’’مٹھی بھر زندگی‘‘ اور دوسری کتابیں
’’محبت کا سفر‘‘ مہر جمالی کے شعری مجموعے کا نام ہے۔ ان کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ حقیقتاً محبت کی شاعرہ ہیں
رحمن نشاط سینئر افسانہ نگار ہیں، تنقید پر بھی ان کی گہری نگاہ اور مطالعہ وسیع ہے، پانچ افسانوں کے مجموعے شایع ہو چکے ہیں، آئینے میں سورج کے عنوان سے ان کا پہلا مجموعہ شایع ہوا تھا۔
''بے چھت آسمان'' دوسرا اور تیسرا ''پانی پر لکیر''، پانیوں میں گھلتی زمین چوتھامجموعہ تھا اور پانچواں ''مٹھی بھر زندگی۔'' یہ مجموعہ 2023 میں شایع ہوا۔ گویا تازہ افسانوں کی فصل تیار تھی جسے انھوں نے سینچا پروان چڑھایا اور پھر اس فصل کو کتاب میں مقید کر دیا۔ یہ کتاب قارئین تک پہنچی اور قارئین ان کے افسانے پڑھ کر مصنف کو داد دیے بغیر نہیں رہے۔
مصنف کے بقول ''میرے بہت سے پڑھنے والے کہتے ہیں کہ میرے بیشتر افسانے شاہکار ہیں، اگر ایسا ہے تو شکر اللہ کا اور اگر ایسا نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے اتنی زندگی اور توانائی عطا فرمائے کہ میں کوئی شاہکار تخلیق کر کے آپ کی امانت لوٹا سکوں، اس سے پہلے اگر مر جاؤں تو یہ قرض معاف کر دیجیے۔''
مصنف کی تحریر سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ان کا تخلیقی سفر 5 دہائیوں پر مشتمل ہے نیز یہ کہ ان کا پہلا افسانہ کراچی کے ماہنامہ ''سوداگر'' کے سالنامے میں شایع ہوا تھا۔ پچاس برسوں میں بہت محبت، عزت، احترام، پذیرائی اور شہرت ملی، ادبی پیشہ ورانہ خدمات پر بے شمار اعزازات، ایوارڈ اور انعامات حاصل کیے۔ انھوں نے اپنے مضمون کی آخری سطور میں اپنے والدین، دوست احباب اور اہل خانہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔
چاک فکشن فورم کی روح رواں اور افسانہ نگار صائمہ نفیس نے کمپوزنگ کرنے کے ساتھ چاک فکشن فورم کی طرف سے کتاب کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا۔ سٹی بک پوائنٹ سے یہ شایع ہوئی ہے۔ 20 افسانوں اور 128 صفحات پر مشتمل ہے۔
میں نے رحمن نشاط کے کئی افسانے پڑھے لیکن مجھے جو سب سے زیادہ افسانہ پسند آیا وہ کتاب کا پہلا افسانہ بعنوان ''واہمہ'' تھا، بہت خوبصورت اور مکمل افسانہ ہے۔
مصنف نے ابتدا میں ہی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ پہلا پیراگراف پڑھنے کے بعد ہی قاری کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ لوگ اپنے اپنے عقیدے، علم اور اپنی مثبت اور منفی سوچ کے حوالے سے اپنے لیے خاص دن، مخصوص لباس اور تاریخ کو اہمیت دیتے ہیں۔ مصنف نے چند لوگوں کی مثالیں بھی دی ہیں کہ کس طرح لوگ توہمات کا شکار ہوتے ہیں اور کچھ کام مخصوص ایام میں کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں تب وہ عمر بھر اپنے عقیدے کو اپنانے میں مستقل مزاج نظر آتے ہیں۔
