کمی،سیاسی قوت ارادی نہ ہونے کی وجہ سے اور درست تجزیہ و نتائج نہ ملنے پر اقوام متحدہ کو ناکامی کاسامنا کرنا پڑا۔ اب دوسری بار فلسطین کے معاملے میں اقوام متحدہ بے بس دکھائی دے رہا ہے۔
سیکریٹری جنرل و کئی ممالک کے ممبران کی جنگ بندی کی ہدایات کے باوجود، اسرائیل فلسطین پر فضائی اور زمینی حملے کررہا ہے اور بے گناہ فلسطینی بڑی تعداد میں شہید کیے جارہے ہیں،مگر اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ جس طرح امریکا پرل ہاربر پر بمباری کے بعد یا نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جنگ بندی پر راضی نہیں ہوا تھا، اسی طرح اسرائیل بھی سات اکتوبر کے حملوں کے بعد حماس کے ساتھ دشمنی ختم کرنے پر راضی نہیں ہو گا۔
اسرائیل کا قیام 1948 کو ہوا اور امریکا کے صدر Harry Truman نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس کی وجہ اس کی اسرائیل سے ذاتی روابط اور کاروباری شراکت داری تھی۔اس وقت بھی اسرائیل اور امریکا کی وسیع کاروباری شراکت داری ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق 7.6 ملین یہودی امریکا میں رہائش پذیر ہیں، لیکن تمام یہودی صیہونی سوچ نہیں رکھتے۔ امریکا کے یہودیوں نے فلسطین کے حق میں مظاہرہ کیا، جس پر ٹرمپ کا شدید ردعمل بھی سامنے آیا، متعدد یہودی گرفتار کیے گئے۔
امریکا کے یہودی ہر شعبے میں نمایاں طور پر شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ صدر جو بائیڈن واضح طور پر اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ حماس کے 17 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد، اسرائیل کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے اور وہ ردعمل کے طور پر نہتے فلسطینیوں کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے، جس پر دنیا کی امن پسند اقوام شدید مذمت کررہی ہیں۔ اسرائیل نے حماس کو مٹانے اور فلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے ہر حد پار کردی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ وہ دو ایٹم بموں جتنی بمباری غزہ پر کرچکا ہے۔ اس نے کیمیائی ہتھیاروں کا الگ استعمال کیا ہے، جو عمل جنگی جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈونٹیلا روویرا نے الجزیرہ کو بتایاکہ غزہ اور لبنان میں 10، 11، 16 اور 17 اکتوبر کو ہونے والے چار واقعات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسرائیل نے شہری علاقوں میں سفید فاسفورس کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
روویرا نے کہا کہ ''جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان سے تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ ماضی میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے سفید فاسفورس کا استعمال شہریوں کی آبادی کے لیے تباہ کن نتائج کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جسے کبھی بھی ان علاقوں میں استعمال نہیں کیا جانا چاہیے جہاں عام شہری ہوں۔''
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تیسری جنگ عظیم چھڑی اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تو دنیا شدید ذہنی و جانی نقصان اٹھائے گی۔ اس وقت بھی جنگوں اور ہتھیاروں کے استعمال و تجربات سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ سپر پاورز کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے میں خرچ کیا جارہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بیس کروڑ انسان ہر صدی میں قتل کیے جاتے رہے ہیں۔ غیر منطقی جنگیں،خانہ جنگی،معاشی عدم استحکام و سیاسی بحران نے ایک عام آدمی کی ذ ہنی صحت تباہ کردی ہے۔بہرکیف گزشتہ دنوں عرب لیگ کا اجلاس بلایا گیا۔ ساتھ میں ایران اور عراق نے مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس بھی بلایا مگر تا حال بمباری نہ رک سکی۔
ایک اندازے کے مطابق نو ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں،جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ ہزاروں زخمی ہیں اور انھیں مناسب طبی امداد مہیا نہیں ہے۔ کئی لوگ ملبے میں دبے ہوئے ہیں مگر مسلسل بمباری کے باعث امدادی کاموں کے حوالے سے پیش رفت ناممکن ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ اس وقت ایران کسی بڑے جنگی تناؤ کے خطرے میں نہیں پڑنا چاہتاجب کہ ترکی نے واضح موقف اختیار کیا ہے۔ کویت کا شروع دن سے اسرائیل کے خلاف واضح موقف رہا ہے۔
ایک ویب سائٹ کے مطابق کویت کے پارلیمان کے اسپیکر مرزوق الغنم اور 18 ارکان پارلیمان نے ایک قانونی مسودے پر رائے شماری کرانے پر زور دیا جو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے پر پابندی عائد کرنے اور بائیکاٹ کرنے کے بارے میں تھا۔ اسپیکر مرزوق نے اپنی تقریر میں اسرائیلیوں کو بچوں و معصوم فلسطینیوں کا قاتل قرار دیتے ہوئے انھیں ایوان سے نکل جانے کے لیے کہا جس پر اسرائیل کے اراکین باہر چلے گئے۔