مثلاً ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت اپنے تمام کام منگل کو انجام دیتی ہے، اسکواش کے ایک مشہور کھلاڑی کو اس بات کا یقین ہے کہ اپنی پیشانی پر سفید رومال باندھنے سے میچ میں کامیابی سو فی صد ہے، اسی طرح ایک کرکٹ کے کھلاڑی کا وہم یہ ہے کہ اس کی موت سجدے کی حالت میں ہوگی۔
افسانہ ''واہمہ'' کی کہانی اسکواش کے کھلاڑی کے ہی گرد گھومتی ہے اس کا یقین اس قدر پختہ ہے کہ اس نے نماز پڑھنا ہی چھوڑ دی گویا زندگی پر موت کا خوف غالب آ چکا ہے، چونکہ وہ شہرت رکھتا ہے اس کی منفی سوچ یا وہم کی کہانی دور دور تک پہنچ جاتی ہے اس کی مخالفت کرنے والے بھی میدان میں کود جاتے ہیں اور مرحلہ در مرحلہ اس کا کھیل کامیابی کی طرف سفر کرنے لگتا ہے اور اس کی خوش قسمتی نے زندگی میں پہلی بار سنچری اسکور کرلی تھی۔
سب حسب دستور مبارک بادی پیش کر رہے تھے اس نے تماشائیوں کے تحسین آمیز نعروں کا جواب دیا اور دوسرے ہی لمحے وہ حالت سجدہ میں تھا۔ یہ سب کچھ بے اختیار اور بنا سوچے سمجھے ہوا کہ اس رب نے کامیابی کی مالا کو اس کے گلے کی زینت بنا دیا تھا۔ یہ افسانہ ان لوگوں کے لیے سبق کی مانند ہے جن کی ایمانی قوت کمزور اور تقدیر پر بے یقینی کی قوت حاوی ہے، چونکہ کوئی بھی کام اللہ کے حکم کے مطابق پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا ہے، افسانے کی خوبی اس کا اختصار، تجسس کی فضا اور ماحول سازی ہے۔
''خوش گمان'' ایک بہترین اور کامیاب افسانہ ہے اور مایوس لوگوں کو اندھیرے سے روشنی میں لانے کا ہنر سکھاتا ہے، مصنف نے خوبصورت اور دل فریب مناظر کی نقاب کشائی کی ہے، یہ بھی سچ ہے کہ لوگ خوب صورت پہلوؤں اور زندگی میں آنے والی خوشیوں کو فراموش کرکے معمولی معمولی تکلیف دہ باتوں کو سوچ کر دل گرفتہ ہو جاتے ہیں۔
مصنف پارک میں جاتا ہے اور شام کا نظارہ، پارک کی رونقیں جو وہ ڈائری میں محفوظ کرتا رہا ہے انھیں وہ دماغ کی چلمن پر روشن کر رہا ہے کہ خوش کن یادیں اس کا سرمایہ ہیں انھی یادوں میں کرن کی شادی کی گہما گہمی، سورج کے غروب ہونے کا نظارہ اور پرندوں کی اپنے آشیانوں کی طرف واپسی، غول کے غول چہچہاتے، سریلی اور میٹھی بولیاں بولتے محو پرواز ہیں۔
کتنا حسین منظر ہے، ڈوبتا ہوا سورج، آسمان پر سرخی مائل رنگ اور آہستہ آہستہ پھیلتا ملگجا سا اندھیرا، سحر انگیز سماں ہے۔ افسانے کی اختتامی سطور قاری کو چونکا دیتی ہیں جب وہ بصارت سے محروم شخص اپنی سفید چھڑی تلاش کرتا ہے۔
ٹائٹل اسٹوری ''مٹھی بھر زندگی'' مختصر لیکن مکمل افسانہ ہے تشنگی کا احساس ہرگز نہیں ہوتا ہے، غالباً یہ افسانہ مصنف کا پسندیدہ افسانہ رہا ہوگا جب ہی انھوں نے افسانے کے عنوان کو کتاب کا نام دیا ہے۔ اپنے مضمون میں اس کی وضاحت بھی کی ہے، ہر لکھاری کی کسی بھی فن پارے کے بارے میں اپنی علیحدہ رائے ہوتی ہے، میری ذاتی رائے بھی مصنف کی رائے سے اختلاف رکھتی ہے۔
رحمن نشاط کے سب ہی افسانے معاشرتی مسائل کے اردگرد گھومتے ہیں ان کا اسلوب بیان دلکش ہے، میرے اپنے خیال کے مطابق مذکورہ مجموعے کے افسانے دوسرے افسانوں کی نسبت زیادہ دل کش اور پراثر ہیں۔ کفایت لفظی ان کے افسانوں کی شناخت ہے اس قدر منفرد اور خوبصورت افسانوں کی تخلیق پر میں خلوص دل کے ساتھ مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
''مٹی کے مکیں'' عینی عرفان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے سرکار پبلشر ملتان سے یہ شایع ہوا ہے 26 افسانوں اور 244صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔عینی عرفان کی یہ پہلی کاوش ہے، انتساب اپنے والدین کے نام لکھا ہے، بے شک والدین کی دعائیں اور محبت اولاد کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہیں۔
عینی عرفان کے افسانے اتنے طویل ہیں اور نہ مختصر کہ طوالت سے گھبرا کر قاری اپنے مطالعے کا سفر جاری نہ رکھ سکے ، مجھے خوشی ہے کہ عینی کے افسانے فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، بیانیہ طرز کے افسانے قاری کو متوجہ کرتے ہیں، مکالمہ اور منظر نگاری کہانی کے پیچ و خم کے ساتھ رواں دواں نظر آتی ہے، میرے مطالعے میں جو سب سے پہلے افسانہ آیا وہ تھا ''ذرا دیر ہوگئی''۔
عینی نے ایک ایسے خاندان کی کہانی بیان کی ہے جو متوسط ہے اور اس افسانے کا کلیدی کردار جہانگیر اس خاندان کا بڑا بیٹا جس کی نفرت، محبت، محنت، افلاس اور دولت کی فراوانی کے ساتھ خون کے رشتوں کو اہمیت نہ دینا، لیکن ایک وقت آتا ہے جب اسے اپنی کوتاہی کا احساس ہو جاتا ہے، دوسرا افسانہ ''مٹی کے مکیں'' اس افسانے میں بھی ایک ایسی ساس کا کردار اور پھر اس کا انجام دکھایا گیا ہے جو ظالم اور منافقت و نفرت کا بیج بو کر اس کے کڑوے پھل اپنی بہو کو کھلاتی ہے اور بدترین انجام سے دوچار ہوتی ہے۔
بے شک اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔عینی عرفان کے افسانے پڑھنے کے بعد میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ کہانی لکھنے کے فن سے وہ بہت اچھی طرح واقف ہیں اگر وہ یوں ہی لکھتی رہیں تو ایک دن ممتاز قلم کاروں کی صف میں شامل ہو جائیں گی۔
''محبت کا سفر'' مہر جمالی کے شعری مجموعے کا نام ہے۔ ان کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ حقیقتاً محبت کی شاعرہ ہیں۔ انھوں نے نظم کی جگہ غزل کا انتخاب کیا ہے، بڑی بات ہے ورنہ نظمیں لکھنا زیادہ آسان اور سہل ہے۔ بہرحال ان کا شعری ذوق اور کاوش قابل تعریف ہے۔
مہرجمالی اعلیٰ تعلیم یافتہ، بااخلاق اور اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکی ہیں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے افسانے اور شاعری کی دنیا میں ادبی امور انجام دے رہی ہیں۔ مہرجمالی کی مثبت اور انمول محبت کی مہک نے ان سے بہت سا کلام لکھوا دیا ہے، نمونے کے طور پر ان کے کلام سے چند اشعار۔
ہم سے تو محبت میں تجارت نہیں ہوتی