ادھر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان، نے بھی فلسطینیوں کے حق میں بات کی ہے۔ چائنا نے دو ریاستی حل اور تصفیے پر زور دیا ہے۔ روس، آئرلینڈ، عرب اور اسلامی دنیا کی جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا مطلب حماس کے آگے جھک جانا ہے۔
دوسری جانب نیتن یاہو کو اپنی افواج اور عوام تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ حماس کے حیران کن حملے کے فوائد اور نقصانات سامنے آرہے ہیں۔ دنیا بھر سے پہلی بار فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ فلسطین پر برسوں سے اسرائیل کے گھناؤنے مظالم کے خلاف دنیا آواز اٹھانے لگی ہے۔ دنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے تاہم اسرائیل کو امریکا و یورپ کی واضح حمایت حاصل ہے۔
حماس کی جنگی حکمت عملی حیران کن ہے۔ حماس اور اسرائیلی افواج کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اسرائیل کے پاس جدید جنگی آلات ہیں جب کہ حماس کے پاس جہاد کا جذبہ ہے۔ دنیا حماس کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے جب کہ وہ وجود کی بقا کی جنگ تنہا لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل اپنے مظالم، تعصب اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے اور تنہا ہوتا جارہا ہے۔ دنیا کے ممالک اس سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔
عرب دنیا اپنی خوش گمانیوں میں مگن ہے اور تیسری دنیا کے مسلمان ملک کرپشن،جمہوری عدم استحکام، کمزور پارلیمانی نظام اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں،لہٰذا وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ فلسطین کی مدد کرسکیں۔ اس وقت فلسطین میں صیہونی افواج کے مظالم جاری ہیں۔ اسکول بند ہیں اور سیکڑوں طالب علم شہید ہوچکے ہیں۔ اس وقت غزہ بچوں کا بڑا قبرستان بن چکا ہے!
اسرائیل نے زمینی فوج، بلڈوزر اور ٹینکس بھیج کر فلسطین کا قتل عام شروع کروادیا ہے۔ انٹرنیٹ بند کردیا، اسپتال اجاڑدیے،پانی، ادویات اور غذا کی ترسیل بند ہے اور امریکا اور یورپ کی مہذب اقوام خاموش تماشائی ہیں۔ یہ جمہوریت کے دعویدارجو خود جنگ و خانہ جنگی کا سامنا کرتے رہے ہیں، جو وجود کی بقا کی جنگ اور آزادی کے مفہوم سے اچھی طرح واقف ہیں، بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور فلسطین کربلا کا منظر پیش کررہا ہے۔
اقوام متحدہ مکمل طور پر فلسطین کے قتل عام کے سلسلے میں ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد دنیا میں امن و تحفظ قائم کرنا، انسانی حقوق کی پشت پناہی اور انسانی رواداری کے طور پر امداد فراہم کرنا ہے۔ اقوام متحدہ نے کم ہی ملکوں کے اندرونی و بیرونی خلفشار میں باہمی تصفیہ کروانے میں واضح کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
روانڈا کی نسل کشی کی مہم کی مثال سامنے ہے جس میں اقوام متحدہ مکمل ناکام رہا۔15 دسمبر 1999 میں پبلک انکوائری میں کہا گیا کہ وسائل کی کمی،سیاسی قوت ارادی نہ ہونے کی وجہ سے اور درست تجزیہ و نتائج نہ ملنے پر اقوام متحدہ کو ناکامی کاسامنا کرنا پڑا۔ اب دوسری بار فلسطین کے معاملے میں اقوام متحدہ بے بس دکھائی دے رہا ہے۔
سیکریٹری جنرل و کئی ممالک کے ممبران کی جنگ بندی کی ہدایات کے باوجود، اسرائیل فلسطین پر فضائی اور زمینی حملے کررہا ہے اور بے گناہ فلسطینی بڑی تعداد میں شہید کیے جارہے ہیں،مگر اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ جس طرح امریکا پرل ہاربر پر بمباری کے بعد یا نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جنگ بندی پر راضی نہیں ہوا تھا، اسی طرح اسرائیل بھی سات اکتوبر کے حملوں کے بعد حماس کے ساتھ دشمنی ختم کرنے پر راضی نہیں ہو گا۔
اسرائیل کا قیام 1948 کو ہوا اور امریکا کے صدر Harry Truman نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس کی وجہ اس کی اسرائیل سے ذاتی روابط اور کاروباری شراکت داری تھی۔اس وقت بھی اسرائیل اور امریکا کی وسیع کاروباری شراکت داری ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق 7.6 ملین یہودی امریکا میں رہائش پذیر ہیں، لیکن تمام یہودی صیہونی سوچ نہیں رکھتے۔ امریکا کے یہودیوں نے فلسطین کے حق میں مظاہرہ کیا، جس پر ٹرمپ کا شدید ردعمل بھی سامنے آیا، متعدد یہودی گرفتار کیے گئے۔