اے جان غزل ایسی محبت نہیں ہوتی
مطلع ہے
چہرہ اداس ہے اور یہ آنکھیں جو لال ہیں
یعنی ہمارے پاس بھی ہجر و وصال ہے
میری دعا ہے ان کے قلم میں اللہ مزید توانائی بخشے۔( آمین)
''بے چھت آسمان'' دوسرا اور تیسرا ''پانی پر لکیر''، پانیوں میں گھلتی زمین چوتھامجموعہ تھا اور پانچواں ''مٹھی بھر زندگی۔'' یہ مجموعہ 2023 میں شایع ہوا۔ گویا تازہ افسانوں کی فصل تیار تھی جسے انھوں نے سینچا پروان چڑھایا اور پھر اس فصل کو کتاب میں مقید کر دیا۔ یہ کتاب قارئین تک پہنچی اور قارئین ان کے افسانے پڑھ کر مصنف کو داد دیے بغیر نہیں رہے۔
مصنف کے بقول ''میرے بہت سے پڑھنے والے کہتے ہیں کہ میرے بیشتر افسانے شاہکار ہیں، اگر ایسا ہے تو شکر اللہ کا اور اگر ایسا نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے اتنی زندگی اور توانائی عطا فرمائے کہ میں کوئی شاہکار تخلیق کر کے آپ کی امانت لوٹا سکوں، اس سے پہلے اگر مر جاؤں تو یہ قرض معاف کر دیجیے۔''
مصنف کی تحریر سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ان کا تخلیقی سفر 5 دہائیوں پر مشتمل ہے نیز یہ کہ ان کا پہلا افسانہ کراچی کے ماہنامہ ''سوداگر'' کے سالنامے میں شایع ہوا تھا۔ پچاس برسوں میں بہت محبت، عزت، احترام، پذیرائی اور شہرت ملی، ادبی پیشہ ورانہ خدمات پر بے شمار اعزازات، ایوارڈ اور انعامات حاصل کیے۔ انھوں نے اپنے مضمون کی آخری سطور میں اپنے والدین، دوست احباب اور اہل خانہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔
چاک فکشن فورم کی روح رواں اور افسانہ نگار صائمہ نفیس نے کمپوزنگ کرنے کے ساتھ چاک فکشن فورم کی طرف سے کتاب کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا۔ سٹی بک پوائنٹ سے یہ شایع ہوئی ہے۔ 20 افسانوں اور 128 صفحات پر مشتمل ہے۔
میں نے رحمن نشاط کے کئی افسانے پڑھے لیکن مجھے جو سب سے زیادہ افسانہ پسند آیا وہ کتاب کا پہلا افسانہ بعنوان ''واہمہ'' تھا، بہت خوبصورت اور مکمل افسانہ ہے۔
مصنف نے ابتدا میں ہی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ پہلا پیراگراف پڑھنے کے بعد ہی قاری کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ لوگ اپنے اپنے عقیدے، علم اور اپنی مثبت اور منفی سوچ کے حوالے سے اپنے لیے خاص دن، مخصوص لباس اور تاریخ کو اہمیت دیتے ہیں۔ مصنف نے چند لوگوں کی مثالیں بھی دی ہیں کہ کس طرح لوگ توہمات کا شکار ہوتے ہیں اور کچھ کام مخصوص ایام میں کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں تب وہ عمر بھر اپنے عقیدے کو اپنانے میں مستقل مزاج نظر آتے ہیں۔
مثلاً ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت اپنے تمام کام منگل کو انجام دیتی ہے، اسکواش کے ایک مشہور کھلاڑی کو اس بات کا یقین ہے کہ اپنی پیشانی پر سفید رومال باندھنے سے میچ میں کامیابی سو فی صد ہے، اسی طرح ایک کرکٹ کے کھلاڑی کا وہم یہ ہے کہ اس کی موت سجدے کی حالت میں ہوگی۔
افسانہ ''واہمہ'' کی کہانی اسکواش کے کھلاڑی کے ہی گرد گھومتی ہے اس کا یقین اس قدر پختہ ہے کہ اس نے نماز پڑھنا ہی چھوڑ دی گویا زندگی پر موت کا خوف غالب آ چکا ہے، چونکہ وہ شہرت رکھتا ہے اس کی منفی سوچ یا وہم کی کہانی دور دور تک پہنچ جاتی ہے اس کی مخالفت کرنے والے بھی میدان میں کود جاتے ہیں اور مرحلہ در مرحلہ اس کا کھیل کامیابی کی طرف سفر کرنے لگتا ہے اور اس کی خوش قسمتی نے زندگی میں پہلی بار سنچری اسکور کرلی تھی۔
سب حسب دستور مبارک بادی پیش کر رہے تھے اس نے تماشائیوں کے تحسین آمیز نعروں کا جواب دیا اور دوسرے ہی لمحے وہ حالت سجدہ میں تھا۔ یہ سب کچھ بے اختیار اور بنا سوچے سمجھے ہوا کہ اس رب نے کامیابی کی مالا کو اس کے گلے کی زینت بنا دیا تھا۔ یہ افسانہ ان لوگوں کے لیے سبق کی مانند ہے جن کی ایمانی قوت کمزور اور تقدیر پر بے یقینی کی قوت حاوی ہے، چونکہ کوئی بھی کام اللہ کے حکم کے مطابق پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا ہے، افسانے کی خوبی اس کا اختصار، تجسس کی فضا اور ماحول سازی ہے۔
''خوش گمان'' ایک بہترین اور کامیاب افسانہ ہے اور مایوس لوگوں کو اندھیرے سے روشنی میں لانے کا ہنر سکھاتا ہے، مصنف نے خوبصورت اور دل فریب مناظر کی نقاب کشائی کی ہے، یہ بھی سچ ہے کہ لوگ خوب صورت پہلوؤں اور زندگی میں آنے والی خوشیوں کو فراموش کرکے معمولی معمولی تکلیف دہ باتوں کو سوچ کر دل گرفتہ ہو جاتے ہیں۔
مصنف پارک میں جاتا ہے اور شام کا نظارہ، پارک کی رونقیں جو وہ ڈائری میں محفوظ کرتا رہا ہے انھیں وہ دماغ کی چلمن پر روشن کر رہا ہے کہ خوش کن یادیں اس کا سرمایہ ہیں انھی یادوں میں کرن کی شادی کی گہما گہمی، سورج کے غروب ہونے کا نظارہ اور پرندوں کی اپنے آشیانوں کی طرف واپسی، غول کے غول چہچہاتے، سریلی اور میٹھی بولیاں بولتے محو پرواز ہیں۔
کتنا حسین منظر ہے، ڈوبتا ہوا سورج، آسمان پر سرخی مائل رنگ اور آہستہ آہستہ پھیلتا ملگجا سا اندھیرا، سحر انگیز سماں ہے۔ افسانے کی اختتامی سطور قاری کو چونکا دیتی ہیں جب وہ بصارت سے محروم شخص اپنی سفید چھڑی تلاش کرتا ہے۔
ٹائٹل اسٹوری ''مٹھی بھر زندگی'' مختصر لیکن مکمل افسانہ ہے تشنگی کا احساس ہرگز نہیں ہوتا ہے، غالباً یہ افسانہ مصنف کا پسندیدہ افسانہ رہا ہوگا جب ہی انھوں نے افسانے کے عنوان کو کتاب کا نام دیا ہے۔ اپنے مضمون میں اس کی وضاحت بھی کی ہے، ہر لکھاری کی کسی بھی فن پارے کے بارے میں اپنی علیحدہ رائے ہوتی ہے، میری ذاتی رائے بھی مصنف کی رائے سے اختلاف رکھتی ہے۔
رحمن نشاط کے سب ہی افسانے معاشرتی مسائل کے اردگرد گھومتے ہیں ان کا اسلوب بیان دلکش ہے، میرے اپنے خیال کے مطابق مذکورہ مجموعے کے افسانے دوسرے افسانوں کی نسبت زیادہ دل کش اور پراثر ہیں۔ کفایت لفظی ان کے افسانوں کی شناخت ہے اس قدر منفرد اور خوبصورت افسانوں کی تخلیق پر میں خلوص دل کے ساتھ مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