امریکا کے یہودی ہر شعبے میں نمایاں طور پر شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ صدر جو بائیڈن واضح طور پر اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ حماس کے 17 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد، اسرائیل کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے اور وہ ردعمل کے طور پر نہتے فلسطینیوں کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے، جس پر دنیا کی امن پسند اقوام شدید مذمت کررہی ہیں۔ اسرائیل نے حماس کو مٹانے اور فلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے ہر حد پار کردی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ وہ دو ایٹم بموں جتنی بمباری غزہ پر کرچکا ہے۔ اس نے کیمیائی ہتھیاروں کا الگ استعمال کیا ہے، جو عمل جنگی جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈونٹیلا روویرا نے الجزیرہ کو بتایاکہ غزہ اور لبنان میں 10، 11، 16 اور 17 اکتوبر کو ہونے والے چار واقعات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسرائیل نے شہری علاقوں میں سفید فاسفورس کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
روویرا نے کہا کہ ''جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان سے تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ ماضی میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے سفید فاسفورس کا استعمال شہریوں کی آبادی کے لیے تباہ کن نتائج کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جسے کبھی بھی ان علاقوں میں استعمال نہیں کیا جانا چاہیے جہاں عام شہری ہوں۔''
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تیسری جنگ عظیم چھڑی اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تو دنیا شدید ذہنی و جانی نقصان اٹھائے گی۔ اس وقت بھی جنگوں اور ہتھیاروں کے استعمال و تجربات سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ سپر پاورز کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے میں خرچ کیا جارہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بیس کروڑ انسان ہر صدی میں قتل کیے جاتے رہے ہیں۔ غیر منطقی جنگیں،خانہ جنگی،معاشی عدم استحکام و سیاسی بحران نے ایک عام آدمی کی ذ ہنی صحت تباہ کردی ہے۔بہرکیف گزشتہ دنوں عرب لیگ کا اجلاس بلایا گیا۔ ساتھ میں ایران اور عراق نے مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس بھی بلایا مگر تا حال بمباری نہ رک سکی۔
ایک اندازے کے مطابق نو ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں،جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ ہزاروں زخمی ہیں اور انھیں مناسب طبی امداد مہیا نہیں ہے۔ کئی لوگ ملبے میں دبے ہوئے ہیں مگر مسلسل بمباری کے باعث امدادی کاموں کے حوالے سے پیش رفت ناممکن ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ اس وقت ایران کسی بڑے جنگی تناؤ کے خطرے میں نہیں پڑنا چاہتاجب کہ ترکی نے واضح موقف اختیار کیا ہے۔ کویت کا شروع دن سے اسرائیل کے خلاف واضح موقف رہا ہے۔
ایک ویب سائٹ کے مطابق کویت کے پارلیمان کے اسپیکر مرزوق الغنم اور 18 ارکان پارلیمان نے ایک قانونی مسودے پر رائے شماری کرانے پر زور دیا جو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے پر پابندی عائد کرنے اور بائیکاٹ کرنے کے بارے میں تھا۔ اسپیکر مرزوق نے اپنی تقریر میں اسرائیلیوں کو بچوں و معصوم فلسطینیوں کا قاتل قرار دیتے ہوئے انھیں ایوان سے نکل جانے کے لیے کہا جس پر اسرائیل کے اراکین باہر چلے گئے۔
ادھر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان، نے بھی فلسطینیوں کے حق میں بات کی ہے۔ چائنا نے دو ریاستی حل اور تصفیے پر زور دیا ہے۔ روس، آئرلینڈ، عرب اور اسلامی دنیا کی جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا مطلب حماس کے آگے جھک جانا ہے۔
دوسری جانب نیتن یاہو کو اپنی افواج اور عوام تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ حماس کے حیران کن حملے کے فوائد اور نقصانات سامنے آرہے ہیں۔ دنیا بھر سے پہلی بار فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ فلسطین پر برسوں سے اسرائیل کے گھناؤنے مظالم کے خلاف دنیا آواز اٹھانے لگی ہے۔ دنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے تاہم اسرائیل کو امریکا و یورپ کی واضح حمایت حاصل ہے۔
حماس کی جنگی حکمت عملی حیران کن ہے۔ حماس اور اسرائیلی افواج کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اسرائیل کے پاس جدید جنگی آلات ہیں جب کہ حماس کے پاس جہاد کا جذبہ ہے۔ دنیا حماس کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے جب کہ وہ وجود کی بقا کی جنگ تنہا لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل اپنے مظالم، تعصب اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے اور تنہا ہوتا جارہا ہے۔ دنیا کے ممالک اس سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔
عرب دنیا اپنی خوش گمانیوں میں مگن ہے اور تیسری دنیا کے مسلمان ملک کرپشن،جمہوری عدم استحکام، کمزور پارلیمانی نظام اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں،لہٰذا وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ فلسطین کی مدد کرسکیں۔ اس وقت فلسطین میں صیہونی افواج کے مظالم جاری ہیں۔ اسکول بند ہیں اور سیکڑوں طالب علم شہید ہوچکے ہیں۔ اس وقت غزہ بچوں کا بڑا قبرستان بن چکا ہے!