''مٹی کے مکیں'' عینی عرفان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے سرکار پبلشر ملتان سے یہ شایع ہوا ہے 26 افسانوں اور 244صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔عینی عرفان کی یہ پہلی کاوش ہے، انتساب اپنے والدین کے نام لکھا ہے، بے شک والدین کی دعائیں اور محبت اولاد کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہیں۔
عینی عرفان کے افسانے اتنے طویل ہیں اور نہ مختصر کہ طوالت سے گھبرا کر قاری اپنے مطالعے کا سفر جاری نہ رکھ سکے ، مجھے خوشی ہے کہ عینی کے افسانے فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، بیانیہ طرز کے افسانے قاری کو متوجہ کرتے ہیں، مکالمہ اور منظر نگاری کہانی کے پیچ و خم کے ساتھ رواں دواں نظر آتی ہے، میرے مطالعے میں جو سب سے پہلے افسانہ آیا وہ تھا ''ذرا دیر ہوگئی''۔
عینی نے ایک ایسے خاندان کی کہانی بیان کی ہے جو متوسط ہے اور اس افسانے کا کلیدی کردار جہانگیر اس خاندان کا بڑا بیٹا جس کی نفرت، محبت، محنت، افلاس اور دولت کی فراوانی کے ساتھ خون کے رشتوں کو اہمیت نہ دینا، لیکن ایک وقت آتا ہے جب اسے اپنی کوتاہی کا احساس ہو جاتا ہے، دوسرا افسانہ ''مٹی کے مکیں'' اس افسانے میں بھی ایک ایسی ساس کا کردار اور پھر اس کا انجام دکھایا گیا ہے جو ظالم اور منافقت و نفرت کا بیج بو کر اس کے کڑوے پھل اپنی بہو کو کھلاتی ہے اور بدترین انجام سے دوچار ہوتی ہے۔
بے شک اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔عینی عرفان کے افسانے پڑھنے کے بعد میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ کہانی لکھنے کے فن سے وہ بہت اچھی طرح واقف ہیں اگر وہ یوں ہی لکھتی رہیں تو ایک دن ممتاز قلم کاروں کی صف میں شامل ہو جائیں گی۔
''محبت کا سفر'' مہر جمالی کے شعری مجموعے کا نام ہے۔ ان کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ حقیقتاً محبت کی شاعرہ ہیں۔ انھوں نے نظم کی جگہ غزل کا انتخاب کیا ہے، بڑی بات ہے ورنہ نظمیں لکھنا زیادہ آسان اور سہل ہے۔ بہرحال ان کا شعری ذوق اور کاوش قابل تعریف ہے۔
مہرجمالی اعلیٰ تعلیم یافتہ، بااخلاق اور اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکی ہیں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے افسانے اور شاعری کی دنیا میں ادبی امور انجام دے رہی ہیں۔ مہرجمالی کی مثبت اور انمول محبت کی مہک نے ان سے بہت سا کلام لکھوا دیا ہے، نمونے کے طور پر ان کے کلام سے چند اشعار۔
ہم سے تو محبت میں تجارت نہیں ہوتی
اے جان غزل ایسی محبت نہیں ہوتی
مطلع ہے
چہرہ اداس ہے اور یہ آنکھیں جو لال ہیں
یعنی ہمارے پاس بھی ہجر و وصال ہے
میری دعا ہے ان کے قلم میں اللہ مزید توانائی بخشے۔( آمین)